عزت اورذلت اللہ کے ہاتھ ہے

جوعزت اللہ کے ذریعہ نہیں وہ ذلت ہے

عـبـدالـعـزیز

        عام طورپرہرشخص عزت کاخواہاں ہوتاہے۔ عزت کے لئے مرتاہے مگرجس چیزاورجس شئے کے ذریعہ وہ عزت حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اگروہ چیزفانی ہے ٗاسے دائمی وجودحاصل نہیں ہے تولاکھ کوشش کے باوجوداسے حقیقی عزت حاصل نہیں ہوتی۔ دولت اورمنصب کے ذریعہ یہ سمجھاجاتاہے کہ عزت حاصل ہوجاتی ہے مگراگرمنصب کاحصول دنیوی مفادکے لئے ہوتاہے تومنصب انسان کوذلیل کردیتاہے یہی حالت دولت کی ہوتی ہے، دولت اگردنیوی جاہ وحشمت کے لئے حاصل کی جاتی ہے تودولت انسان کوکہیں کی نہیں رکھتی وہ پریشانیوں کاسبب بن جاتی ہے اوربسااوقات اس کے لئے جان لیواثابت ہوتی ہے۔ عزت حق تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ قرآن مجیدمیں ہم مسلمان پڑھتے ہیں اوردوسروں کوبھی بتاتے ہیں :

’’کہوخدایا! ملک کے مالک ! توجسے چاہے حکومت دے اورجس سے چاہے چھین لے جسے چاہے عز ت بخشے اورجس کوچاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیارمیں ہے بیشک توہرچیزپرقادرہے۔ رات کودن میں پروتاہوالے آتاہے اوردن کورات میں جاندارمیں سے بے جان کونکالتاہے اوربے جان میں سے جاندارکواور(اپنے خزانہ کرم سے) بے حساب بخش دیتاہے۔ ‘‘  (آل عمران 26-27)

        ہم میں سے اکثروبیشترزوروشورسے بولتے ہیں :  وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ  مَنْ تَشَآئُ  (خداجسے چاہے عزت دیدے، جسے چاہے ذلیل کردے)  مگریہ بات دل کی گہرائیوں میں کم ہی لوگوں کے اندراترتی ہے اوراس فرمان خداوندی سے کم ہی لوگ ہروقت چوکس اورچوکنے رہتے ہیں کیونکہ شیطان مردودہروقت سمجھاتارہتاہے کہ شہرت وعزت اللہ کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ دولت اورمنصب کے ہاتھ میں ہے جس کے پاس دولت نہیں ہے وہ ماراماراپھرتاہے، جسے منصب اورعہدہ نہیں ملتاوہ بے یارومددگاررہتاہے۔ انسان شیطان کی چال میں آجاتاہے اورپھرشیطان اسے دنیاداری۔ دولت پرستی اورمنصب پرستی کے راستہ پرآسانی سے ڈال دیتاہے۔ وہ خودتوڈوبتاہے اوردوسروں کوبھی لے ڈوبتاہے، وہ اللہ کے رسول کی یہ بات بھول جاتاہے  :

کُلُّ عِزٍّ لَیْسَ بِاللّٰہِ فَـھُـَوذُلٌّ  (جوعزت اللہ کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوتی وہ عزت نہیں ذلت ہے )

        خداکی یہ بات بھی بہتوں کی سمجھ میں نہیں آتی  :

وَاتَّخَذُوْامِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِـھَـۃً لِیَکُوْنُـوْا لَھُمْ عِـزّاً  (اوران لوگوں نے اللہ کوچھوڑکراورمعبودتجویزکررکھے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے باعث عزت ہوں )

        یعنی ایساشخص یاایسے لوگ جوعزت اورجاہ وحشمت اللہ کے سواکسی اورچیزسے حاصل کرتے ہیں اسے وہ اپنارب، اپناخدابنالیتے ہیں اوراسی کی پوجااورپرستش کرتے ہیں کیونکہ اسی کواپنے لئے ذریعہ عزت وعظمت سمجھتے ہیں۔ عزت پرمرنے والے اللہ کی یہ بات بھی فراموش کردیتے ہیں۔ وَلِلّٰہِ العِـزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ  (عزت توصرف اللہ اوررسول کے لئے ہے اورمومنین کے لئے)

        یعنی عزت اللہ اوررسول کے علاوہ صرف ان کے لئے ہے جوسچے دل سے اللہ اوررسول کومانتے ہیں ان پرایمان لاتے ہیں ان کے ہرفرمان اورارشادکوحرزجاں بنالیتے ہیں خواہ کوئی کچھ بھی کہے مگرانہیں صرف اللہ اوررسول کی باتوں پریقین اورایمان ہوتاہے۔

        اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجیدمیں عزت چاہنے والوں کوآگاہ کرتاہے  :

        ’’جوکوئی عزت چاہتاہے اسے معلوم ہوناچاہئے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے۔ اس کے ہاں جوچیزاوپرچڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے اورعمل صالح اس کواوپرچڑھاتاہے۔ رہے وہ لوگ جوبیہودہ چالبازیاں کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اوران کامکرخودہی غارت ہونے والاہے۔ ‘‘ (سورہ فاطر – 10)

        سرداران قریش آنحضرت ؐ کے مقابلے میں جوکچھ بھی کررہے تھے اپنی عزت اوروقارکی خاطرکررہے تھے۔ ان کاخیال یہ تھاکہ کہ اگرحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی چل گئی توہماری بڑائی اورعزت خاک میں مل جائے گی اورہمارااثرورسوخ سب چوپٹ ہوجائے گااورہماری جودھاک سارے عرب میں بیٹھی ہوئی ہے وہ بھی باقی نہیں رہے گی۔ اس پراللہ تعالیٰ فرمارہاہے کہ کفراوربغاوت کرکے جوعزت تم نے بنارکھی ہے وہ توایک جھوٹی عزت ہے جس کامقدرخاک میں ملنے کے سواکچھ نہیں ہے۔ حقیقی عزت جودنیاسے لیکرعقبیٰ تک کبھی ذلت آشنانہیں ہوسکتی صرف خداکی بندگی اوراطاعت ہی میں میسرآسکتی ہے اسی کے ہوجاؤتمہیں عزت مل جائے گی اوراگرتم اس سیروگردانی کروگے تورسوائی اورذلت کامنہ دیکھناپڑے گا۔

        اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ عزت حاصل کرنے کااصل ذریعہ کیاہے ؟ اللہ کے نزدیک جھوٹے اورخبیث اور اقوال کوکبھی عروج نصیب نہیں ہوتااوراس کے ہاں وہ قول عروج پاتاہے جوسچاہو ٗ پاکیزہ ہویامبنی پرحقیقت ہوجس میں نیک نیتی کے ساتھ ایک صالح عقیدے اورایک صحیح طرزفکرکی ترجمانی کی گئی ہو۔ پھرجوچیزایک پاکیزہ کلمے کوعروج کی طرف لے جاتی ہے وہ قول کے مطابق عمل ہے جہاں قول بڑاپاکیزہ ہومگرعمل اس کے خلاف ہووہاں قول کی پاکیزگی ٹھٹھرکررہ جاتی ہے محض زبان کے پھاگ اڑانے سے کوئی پاکیزہ کلمہ بلندنہیں ہوتاخواہ اس کے لئے جتنی بھی کوشش کی جائے یازورلگایاجائے۔ اسے عروج پرپہنچانے کے لئے اچھاعمل کازورہی کارگرہوتاہے۔

        یہ واقعہ تاریخ اسلام میں مشہورہے کہ ’’بیت المقدس کی فتح کے موقع پرحضرت عمرصرومیوں سے بیت المقدس کی کنجی لینے کوشام جارہے تھے، جب شہرکے قریب پہنچے توسپہ سالارِاسلام حضرت ابوعبیدہ صکچھ مسلمانوں کولیکراستقبال کونکلے، جب یہ جلوس ایک ایسے مقام پرپہنچاجہاں کچھ پانی تھا، توحضرت عمر صناقہ سے اترآئے، پاؤں سے چرمی موزے نکال کراپنے کندھے پرڈال لئے اورناقہ کی مہارپکڑکرپانی میں گھسے، اوراسی شان سے اسلام کافرماں روارومیوں کے مقدس شہرمیں داخل ہونے کے لئے بڑھا، حضرت ابوعبیدہ صنے عرض کی یاامیرالمؤمنین آپ یہ کیاکررہے ہیں، کہ موزے اتارکراپنے کندھے پرڈال لئے ہیں، اونٹنی کی نکیل آپ کے ہاتھ میں ہے اورآپ اپنے ہاتھ سے پکڑکراس کوپانی میں لے چل رہے ہیں، یہ وہ موقع ہے کہ ساراشہرآپ کے دیکھنے کوامنڈآیاہے، حضرت عمرصنے کہااے ابوعبیدہ !اگرتمہارے سواکوئی اوریہ بات کہتاتومیں اس کوسزادے کرامت ِمحمد اکے لئے عبرت بناتا، ہم سب ذلیل قوم تھے، تواللہ تعالیٰ نے اسلام سے ہماری عزت بڑھائی، توجوعزت خدانے ہم کودی ہے اس کوچھوڑکرکسی اورچیزکے ذریعہ سے ہم عزت چاہیں گے، توخداہمیں ذلیل کردے گا۔

تبصرے بند ہیں۔