ترکی کے ناکام فوجی انقلاب کا مرثیہ ..!

عمر فراہی

بالآخر ترکی کے نہتے عوام نے اپنے ملک میں فوجی بغاوت کے خلاف اقبال کے اس عزم کو سچ کرکے بھی دکھا دیا کہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔  مگر اسی اقبال نے خلافت عثمانیہ کے خلاف سازش پر بھی آنسو بہائے تھے کہ

اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

تقریباً رات کے دو بج رہے تھے ہم اپنے ایک صحافی دوست سے عالمی صورتحال  پر تبادلہ خیال کر رہے تھے کہ اچانک موبائل پر ان کی تحریر نمودار ہوئ  کہ” بری خبر ہے ” شاید وہ مجھ سے بات کرتے ہوےُ ٹوئٹر کے بھی رابطے میں تھے کہ ان کی نظر کسی شخص کے حوالے سے اس خبر پر ٹھہر گئی کہ ٹرکی پر فوج نے قبضے کا اعلان کر دیا ہے ۔  میں نے کہا دیکھئے کوئی دہریہ ہوگا یہ لوگ رات کے سناٹے اور نیند کی آغوش میں بھی اسلام پسندوں کی تباہی کے سپنے دیکھتے رہتے ہیں ۔  لیکن برقی میڈیا کے اس دور میں جہاں دجال کے کارندے اطلاعات و نشریات کے ہتھیاروں کے ساتھ چوبیس گھنٹے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحرک رہتے  ہیں انہیں کیسے صبر ہوسکتا تھا کہ وہ اس خوشی کا جشن نہ منائیں ۔  دنیا کا ہر چینل ہر دو سیکنڈ میں سرخیاں بدل رہا تھا کہ ترکی کے خودساختہ صدر کا فوج نے عوام کی مدد سے تختہ پلٹ دیا اور طیب اردگان جنھوں نے ترکیوں پر اسلام تھوپنے کی کوشس کی تھی اب انہیں راہ فرار اختیار کرنا پڑ رہا ہے ۔  اس کے ساتھ دجال کے یہ حواری جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ آخری دور میں روبیضہ بولیں گے یعنی حقیر اور کمینے لوگ انہوں نے یہ کہانی بھی گڑھ لی کہ جرمنی نے انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا ہے اس لئیے انہوں نے اپنے طیارے کو برطانیہ کی طرف موڑ لیا ہے ۔  ایک دوسرے چینل پر یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ یہ انقلاب مصر اور السیسی سے مختلف  ہوگا اور عوام کو مکمل جمہوری آزادی ہوگی۔  روبیضاؤں کے ٹون سے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں تھا کہ یہ لوگ کس طرح کی آزادی کی بات کر رہے ہیں اور کیا ترکی میں عوام کو آزادی حاصل نہیں ہے۔  مگر دنیا کی مکار قوموں کا لوگوں پر اپنی بات ثابت کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جھوٹ کو کثرت کے ساتھ بولا جائے تاکہ ان کا دشمن قصوروار نہ بھی ہو تو بھی اسے لوگ مجرم سمجھنے لگیں جیسا کہ مصر میں ہوا اور دیندار  باحجاب  نوجوان خاتون تک کو بھی موت کی سزا سنا دی گئی ۔  ابھی ہم دجال کا یہ ڈرامہ دیکھ ہی رہے تھے کہ سڑکوں پر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے بھیڑ جمع ہونے لگی اور الیکٹرانک میڈیا اس بھیڑ کے بارے میں بھی یہ خبر دے رہا تھا کہ عوام طیب اردگان کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے فوج کی حمایت میں نکل چکے ہیں ۔  یہ بات سچ بھی دکھائی دے رہی تھی کیوں کہ مصر میں ایک گروہ نے فوج کی حمایت میں ایسا ہی کیا تھا ۔  وہ لوگ جنھوں نے مصر میں فوجی بغاوت کا منصوبہ بنایا ہوا تھا انہوں نے سب سے پہلے ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف بھیڑ اکٹھا کی ان کے خلاف نعرے لگوائے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کا دباؤ بنایا اور پھر فوج جو کہ ایک منصوبے کے تحت تیار بیٹھی تھی اس نے جبراً ایک جمہوری طورپر منتخب حکومت کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ چونکہ مصرکے سلفیوں کی طرح فتح اللہ گولن کا حمایت یافتہ گروہ بھی طیب اردگان کا مخالف ہے اور یہ ممکن ہے کہ ان کے لوگ فوج کی حمایت میں اترے بھی ہوں لیکن تصویر صاف نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ترکی میں اچانک یہ کیا ہونے جارہا ہے اس دوران ہم جیسے لاکھوں انصاف پسند مسلمانوں کی آنکھوں میں دکھ اور درد کی کیفیت کا طوفان امڈ رہا تھا اور دل سے ایک آہ نکل رہی تھی کہ یااللہ کیا اب اس روئے زمین سے نیک اور صالح حکمرانوں کی حکمرانی کا دور ختم ہو چکا ہے۔  کیا ہم حقیقتاً اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جب دنیا کے اقتدار پر روبیضاؤں اور جساساؤں کا غلبہ ہوگا ۔  کیا ہم واقعی یاجوج ماجوج کے دور میں داخل ہو چکے ہیں جب انسان انسانوں کا درندوں کی طرح خون بہائیں گے۔  یہ سوچتے سوچتے مایوسی اور صدمے کی حالت میں ظالم نیند نے تھپکی دینا شروع کر دیا کہ اب سو جاؤ عالم اسلام کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔  اب اگلی صبح سے یہ فکر کرنا شروع کر دو کہ دنیا میں حقیقی دجال کے خروج اور مہدی کے ظہور کا وقت قریب ہے اور اللہ سے دعا کریں کہ وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رکھے اور ہم کم سے کم مہدی کی شناخت کر سکیں ۔  ذہنی طورپر تھکے ہوئے بدن کونیند نے اپنی آغوش میں تو لے لیا لیکن نیند بھی تو اپنی تھی اسے کہاں چین ۔  موذن نے اللہ اکبر کی آواز دی کہ اٹھ ساری خدائی اور ساری بڑائی اللہ کیلئے ہے اور  نماز نیند سے بہتر ہے ۔  موذن کی پکار میں کشش تھی ان لوگوں کیلئے جو اللہ اکبر کے مفہوم کو سمجھ سکتے تھے ۔  بہرحال وضو کر کے نماز سے فارغ ہوا اور لیٹنے ہی جارہا تھا کہ سوچا موبائل پر میسیج چیک کر لیں ۔  اچانک ایک خبر پر نظر پڑی کہ ترکی کا فوجی انقلاب ناکام اور پھر جلدی جلدی سارے گروپ پر دیکھا تو یہ خبر درست تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ عالم اسلام کے اس جانباز حکمراں طیب اردگان کے حق میں لکھنے والوں کی تحریروں سے بھی خوشی کے آنسو نکل رہے ہوں ۔  یقین نہیں ہو رہا تھا کہ کیا یہ وہی ترکی ہے جب مصطفیٰ کمال پاشا نے مسجدوں کے دروازے پر تالے لگوا دییے تھے اور ترکی کی فوجوں نے مسجدوں کے اندر بھی شراب پینے سے گریز نہیں کیا آج آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھا کہ انہیں مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر سے عوام اللہ اکبر کی صدا لگاتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ترکی کی منتخب حکومت کو فوج کے عتاب سے بچانے کیلئے نکل پڑے تھے ۔  میں یہ سوچنے لگا کہ اگر ترکی کے عوام اس فوجی انقلاب کو روکنے میں ناکام ہو جاتے تو کیا ہوتا ۔  اس کا جواب مصر کے فوجی انقلاب سے ہمیں حاصل ہو چکا ہے ۔  ترکی کے صدر وزیر اعظم اور پوری پارلیمنٹ کو فساد پھیلانے کے الزام میں پابند سلاسل کردیا جاتا اور پھر کسی نام نہاد منافق یہود نواز مسلم حکمراں سے بیان دلواکر اس انقلاب کے جائز ہونے کا جواز بھی ڈھونڈھ لیا جاتا ۔  بہرحال یہ بات تو ازل سے ثابت ہے کہ چھپا ہوا دشمن کھلے ہوئے دشمن سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔  ترکی کی حکومت نے ان چھپے ہوئے دشمنوں کا کوئی ذکر تو نہیں کیا ہے لیکن یہ بات طیب اردگان کو ضرور پتہ ہے کہ ان کی دشمنی کن لوگوں سے ہے اور کیوں ہے ۔  بظاہر پہلی فرصت میں سارا الزام فتح اللہ گولن اور امریکہ کے سر تھوپ دیا گیا ہے اور لکھنے والے بھی ترک عالم دین فتح اللہ گولن اور امریکی حکمرانوں کے ماضی کو کرید کر نئی نئی کہانیا لیکر آرہے ہیں ۔  لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں ۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ  اس طرح کی بغاوت کیلئے امریکی سرزمین ایک زمانے سے زرخیز رہی ہے اور طیب اردگان کے حریف فتح اللہ گولن اسی امریکی سرزمین پر پناہ لییے ہوئے ہیں اور یقیناً فتح اللہ گولن کا استعمال بھی کیا گیا ہوگا لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسی سرزمین پر آل یہود بھی تو بستے ہیں اور پھر مصر ترکی میں بہت بڑا فرق ہے ۔  ترکی میں طیب اردگان کی حکومت کو تقریباً بارہ سال ہو گئے ہیں اور ان بارہ سالوں میں طیب اردگان نے ترکی کو نہ صرف عالم اسلام کی قیادت کا اہل بنا دیا ہےاس کی معیشت خطہ یورپ کیلئے بھی ایک  مثال ہے جبکہ مصر میں مرسی کی حکومت کو صرف ایک سال ہوئے تھے اور وہ اس دوران اپنے دوستوں اور دشمنوں کی شناخت بھی نہیں کر سکے تھے ۔  اس لیئے طیب اردگان کی اس بارہ سالہ مضبوط حکومت کا موازنہ مصر کی کمزور مرسی حکومت سے نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی تنہا فتح اللہ گولن اور امریکی انٹلیجنس ہی یہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں ۔  اور پھر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا امریکہ کو یہی ایک کام رہ گیا ہے کہ وہ اپنے ہی اتحادی اور دوست ممالک کی جڑوں کو کمزور کرتا پھرے ۔  ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ 2011 کی عرب شورش کے بعد اس خطے میں ترکی کی وجہ سے کتنے ممالک کا مفاد خطرے میں پڑ چکا تھا ۔  ترکی نے فریڈم فلوٹیلا جہاز کے نام سے غزہ کیلئے جو امدادی سامان بھیجا تھا اس جہاز پر حملے کے بعد سے ہی اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ چل رہے ہیں اور اسرائیل کو یہ فکر بھی ہمیشہ سے رہی ہے کہ عالم اسلام میں کوئی بھی مضبوط مسلم حکومت یا حکمراں اسرائیل کے مفاد میں بالکل نہیں ہے۔  جیسا کہ اسرائیلی انٹلیجنس کی غلط معلومات پر ہی عراقی حکومت پر عمومی تباہی کے ہتھیار کا پروپیگنڈہ کیا گیا اور صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا ۔  اس وقت عراق میں کون سا گولن تھا ہاں مگر بعد میں سیکڑوں گولن پیدا ہو گئے ۔  ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اسرائیل نے سعودی عربیہ روس اور ایران کے ساتھ   مل کر اخوانیوں کو کس طرح تہ تیغ کیا اور ابھی بھی ایران اور حزب اللہ شام میں وہی کر رہے ہیں ۔  یہ بات کون نہیں جانتا کہ اس وقت طیب اردگان عالم اسلام کے واحد ایسے  حکمراں ہیں جو مصر میں السیسی اور شام میں بشارالاسد کی ظالمانہ کارروائیوں کے مخالف ہیں اور یہ شام کی شورش ہی سبب بنی جسکی وجہ سے ترکی کو روس کے جنگی جہاز کو مار گرانا پڑا ۔  اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ ترکی امریکہ کی پشت پناہی کے بغیر ایسا کبھی نہیں کر سکتا تھا ۔  اس طرح اگر دیکھا جائے تو ترکی کی اس بغاوت میں روس اسرائیل ایران کا چہرہ سر فہرست نظر آتا ہے اور جس طرح ترکی بشارالاسد کے مخالفین کی مدد کر رہا ہے اور ترکی میں پندرہ لاکھ شامی مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے اگر طیب ارگان کی حکومت اسی طرح قائم رہی تو ترکی انہیں مہاجرین میں سے شام کی آزادی کیلئے لاکھوں مجاہدین تیار کر سکتا ہے جو نہ صرف شام ایران اور حزب اللہ کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ یہ صورتحال اسرائیل کیلئے بھی کم تشویشناک نہیں ہے ۔  ایسے میں ایران کا اسرائیل سے مل جانا بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے جیسا کہ دیکھا بھی جارہا ہے کہ یمن اور شام میں ایران کی مداخلت کے بعد سے ہی ایران اور اسرائیل کا تنازعہ سرد پڑ چکا ہے اور اب اسرائیل اور ایران دونوں نے کافی دنوں سے ایک دوسرے کو دھمکی دینا بھی بند کر دیا ہے ۔  سوال یہ ہے کہ کیا اب ایران اسرائیل کی سلامتی کیلئے خطرہ نہیں رہا؟

تبصرے بند ہیں۔