دفاعِ اسلام

مدثر احمد

پچھلے دنوں ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر بحث و مباحثے کے دوران آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ کے رکن مفتی اعجازقاسمی نے ایک عورت کے ہاتھ اٹھائے جانے کے بعد جوابی کارروائی کرتے ہوئے جو حملہ کیاہے اس حملے کی ملک بھر میں غیر مسلم ہی نہیں بلکہ کئی مسلم دانشوروں و تنظیموں نے انکی شدید مذمت کی ہے اور انکے ہاتھ اٹھانے پر بزدلانہ حرکت قرار دیاہے۔ خاتون نے بحث کے دوران شدت اختیار کرتے ہوئے مفتی اعجاز قاسمی کو جب ورغلایا اور انہیں تھپڑ رسید کیا تو جواب میں مفتی صاحب نے بھی تین زبردست تھپڑ جڑ دئیے اور اپنا حساب پورا کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مفتی صاحب کو عورت پر ہاتھ اٹھانا چاہئے تھا ؟۔ بھلے ہی عورت نے ان پر حملہ کیا ہو لیکن عورت پر ہاتھ اٹھانے کی اسلام نے ہرگز بھی گنجائش نہیں دی ہے خصوصَا نامحرم عورتوں پر۔ ان باتوں کو ہم جیسوں سے زیادہ اہل علم و مفتیان ہی بہتر جانتے ہیں کہ اسلام میں اس طرح کے حملوں کا جواب کیسے دینے کی اجازت ہے۔

 مفتی صاحب پر تھپر اور مفتی صاحب سے تھپڑ کے معاملے میں ہم روشنی ڈالنے سے زیادہ اس بات پر روشنی ڈالنا چاہیں گے کہ جس طرح سے مفتی اعجاز قاسمی نے اپنی بہادری کا مظاہرہ کیا اس کے لئے شاید ہی شریعت میں گنجائش ہے۔ اس طرح کی حرکت کوئی عام شخص کرتا یا کوئی عام عالم بھی کرتا تو ملک بھر میں اتنی بڑی مذمت نہ ہوتی اور نہ ہی اس پہلو کو میڈیا اچھالتاجتنی کہ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک ذمہ دار رکن کی جانب سے کی گئی ہے۔ اعجاز قاسمی آل انڈیا پرسنل لاء بور ڈ کے رکن ہیں انہوں نے ایسے وقت میں ایک عورت پر ہاتھ اٹھادیا جبکہ ملک بھر میں مسلم پرسنل لاء بورڈ ہی نشانے پر ہے اور اسکے وجود پر خطرہ منڈلا رہاہے۔ ایک طرف حقوق نسواں اور تحفظ نسواں کا ڈھنڈورا پیٹا جارہاہے تو دوسری جانب اسی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک رکن حقوق نسواں کی پامالی ہورہی ہے اور براہ راست نشر ہونے والے پروگرام میں ایک عورت پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک رکن ہاتھ اٹھادیتے ہیں۔ دراصل ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے ٹی وی چینلوں پر ہونے والے ڈیبیٹس پروگرام میں ایسے علماء بھی قیادت کررہے ہیں جن کے پاس نہ تو بحث کو اخلاقی طورپر پیش کرنے کا مادہ ہے نہ ہی کسی بھی مسئلے کو قرآن و حدیث کے حوالے پیش کرنے کا علم ہے۔ ایسے میں اسلام کا صحیح پیغام ہوگا تو بھی کیسے ؟۔

ویسے دیکھا جائے تو مسلمانوں پر اٹھنے والی انگلیوں کا جواب دینے اور میڈیا میں حقیقی پیغام دینے کے لئے ہمارے پاس پہلے سے ہی میڈیا نہیں ہے اسکی وجہ بھی یہی علماء نماء شخصیات ہیں جنہوں نے میڈیا کو اہل اسلام پر حرام یا ممنوع قرار دیا۔ اگر انکے نزدیک واقعی میں میڈیا کو استعمال کرنا اہم ہوتا اور انہیں اسکی اہمیت و افادیت کا احساس ہوتاتو وہ آج ملک بھی میں حقیقی خبروں،  سچائی پر مبنی بحث و مباحثوں کو پیش کرنے کے لئے انکے اپنے ٹی وی چینل ہوتے۔ ہمارے اس مضمون میں تمام علماء دین شامل نہیں ہوتے لیکن اکثر و بیشتر علماء کے بارے میں اہم یہ باتیں کررہے ہیں۔ دلی سے لے کرکنیا کماری تک مسلمانوں کے پاس ایک بھی ٹی وی میڈیا نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ہم نے اس تعلق سے پیش رفت کی ہے۔ جیسے ہی مفتی اعجاز قاسمی نے عورت پر گھونسے لگائے اسکے بعد سوشیل میڈیا میں یہ بحث جاری ہوگئی کہ مولانا کو بدنام کرنے کے لئے ہی ایسا پروگرام منعقد کیا گیا تھا اورمولانا اسکا شکار ہوگئے۔

جی ہاں دراصل ایسا ہی ہواہے۔ زی نیوز میں بحث کے دوران پہلے فرحہ فیض نامی عورت نے مفتی اعجاز قاسمی پر تھپڑ مارا تو اسکے بعد ہی مولانا نے ان پر تھپڑ جڑے لیکن ملک کے تمام میڈیا چینلس میں یہی دکھایا جارہاہے کہ مفتی صاحب نے ہی حملہ کیا۔ اب کوئی ایسا چینل بھی ہے جو اس واردات کی صحیح تصویر پیش کرے۔ کاش کہ ہمارے پاس بھی کوئی چینل ہوتا اور اس میں حقیقی خبریں پیش کی جاتیں اور حقیقت کا آئینہ سامنے رکھا سکتا۔ دوسری جانب الیکٹرانک میڈیا میں جو علماء نماء شخصیات پہنچ رہے ہیں وہ دراصل اپنی شناخت اور شہرت حاصل کرنے کے لئے پہنچ رہے ہیں اگر واقعی میں انہیں بحث و مباحثوں میں شرکت کرنا ہی ہوتو وہ قرآن و حدیث کا حوالہ دے کر شریعت کا دفاع کرسکتے ہیں لیکن بیشتر علماء محض اپنی جانب سے بات رکھتے ہوئے بحث کرتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر انہیں ناکامی ہوتی ہے۔

 اسلام کی تبلیغ ہر جگہ سے کی جاسکتی ہے لیکن ہمارے علماء نے اس محدود بنا لیا ہے اور جب موقع ملتاہے تو وہ اس کا صحیح استعمال نہیں کرتے اور اپنی انانیت و مفاد پرستی کی وجہ سے الٹا اسلام کو بدنام کرنے لگے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب مسلمانوں کو میڈیا کے استعمال،  میڈیا کے قیام اور میڈیا سے دفاع حاصل کرنے کے لئے پہل کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا ورنہ فرقہ پرست میڈیا یوں ہی مسلمانوں کو بدنام کرتا رہیگا اور ہم عورتوں کے ہاتھوں پٹ کر آتے رہیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔