لفظ ‘مجبوری’ بھی حیرت میں!

محمد خان مصباح الدین

تقریبا 15 دن پہلے میرا ایک مضموں سوشل میڈیا پر شائع ہوا جسکا عنوان تھا "دم بھر کا یہ سفینہ,پل بھر کی یہ کہانی” اس مضمون میں ایک ایسے گھرانے کا حقیقی ذکر تھا جو کبھی خوشیوں کا مخزن کہا جاتا تھا اسکے چارو طرف محبتوں کے ترانے تھے,خوشیوں کی لہر تھی کہ اچانک زندگی نے کروٹ لی اور پورا گھرانہ مصائب کی لہر میں  آکر بہہ گیا اور آخر میں گھر کا آخری فرد بھی ٹرک حادثے کا شکار ہوکر درد وکرب اور زندگی کے تمام زخموں کی تاب نا لا کر اس دنیا کو الوداع کہہ گیا. کیا کیا درد اس کے سینے میں تھے اور کن کن حسرتوں کو اس نے اپنے دل میں رکھ کر خوابوں کی دنیا سجائی تھی اور آنے والی زندگی کا کیسا اور کونسا سنہرا خواب اس نے دیکھا تھا اسکا اندازہ وہی کر سکتا تھا جو کہ اب اس دنیا میں نہیں ہے_

قارئین کرام!

دن بھر کی تھکان اور کام سے فراغت کے بعد اکثر انسان اطمینان محسوس کرتا ہے لیکن آج میں سوشل میڈیا کیلیے کچھ لکھ نہیں پایا تھا اس لیے میں کافی ادھوراپن محسوس کر رہا تھا اور سونچ ہی رہا تھا کہ کیا لکھوں کہ نیند نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا اور دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد نیند نے اچھا کام کیا,پھرصبح موذن کی صدا کانوں سے ٹکرانے لگی کہ نماز نیند سے بہتر ہے,یہ صداسننے کے بعد کوئی بدنصیب ہی ہوگا جو اس خیر کی طرف سبقت نہ کرے,میں نےنیند کی آغوش سے دامن چھڑایا اور خیر کیطرف چلا گیااسکے بعد پھر وہی شام کا خیال دل میں آیا کہ ابھی تک میں نے کچھ لکھا نہیں ,ابھی سونچ ہی رہا تھا کہ کسی خاص مسئلے پر اپنی قلم کو حرت دوں کہ ایک صاحب سے سوشل میڈیا پے بات ہونے لگی خط وکتابت کے ذریعہ سلام,خیر وعافیت کے بعد باتوں کو سلسلہ آگے بڑھا اور میں نے اپنے ایک مضمون کے تعلق سے جو میں نے انہیں ارسال کیا تھا  پوچھ لیا کہ کیسا تھا۔ تو انہوں نے وہی کیا جو اکثر لوگ کرتے ہیں یعنی تعریف اکثر لوگ یہی کرتے ہیں کہ باتیں چاہے معیار ہے اترے یا نا اترے مگر خوبصورت لفظوں سے انسان کا دل رکھ ہی لیتے ہیں تاکہ اپنا بھی حق ادا ہو جائے سامنے والے کی دلجوئی بھی ہو جائے_

پھر باتوں باتوں میں انہوں نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار بھی کیا اور یہ بھی ذکر کیا کہ ان کے یہاں بھی اسطرح کا واقعہ پیش آچکا ہے مگر پش منظر اس واقعے سے جدا تھا, ہوا یوں کہ ایک غیرمسلم لڑکی نے ایک شادی شدہ مسلم لڑکے سے شادی کر لی اور اس نے اسلام بھی قبول کر لیا اور شادی کے بعد زندگی کا سفر بھی چند سالوں تک ایک ساتھ گزرا بچے بھی ہوئے مگر پوری کائنات اس حقیقت سے وابستہ ہیکہ ایک عورت دنیا کے ہر مصائب کا درد جھیل سکتی ہے, بہت سے زخموں کو لے کر زندہ رہ سکتی ہے مگراپنے شوہر کی اپنی زندگی میں دوسری بیوی (اپنی سوت) نہیں دیکھ سکتی,شاید نئی بیوی کے آجانے سے پہلی بیوی کو اپنے شوہر کی محبت اپنے تئیں ہلکی اور پھیکی محسوس ہو رہی تھی اوراس کے اوپر گراں گزر رہی تھی اور وہ مسلسل اپنے آپ کو بوجھل کرتی جا رہی تھی جسکی وجہ سے وہ مکمل احساس کمتری کا شکار ہوتی گئی اور اسکے بعد حسد اور بغض نے اس کے دل میں جگہ بنائی اور جو کچھ بچا وہ گاوں کی منہ پھٹ عورتوں نے پوری کردی پھر ایک دن عداوت کی آگ نے پہلی بیوی کو انسان سے حیوان بنا دیا اور موقعہ پاکر اپنے شوہر کی نو مسلم بیوی کا گلا دبا کر مار ڈالا.

اتنی بات مکمل کرنے کے بعد موصوف نے کہا کہ میرے قرابت داروں اور میرے چاہنے والوں میں ایسے کئی لوگوں کی روداد میرے پاس موجود ہے جنہوں نے قوم ومذہب کی بنائی ہوئی دیوار کو توڑ کر اور اسکے اصولوں کو جوتی کی نوک پر اچھال کر غیروں کے دامن میں پناہ گزیں ہو گئیں اور انکے رسم و رواج کو اپنا کر آج بھی ایسے زندگی بسر کر رہی ہیں گویا انہوں نے مذہب سے بغاوت نہیں بلکہ آزادی حاصل کی ہو,ایسے لوگ کتنے بدنصیب ہوتے ہیں جو اس مذہب کو ٹھوکر مار کر چلے جاتے ہیں کہ پوری دنیا جسکی تعلیمات کے آگے سر ٹیکتی نظر آتی ہے اور دوسرے تمام مذاہب اسکے آگے پھیکے نظر آتے ہیں ,ایسے بدنصیبوں کا اللہ ہی بھلا کرے_

قارئین کرام!

موصوف کی ایک بات کو لیکر میں بہت حیران ہوں کہ انہوں نے کہا کہ کچھ لڑکیوں نے اپنی مرضی سے غیرمسلم لڑکوں کو اپنا لیا مگر کچھ نے مجبوری کیوجہ سے………!

اس مجبوری لفظ نے مجھے حیرت میں ڈال دیا کہ کیا ایسی بھی مجبوری آ سکتی ہے کہ انسان اپنی غیرت اور ضمیر وظرف کے ساتھ ساتھ مذہب کا بھی سودا کرنے پر مجبور ہو جائے,اس وقت بے ساختہ مین یہ کہنے پے مجبور ہو گیا کہ لفظ "مجبوری” کو ایسی جگہ آپ نے استعمال کر کے اسے بھی شرمندہ کردیا, لیکن انہوں نے بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک لڑکی جسکی شادی اسلامی طرز سے ہوتی ہے, اچھا لڑکا,اچھے گھر والے,شادی کے بعد کی زندگی بھی کچھ دنوں تک اچھی گزری کسی بھی طرح کی کوئی پریشانی پیش نہیں آئی مگر اچانک شوہر میں نا جانے کیسا بدلاو آیا کہ وہ صرف لات جوتوں کی بات کرنے لگا,اسکادن بیوی کو مارنے سے شروع ہوتا اور اسی پے اسکی شام,اسطرح زندگی جہاں بے رنگ ہوئی وہیں زخموں کا سمندر بھی بن گئی اور ساری رونک خاک میں مل گئی,ساری حسررتیں دھری کی دھری رہ گئیں , اوراس کے میکے والے  بھی چند سالوں میں بکھر کے رہ گئے اب کوئی آنسو تک پوچھنے والا نہ تھا یا جو اسکے لیے سہارا بنتے,نہ کوئی ہمدرد,نہ کوئی مدگار,سب ہوس کے بھوکے,جسموں کے شکاری,جو بھی دیکھتا گندی نظروں سے دیکھتا,شوہر سے کوئی مطلب ہی نہیں رہا کہ بیوی کس حال میں ہے کیا کر رہی ہے,گویا سب کے لیے وہ پرائی سی ہو گئی پھر اچانک کسی دن ایک غیر مسلم نے اسکی مجبوری کا فائدہ اٹھایا اور اسے لیکر روانہ ہو گیا اور اس سے شادی کرلی اور اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ورغلا کر اسے اپنے مذہب میں شامل کر لیا_

قارئین کرام!

اسبات سے بالکل انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر دور میں عورت کو ایک کھلونا سمجھا گیا ہے اور اسکے ساتھ جو ظلم و زیادتی ہوئی ہے دوسری جنس پر کسی زمانے میں بھی اتنی زیادتی نہیں ہوئی ہے,دنیا نے ہر دور میں ترقی اور سربلندی کا نعرہ بلند کیا مگر پھر بھی اس  نے عورت پر روپ بدل بدل کرظلم کئے ہیں میں کیا پوری کائنات اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتی_

دنیا میں بے شمار ایسے واقعات ہماری نطروں کے سامنے سے گزرتے ہیں کہ ایک عورت کو اسکے شوہر نے نشے کی حالت میں یا مکمل ہوش وہواس میں قتل کر دیا,کبھی جہیز کیوجہ سے اسکے گھر والوں نے شوہر کے ساتھ مل کر بیوی کو جلا دیا, یا بیوی نے شوہر سے تنگ آکر خودکشی کر لی,اسطرح کے ملتے جلتے واقعات روزانہ آپکو مل جاتے ہیں مگر کیا یہ سب قدم مجبوری میں ہوتے ہیں ,صبر اور زندگی سے مقابلہ کوئی چیز نہیں , کیا اسلامی تعلیمات اتنا تنگ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو مصائب سے نجات نہیں دلا سکتا,کیا قوم میں غیور لوگ بالکل بھی نہیں رہے جو اسطرح کے معاملات سلجھا سکیں ,کیا تمام شیوخ وامام,عابد وزاھد,مذہبی رہنما کوئی بھی نہیں رہے جو اسطرح کے معاملات کو سلجھا کر یا کم سے کم اسلام کی بیٹیوں کو غیروں کی آغوش میں جانے سے بچا سکیں

اگر کوئی شخص اسبات کا مکمل دعوی کرتا ہیکہ سماج میں اسوقت کوئی اچھا یا نیک انسان نہیں ہے تو میں اسکی بات سے انکار کرتا ہوں کیونکہ اگر دنیا اچھے لوگوں سے مکمل خالی ہوتی تو قیامت کا ظہور ہو چکا ہوتا اور دنیا کی مخلوقات اسمیں بسنے والے گھاس لیکر درخت تک,چیونٹی سے لیکر شیر تک,چڑیا سے لیکر انسان تک سب فنا ہو چکے ہوتے مگر ان سب کی بقا اور موجودگی اسبات کی دلیل ہیکہ ابھی دنیا میں رب العلمین عبادت کرنے والے,نیک,خالص,پرہیزگار,متقی,عابدوزاھد,قوم کی فکر کرنے والے,انسانیت کی حفاظت کرنے والے,کمزوروں کو سہارا دینے والے,بےکسوں کادامن تھامنے والے,بیماروں کی دیکھ بھال کرنے والے,مظلوموں کی پکار سن کر لبیک کہنے والے,غریبوں کی مدد کرنے والے ابھی بھی موجود ہیں _

دنیاں میں لاکھوں کروڑوں عورتوں کی مثال موجود ہے جنہوں نے مظالم سہہ کر,زمانے کے لوگوں کی گالیان سن کر اپنی عزت,غیرت,اور مذہب کا سودا نہیں کیا اورتنگ آکر اپنے آپ کو غیروں کے حوالے نہیں کیا بلکہ حالات کا مقابلہ کیا اور زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو قدرت کیطرف سے آزمائش سمجھ کر اسکو قبول کیا اور ایک دن سرخرو ہوکر دنیا کو اپنے صبر کی طاقت دکھا دی,یا جسکو خود بظاہر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی مگر انہوں نے مرتے مرتے اپنے جیسی دوسری مظلوم عورتوں کو اسبات کا پیغام اور سبق دے دیا کہ زندگی میں ہمت ہار کر غیروں کو گلے لگا لینا ہی سب کچھ نہیں ہوتا,زندگی میں حالات کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے اسکو عملی طور پر کر کے عورتوں کو سبق دیا۔ اسکے برعکس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نہیں جنہوں نے غیروں کو اپنوں سے بہتر سمجھ کر اپنا لیا انہوں نے مجبور ہوکر یہ قدم اٹھایا  اور آخر بے چاری کیا کرتی تو انکا یہ کہنا بالکل بے بنیاد اور غلط ہے۔  شاید انہیں اسکا انجام نہیں معلوم :رب کا فرمان ہے”جو شخص اسلام کے علاوہ دوسرا دین لے کر آئیگا وہ قابل قبول نہیں ہوگا”۔ وہ مشرک ہوگیا اور مشرک پر جنت حرام ہے اوراس کا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیش جہنم ہے,نہ تو اسکا کوئی مدگار ہوگا اور نہ معاون_

اللہ سب خو ایسے مصائب سے دور رکھے آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔