دلت مسلم اتحاد : خدشات اور امکانات

عبیدالکبیر

گذشتہ دو برسوں سے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا گیا  اس کے تئیں مرکزی حکومت کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ رہا ہے۔ جب سے مرکز میں این ڈی اے کی حکومت تشکیل پائی ہے تبھی سے ایسے متعدد واقعات برابر دیکھنے میں آئے جو بھارت کی مشترکہ قومیت کی روح کے منافی ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی برتاؤ پر تقریباً سبھی طبقہ خیال کے لوگ تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ سیاست ،تعلیم ،صحافت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نامی گرامی ہستیوں نے ان حالات پر اپنی بے چینی کا اظہار کیا ہے۔ بھارت میں پیش آنے والے ان واقعات کی گونج بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس کی گئی۔ آج سے دیڑھ برس قبل جب یوم جمہوریہ کی تقریب  میں امریکی صدر مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو تھے اس موقعہ پر بھی انھوں نے اپنے خطاب میں مذہبی رواداری کو قائم رکھنے کی بات کہی تھی۔ اس کے علاوہ امریکی ارکان پارلیامنٹ نے بھی ان حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت ہند کے نام ایک خط روانہ کیا تھا۔ حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی بھارت میں اقلیتوں کے اندر عدم تحفظ کے احساس کے حوالے سے حکومت پر تنقید کی تھی۔ ان تمام حالات پر ملک وبیرون ملک میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا مگر حکمران جماعت جو ان تمام معاملات میں راست طور پر جواب دہ تھی اور کم از کم اس کا اخلاقی اور منصبی  فریضہ تھا کہ ان بگڑے ہوئے حالات پر مناسب اقدامات عمل میں لاتی اس نے جنبش لب کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔ پہلے دادری کا سانحہ پیش آیا پھر عیسائی کمیونٹی کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں اس کے بعد دلت برادری کو نشانہ بنا یا گیا مگر وزیر اعظم سمیت ان کے ارکان سلطنت تماشہ دیکھتے رہے۔ اب اسے حسن اتفاق کہئے یا سوئے اتفاق کہ  جب ملک کی کئی ریاستوں میں بی جے پی کو عوام نے باہر کا راستہ دکھا دیا اور حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی ہے کہ شاید آنے والے دنوں میں یوپی الیکشن میں بی جے پی کو کڑے چیلنج کا سامنا ہو تو وزیر اعظم نے اپنی سابقہ روش سے عجب ڈرامائی انداز میں روگردانی  کی ہے۔ دلتوں پر کئی ریاستوں میں ہوئے جارحانہ حملوں کا سلسلہ تو  کافی دنوں سے چل رہا ہے مگر اچانک  وزیر اعظم نے دلتوں کے تئیں غیر معمولی ہمدردی کا اظہار کرکے ایک نئی بحث کا راستہ کھول دیا ہے۔ وزیر اعظم کے اس بیان پر ان کے مخالفین اور حامی حضرات اپنی اپنی آراء میڈیا میں  رکھ رہے ہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ بی جے پی کا ووٹ بینک ان دنوں گائے اور دلت کے بیچ الجھا ہوا نظر آتا ہے۔ چنانچہ جب تک  گائے کا سہارا لیا جانا مناسب معلوم ہوا تب تک گائے کی حفاظت میں انتہائی اقدامات کئے گئے۔ اور اب جب کہ بی جے پی دلت اور مسلم برادری میں اتحاد کے خدشے کو محسوس کرنے لگی ہے تو ان کا رویہ راتوں رات بدل گیا۔ جہاں تک دلت مسلم اتحاد کو سبو تاژ کرنے کی بات ہے تو اس میں شک نہیں کہ بھارت میں مسلم ووٹ بینک کو بے اثر کرنے کے لئے یہ ایک کار گر ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارت میں ووٹ بینک کی سیاست جس نہج پر گامزن رہی ہے اس کے تجزئے سے صاف طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہماری سیاسی پارٹیا ں اس حوالے سے ہمیشہ حساس رہی ہیں۔ آج ملک میں جو سیاسی درجہ حرارت دیکھنے میں آرہا ہے اگر اس کے رد عمل میں دلت مسلم اور دیگر مظلوم طبقے یکجا ہوجائیں تو اس کا خمیازہ  ان سیاسی جماعتوں کو جھیلنا پڑسکتا ہے جن کا اقتدار انہی جیسے اسباب کی مرہون منت ہے۔ واضح رہے کہ دلت مسلم اتحاد سے پرہیز صرف بی جے پی کو ہی نہیں ہے بلکہ وہ سیاسی جماعتیں جو بھارت میں دلتوں کی سب سے بڑی آواز مایاوتی کے لئے قصر سلطنت کے دروازے بند کرنا چاہتی ہیں ان سب کے لئے یہ اتحاد ایک چیلیج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب سے دو سال قبل یو پی میں بر سر اقتدار سماج وادی پارٹی نے  سہارنپور میں زیر تعمیر کانسی رام میڈکل کالج کو جو بہوجن سماج پارٹی کے دور حکومت میں منظور ہوئی تھی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے نام سے منسوب کردیا تھا۔ ریاستی حکومت کا یہ فیصلہ بظاہر مظفر نگر فسادات کے بعد مسلم کمیونٹی کا اعتماد حاصل کرنے کی ایک کوشش تھی۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ریاستی حکومت اور اس کے دور اندیش قائد نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کے  اس اقدام  سےجہاں  ایک طرف مسلم جماعتوں کی ہمدردی حاصل کی جا سکتی تھی وہیں  دوسری طرف یہ چیز دلت اور مسلمان کے درمیان حائل خلیج کو مزید وسیع کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ یو پی میں  بسپا اور سپا کے بیچ جیسی رقابت پائی جاتی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ،چنانچہ یہاں  الیکشن میں کامیابی کے لئے بڑی باریک بینی سے کام لیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ یوپی کا جو ماحول ہے اس میں سیاست کی گرم بازاری ایک عام بات ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتیں اپنی کامیابی کے لئے  لائحہ عمل اپنانے میں مصروف ہیں۔ اسی  لئے وزیر اعظم کا دلت پریم دفعۃ ً جاگ اٹھا ہے۔ وزیر اعظم کی طویل خاموشی کے بعد ان کا یہ بیان کسی ان ہونی  سے کم نہیں۔ چشم بد دور آخر وزیر اعظم نے دلتوں کے مظلومیت کی تاب نہ لاکر گئو رکشکوں کے سامنے چھپن انچ کا سینہ کھول ہی دیا۔ ویسے افسوس اس بات کا ہے کہ اگر یہ کشادہ دلی وقت پر ظاہر ہو جاتی تو شاید ملک میں فرقہ وارانہ کشمکش کی وہ صورت برپا نہ ہوتی جس نے مجموعی طور پر بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ کوششیں کتنی کار گر ثابت ہوں گی اس کا فیصلہ تو آنے والے وقت میں ہی ہوگا مگر جو مظلوم طبقات متحد ہونا چاہتی ہیں ان کو عدل وانصاف کے حصول کے لئے بیدار مغزی کا ثبوت دینا چاہئے۔ کچھ روز قبل جمعیۃ علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے دلت مسلم اور عیسائی اتحاد کی خبر سننے میں آئی۔ اس میں شک نہیں کہ دلت مسلم اور دیگر دبے کچلے لوگوں کا اتحاد موجودہ وقت کی اہم ضرورت۔ جمعیۃ علما ء ہمیشہ سے قومی یکجہتی کی کوشش  کرتی رہی ہےاور آج بھی وہ  اپنے اسی نظریےپر قائم ہے۔ مگر اس مہم کی کامیابی کے لئے   ان امکانت کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ ان خدشات کو بھی ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے جو اس کوشش کے لئے مضر ثابت ہو سکتے ہیں۔ اقلیتوں کی تقسیم بھارت میں کوئی نئی چیز نہیں ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اقلیتیں  صحیح وقت پر اپنی سیاسی بصیرت کا بر محل استعمال کریں اور جذباتی نعروں کی قربان گاہ پر اپنی سوجھ بوجھ  کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ اس سلسلہ میں مسلم برادری کو اپنے ووٹ بینک کی طاقت کا صحیح اندازہ لگاکر اس کا دانشمندانہ استعمال کرنا چاہئے۔ آج کے حالات میں محض اتحاد کا مبہم نعرہ ہمارے مسائل کا حل پیش نہیں کر سکتا۔ گذشتہ سات دہائیوں پر محیط اتحاد اور یکجہتی کی تاریخ  کا خلاصہ اور اس کے تقاضوں پر ارباب حل وعقد کو غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کی آبادی کا مظلوم طبقہ  مزید ظلم وبربریت کا شکار نہ ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔