دلت مسئلہ کی جڑ، مداوا کیا ہو

سمیع احمد قریشی ممبئ 

        آجکا زمانہ کسی بھی وقت سے انتہائی ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔  تعلیم ،میڈیکل سائینس، انجیئنیرینگ، زندگی کے متعدد شعبوں میں انتہائی ترقی ہوئی ہو رہی ہے ۔

افسوسناک پہلو ہے کہ آج کا دور انسانیت اخلاقیات میں گرتا بھی جا رہا ہے ۔ مذہب رنگ ونسل ذات  پات کے نام پر قتل غارت گری جاری ہے۔ جب سے مرکز میں آر ایس ایس کی نور نظر بی جے پی کی سرکار آئی ہے ،گویا اخلاقیات کا جنازہ اٹھ چکا ہے ۔ عدم رواداری عام ہے۔ حد تو ہے کہ اس میں، سرکار جو عوام کی مائی باپ ہوتی ہے وہ بذات خود ،خرافات میں شامل ہے ۔ اک طرف ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کا جینا حرام ہے تو دوسری جانب ہندو دلتوں کے حالات بھی د گرگوں ہیں۔

ہندوتواوادی ، برہمن وادی،منو وادی، یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو غیر  ملکی  مانتے ہیں۔ ان کی زندگی سالہا سال سے  تنگ کرتے آئے  ہیں ۔  راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کا قیام 1925 میں ہوا ۔ وہ  اپنے روز قیام سے ہی  ملک میں ہندو راشٹر لانے میں جٹی ہے ۔ مسلمانوں و دیگر اقلیتون کے تعلق سے اس کے اردے کسقدر خطرناک ہیں ۔ یہ آر ایس ایس کے اصولوں سے عیاں ہیں۔ اس کے لیڈران کی تقاریر اور تحریر سے نیز اس کی  سالہا سال کی کارگذاریوں سے بھی عیاں ہے۔

مگر یہ دلت تو ہندو ہیں ۔ ہندو مذہب ہی کا حصہ ہیں خاص طور پر الیکشن میں ان سے کہا جاتا ہے  کہ تم ہمارے بھائی ہو۔ مگر افسوس ناک پہلو ہے کہ عملی سماجی زندگی میں انکے سماجی حقوق پر ڈاکے ڈالے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا دستوری حق بھی دینے کو تیار نہیں۔  ان کی عزت و آبرو سے  کھیلنا  تعلیمی، معاشی، ترقی میں آڑے آنا ، ان کے گھروں پر حملے کرنا ، انہیں اب بھی اچھوت سمجھنا جب کہ یہ دستوری سطح پر جرم ہے۔ کسی اور کی طرف سے نہیں بلکہ سرکاری سطح پر ایک وزیر کی جانب سے دلتوں کو کتوں کے مما ثل قرار دینا کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ جرم کو بڑھاوا دینے کے برابر نہیں تو کیا ہے۔ آج کی دنیا میں انسانیت اور اخلاقیات کی تعریف پہلے سے زیادہ واضح ہے عدل وانصاف مساوات پر گفتگو بھی خوب ہوتی ہے ۔

  جس سماج اور ملک میں عدم رواداری دن بدن بڑھتی جائے،  جہاں مذہب ذات پات کے نام پر انسانیت کے ساتھ کھلواڑ ہو، ہندو دلتوں پر ظلم و درندگی ناروا سلوک جب ہندو مذہب میں ہی شامل ہو تو پھر یہ کہاں سے ختم ہوسکتا ہے ۔ الیکشن آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کس قدر دلتوں کو لبھانے کی بات کی جاتی ہیں کہا جاتا ہے کہ تم ہمارے بھائی ہو۔ مگر سرکار بننے کے بعد انکو کتے کی مثال دینا،کیا معنی و مطلب۔ آر ایس ایس کی نور نظر موجودہ ہندوتواوادی بی جے پی  کے وزیر اعظم اور متعدد وزراء دلتوں کے عظیم لیڈر بابا صاحب امبیڈکر کی تعریف کرتے نہیں تھکتے مگر وہ بذات خود ہندوتوادی، دلتوں کے ہمدرد ہوتے تواس قدر آج دلتون پر ستم نہ ہوتا ۔ درس گاہوں میں، گاٗئوں دیہاتوں میں،شہروں میں ،کہاں کہا ں دلتون پربد ترین سلوک نہیں ہو تا آیا ہے ۔ زندگی اجیرن کہاں نہیں کی جاتی؟

حیدرآباد یونیورسٹی کےایک طالب علم  روہیت ویمولا کو اس قدر ٹارچر کیا جاتا ہے وہ موت کی آغوش میں ہی پناہ لیتا ہے اور خودکشی کر لیتا ہے۔ اسے خودکشی کے لئے کون مجبور کرتا ہے۔ اس نے اپنے خودکشی نوٹ میں لکھا کہ میرا ہندو ہونا ہی میری موت کا سبب ہے۔ مرکزی وریر تعلیم اور یونیورسٹی کا رویہ روہیت ویمولا معاملہ مین عدل و انصاف پر ہی مبنی نہیں تھا بلکہ ظالمانہ اور غیر مساویانہ بھی تھا ۔ اک عظیم سماجی شخصیت اور ہندو دلتوں کے لیڈر ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے دلتون پر ہونے والے ناروا سلوک پر لکھا کہ میں ہندو پیدا ہوا ہوں،ہندو مرنا نہیں چاہتا ۔ لاکھوں چاہنے والوں کے ساتھ ہندو دھرم جھوڑ کر بدھ دھرم اختیار کر لیا۔

ہندوئوں کی مذہبی کتاب منو سمرتی و دیگر مذہبی کتابوں میں ذات پات کا ذکر ہے ۔ نفرتیں عداوتیں ہیں اسے جائز ٹھہرایا گیا ہے ۔ تو پھر سوال ہے یہ کہاں سے رکے؟ ملک کی آزادی کے بعد حکومتوں نے دلتوں کے مسائل کے تدارک کے لئے دلتوں کی فلاح وبہبود کے متعدد قانون بنائے ،تب بھی سماجی سطح پر دلتوں کے ساتھ ناروا سلوک تھمتا نہیں ۔ کتنے ہی ہندو اصلاح کاروں نے بھی ہندوئوں میں چھوا چھوت، اونچ نیچ ذات پات کو ختم کرنے کے لئے سماجی ،اصلاحی تحریکیں   چلائیں نتیجہ لا حاصل ہی رہا ۔ منو واد،برہمن واد،ہندوتواواد کی مخالفت و مذمت کیں۔ لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ مسئلہ یہ کہ جو چیزیں مذہب اور تہذیب کا حصہ ہوں اسے آپ ختم نہیں کرسکتے۔ اس کے خاتمہ کے لئے آپ کو اس مذہب اور اس تہذیب سے پیچھا چھڑانا ہوگا۔

اک دلت کے گھر میں آگ لگا دی جاتی ہے۔ اس کے دو معصوم بچے آگ سے جھلس کر مر جاتے ہیں ۔ ایک مرکزی وزیر اس پر دلت کو کتے کے برابر قرار دیتا ہے۔ منووادیوں کے لئے ،دلتوں کا وجود اپنے خبیث عزائم کی تکمیل کے لئے ہے۔  پورے ملک میں دلتون پر ظلم و ستم بڑھتا جا رہا ہے۔ گجرات میں مری گائے کا چمڑے اتارنے پر کئ دلت نوجوانوں کو بری طرح سے پیٹا جاتا ہے۔

یہ سراسرظلم نہیں تو کیا ہے ۔  گجرات میں دلت نوجوانوں کے ساتھ بدسلوکی پر  پورے ہندوستان میں دلت اجتجاج کرتے ہیں ۔ اجتجاج،جمہوری حق ہے۔ کوئ جرم نہیں،اک دلت خاتون  لیڈر مایاوتی کو اجتجاج کرنے پر،ہندوتووادی لیڈر انتہائی شرم ناک بیان دیتا ہے ۔ سب کا ساتھ  سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والے ہندوتواوادی وزیر اعظم  مودی جی پورے ملک میں اپنے ہی مذہب کے دلت بھائیوں پر ہونے والے ستم پر خاموش ہیں ۔ اس سے کیوں نہ یہ سمجھ لیا جائے کہ اس ارے خلفشار میں ان کی حمایت بھی شامل ہے۔ کھل کر اس ہونے والے ستم کی مذمت کیوں نہیں کرتے ؟ کیا اس سے ان کے ہنوتواوادی ووٹ کم ہو جائیں گے؟

  مذہب اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جہاں عالمی بھائی چارہ،  مساوات، اخوت کی بے پناہ تعلیم و تلقین ہے ۔ یہ کہیں اور نہیں۔ ہندوستان میں آج کروڑوں مسلمان آباد ہیں ۔ ان کے آبا اجداد سارے باہر سے نہیں آئے تھے ۔ اسلام کی بنیادی تعلیم مساوات ،اخوت، بھائی چارہ جیسی تعلیم ہی تھی کہ لوگ بڑے پیمانے پر چھوا چھوت اونچ نیچ ،مذہبی تفریق سے عاجزآکر داخل اسلام ہوئے ۔ جن میں بڑی تعداد ہندو دلتوں کی رہی ہے ۔ مذہب اسلام میں آنے پر کسی کے ساتھ بھید بھاو نہیں ۔ مسجد کے دروازے سبھی کے لئے کھلے ہیں۔ آپس میں رشتہ داریاں کی جاسکتی ہیں۔ اک ساتھ کھانا پینا کیا جا سکتا ہے وغیرہ۔ آخر ،مذہب جب کفن بن جائے تو پھر لوگ اس مذہب میں کیوں رہیں ؟

  ہم آہنگی  یک جہیتی ملک کی ترقی بقا کے لئے ایک ضروری عنصر ہے۔ اس کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کو روکنا ضروری ہے۔

نہ سنبھلوگے تو مٹ جائوگے ہندوستان والو

تمہاری داستان تک نہ  ہو  گی داستانوں میں

    دلتوں کو دستوری سطح پر مراعات و سہولیات ہیں، وہ یقینا بجا ہیں  مگر دلتوں میں عزت نفس  خود داری  کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ان تمام باتوں کی خاطر سیاسی و سماجی طور پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارا ملی اور ملکی فریضہ ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہےکہ برسہابرس سے جماعت اسلامی ہند اور اب متعدد علمائے دین جیسے مولانا سجاد نعمانی، مولانا ولی رحمانی ،مولانا سلمان ندوی و دیگر  دلتوں کے لیڈر،  وامن میشرام و دیگر ،سماجی تحریکوں میں ساتھ ساتھ ہیں ۔ دلت اور مسلم آج ہندوتواوادیوں کے ہاتھوں پریشان ہیں ۔ یوں کمزوروں، مظلوموں  کا اتحاد ان شاءاللہ ملک و انسانیت کی ترقی و بقاء کے لئے رحمت ہی ہوگا۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ منو وادیوں اور برہمن واد کے شکار ،سماجی انصاف کے لئے متحد ہوں ۔ آج مرکز میں آر ایس ایس کی نور نظر بی جے پے کی حکومت ہے۔ جسے دستور اور آئین ہند پر بھروسہ نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس میں اپنا کچھ نہیں وہ اسے بدلنے  کی بات کرتے ہیں۔

مادر وطن ایک سنگین دو راہے پر کھڑا ہے ۔ منو وادی  برہمن وادی اقتدار میں ہیں ۔ دستور ہمارا اخلاقیات سے بھر پور ہے ۔ افسوس ناک پہلو ہےکہ دستور پرایمانداری سے چلنے کی قسم کھانے والے،اپنے قول و عمل سے،دستور اور آئین ہند کی پاسداری کرتے نظر نہیں آتے ۔ پھر آم کے درخت سے،آم ہی گرتے ہیں۔ کیلے امرود نہیں ،یہ وقت مثبت اور معیاری فکروعمل کا ہے۔

مذہب اسلام آیا ہی،انسانوں کی فلاح وبہبود کے لئے،اس کے ماننے والوں کو اپنے فکروعمل سے،اسلامی تعلیم پر عملی سطح پر چلنا ضروری ہے ۔ ورنہ کل روز محشر میں ،خالق کائنات کو کیا جواب دیں گے۔ آج یوم اعمال ہے۔ کل روز احتساب یعنی قیامت ہو گی۔ اس دن کی تیاری ہمیں آج ہی سے کرنی ہے۔

ابھی ابھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کے معاملے میں بلا شبہ ہم میں،بے حد اتحاد و اتفاق نظر آیا،مگر انگلیوں پر گنے جانے والے،چند اک نام نہاد مسلکی ٹھیکیدار وں نے اپنی شیطانی ڈفلی الگ سے بجا کر،پھر اپنے شیطانی چہروں سے نقاب اٹھادیا ۔ ملت کو ان سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ ان نام نہاد مسلکی ٹھیکیداروں کو مذہب اسلام کی الف ب تک سے واقفیت نہیں ۔ ان کا فکر و عمل میں قرآن اور سنت نبی ﷺ کا گذر تک نہیں ۔ ملت کو ان دھرتی کے بوجھ سے بچنا ضروری ہے ۔ بنام مسلک کچھ بھی کراسکتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسانیت سے بھٹکتے معاشرے کے لئے کچھ بھی نہیں ۔ اپنے وضح کردہ غیر مستند روایتوں کے سوا۔

دستور بچائو دین بچائو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس پر گامزن ہونا ضروری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔