افتخار راغبؔ
جب سے تم غزلوں کے محور ہو گئے
میرے سارے شعر خود سر ہو گئے
…
پھول جیسے ہاتھ میں لے کر گلاب
اُس نے یوں دیکھا کہ پتھّر ہو گئے
…
سر اٹھا کر ظالموں سے بات کی
آج ہم اپنے برابر ہو گئے
…
توڑ دو گے خود فریبی کا حصار
خود کو تم جس دن میسّر ہو گئے
…
رفتہ رفتہ گر گئے بوڑھے شجر
ننھے پودے جب تناور ہو گئے
…
دل میں روشن ہو گیا اُس کا وجود
ذہن و دل راغبؔ منوّر ہو گئے
تبصرے بند ہیں۔