دلت مسلم مسائل پر علمائے دین کو میدان عمل میں آنا ہو گا

 سمیع احمد قریشی، ممبئی

یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ ملک عزیز میں ہر سو ظلم و بربریت جاری ہے۔ ملک آزاد ہوا۔ سبھی نے خاص طور پر مذہب ذات پات، اونچ نیچ کے نام پر ہونے والی قتل غارت گری کے ختم ہونے کی امیدیں باندھیں عدل و انصاف مساوات کا دور دورہ ہو گا، ایسی امنگیں تھیں۔

ملک میں طرح طرح کے مذاہب، زبانوں کو جاننے والے ذات پات کے افراد و متعدد تہذیبوں کو ماننے والے ہیں۔ یہاں کثرت میں وحدت ہے۔ ہمارے ملک کا دستور جمہوری اور سیکولر بنایا گیا۔ سبھی کو اک جیسا سلوک، مذہبی و سماجی آزادی آئینی اور قانونی طور پر دی گئیں- دلت، جو ہندو مذہب ہی کا سینکڑوں سال سے اک حصہ ہیں۔ ہندو مذہب، بذات خود مذہبی سطح پر چار طبقات میں منقسم ہیں۔ یہ تقسیم نا برابری پر ہے۔ سب ہی طبقات اور ذاتوں کو اک جیسے حقوق اوراختیارات حاصل نہیں ہے۔ سب سے آخری درجہ شدر کاہے۔ جو دلت کہلاتے ہیں۔ برہمن کا درجہ سب سے اعلیٰ اور اونچا ہے، وہ ایشور کا سب سے پسندیدہ شمار کیا جاتا ہے۔ باقی لوگ اس کی خدمت کے لئے ہیں۔ صاف صفائی کرنا غلاظت ڈھونا۔ مردہ جانوروں کو جگہ سے ہٹانا، جسے انسان کم تر کام سمجھتا ہے، یہ سب دلت کریں۔ ہندو مذہبی فلسفہ کے اعتبار سے ہی دلت اچھوت ہے۔ سماجی تعلیمی ترقی نہیں کر سکتا۔ ان کی رہائش سب سے الگ تھلگ رہے۔ یہاں تک کہ پانی بھی الگ تھلگ کنویں سے حاصل کرے۔ اسکولوں میں وہ الگ بیٹھے وغیرہ وغیرہ۔ ملک آزاد ہونے کے بعد دلتوں کی سماجی تعلیمی ترقی کے لئے بہت سے قوانین بنائے گئے۔ قانون ساز اداروں، تعلیمی درس گاہوں میں انہیں ریزرویشن دیا گیا نیز ان کی عزت جان ومال کے تحفظ کے لئے خصوصی قوانین بنائے گئے۔ اس کے باوجود ملک کی آزادی کے بعد سے دلتوں پر ذات پات کے نام پر ستم تھمتے نہیں۔

ہندو دلتوں کے لیڈر اور ملک کی اک عظیم شخصیت ڈاکٹر با با صاحب امبیڈکر نے دلتوں پراتیاچار اور ظلم وستم کی بنا پر کہا کہ میں ہندو پیدا ہوا مگر ہندو مرنا نہیں چاہتا۔ انہوں اپنے لاکھوں چاہنے والوں کے ساتھ ہندو مذہب ترک کر کے بدھ مذہب اختیار کر لیا۔ روہت ویمولا حیدرآباد یو نیورسٹی کا انتہائی ہو نہار طالب علم تھا۔ اس نےبرہمنوں کی ایذا رسانی سے پریشان ہو کر خود کشی کر لی۔ اپنے خود کشی نوٹ میں اس نے اپنی خودکشی کا سبب اپنے ‘دلت ‘ہونے کو قرار دیا۔ حالانکہ مہاتما گاندھی جواہر لعل نہرو ودیگرجو بذات خود ہندو تھے و دیگر ہندو اصلاح کاروں نےہندو مذہب میں جاری خرافات کو دور کرنے میں بھر پور کوششیں کیں۔

ہندو مذہب میں ذات پات کی غیر مساویانہ تقسیم اور سب سے زیادہ بہیمانہ سلوک درندگی کا شکار شدر یعنی دلت سماج ہے۔ منو وادی برہمن وادی طاقتیں آج اقتدار میں ہیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا قیام 1925 میں ہوا۔ اپنے روز قیام سے یہ ملک میں ہندو راشٹر کے لئے کوشاں ہے۔ ہندوستانی دستور و آئین اور قاعدے قانون میں بنا امتیاز ملت سبھی شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک ہے۔ مذہبی سماجی آزادی ہے۔ آر ایس ایس ہندوستانی دستور و آئین کو کچھ سمجھتی نہیں اس پر اس کا یقین و اعتماد نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اس میں اپنا کچھ نہیں سب باہر کا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ ہندوئوں کی مذہبی کتابوں سے ہندوستان کے دستور و آئین کو بنانا چاہئے۔ وہ دستور کو بدلنے کی باتیں کرتے رہتی ہے۔ پہلے جن سنگھ اوراب بی جے پی آر ایس ایس کا گویا اک بازو ہے۔ بی جے پی اپنی سیاسی کار گزاری کے لئے آر ایس ایس کو جواب دہ ہے۔ ملک کے موجودہ وزیر اعظم مودی جی کا تعلق آر ایس سے گہرا ہے۔ یہ برسہا برس اس کے پرچارک رہے۔ آر ایس ایس ملک کے متعدد شعبہ زندگی میں عمل دخل رکھتی ہے۔ کسانوں، آدی واسیوں، طلباء اساتذہ، مزدوروں میں، یہاں تک کے دلتوں اور اب مسلمانوں میں ان کی  فلاح بہبود کے لئے بھی اپنی ذیلی شاخ بنا چکی ہے۔ ان تمام میں وہ اپنے وضع کردہ ہندوتواوادی نظریہ کے مطابق چل رہی ہے۔

عوام میں مذہبی منافرت پھیلانا اس کا وطیرہ خاص ہے- اس کے لئے وہ تاریخی حقائق کو جھٹلاتی ہے۔ مسلم بادشاہوں، ان کے دور حکومت سے ان کی بناء یادگاروں سے بڑی نفرت ہے۔ مذہبی منافرت، ذات پات کی برائی سے لڑنے والوں کے خلاف اسے نفرت ہے۔ اونچ نیچ کے خلاف لڑنے والے اسےایک آنکھ نہیں بھاتے۔ وہ ایسے لوگوں سے از لی دشمنی رکھتی ہے۔ جو قومی یک جہتی مذہبی دوستی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے میدان عمل میں ہیں۔ ایسوں کی مخالفت میں وہ بہت دور تک جانے کو تیار رہا کرتی ہے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی کا قتل اک واضح مثال ہے-گاندھی جی دلتوںکے بڑے ہمدرد تھے۔ چھوا چھوت کے خلاف اور ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے خواہاںتھے۔ گاندھی جی کے یوں، انسانی اقدار پر چلنے کو منو وادیوں نے برا جانا اور آر ایس ایس کے نتھو رام گوڈسے نے ان کی جان لے لی۔ جس کا افسوس اسے پھانسی دئیے جانے تک نہ ہوا۔ آر ایس ایس کی رگ رگ میں برہمن واد گھسا ہے۔ جسے وہ پوری طرح ملک میں نافذ کرنے کے لئے سالہاسال سے سرگرداں ہے۔ بہت ہی چالاکی اور منظم منصوبہ بندی کے تحت اس کا یہ سفر، سالہا سال سے جاری ہے۔ وہ دلت جن کے ساتھ وہ منو وادی سلوک کرتی ہے۔ ان کے خلاف، چھوا چھوت میں آگے ہے۔ ان کو مسلمانوں کے خلاف لڑانے میں اس کا بڑا رول ہے۔ ملک اور دلتوں کا مشترکہ دشمن مسلمان ہی ہیں وہ یہ باور کراتی آئی ہے۔ یہاں تک کہتی ہے کہ یہ چھوا چھوت کی بیماری مسلمانوں کی پھیلائی ہوئی  ہے۔

مذہب اسلام میں مساوات عدل وانصاف برابری اور دیگر انسانی اقدارہیں وہ  کہیں اور نہیں۔ اسے بدنام کر کے دلتوں کو مسلمانوں کے خلا ف کھڑا کرنا اور اپنے کو سب سے بڑا دیش بھگت کہنا کیا معنی ؟ دلت منو واد  برہمن واد کے شکار ہو کر سینکڑوں سالوں سے بے انتہا ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ اسی طرح کی صورت حال ملک میں سالہا سال سے منو وادیوں برہمن وادیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی ہے۔ اپنے شہری حقوق اپنے جائز مفادات کے لئے کہیں دونوں مظلوم طبقات دلت اور مسلمان کہیں اک ہو کر برہمن وادیوں کے خلاف میدان عمل میں نہ اتریں، اس خدشہ کے پیش نظر انہیں اک دوسرے کے خلاف لڑانے میں منو وادی  برہمن وادی سالہا سال سے مصروف ہیں۔ ورنہ ہم ایسا نہ دیکھتے کہ جسے ‘ ہندو مسلم فسادکہا جاتا ہے، یوں مسلمانوں کے خلاف دلت بھائی ہوتے۔

مذہب اسلام  ایک فطری  مذہب ہے۔ مساوات، عدل وانصاف و برابری کے تعلق سے مذہب اسلام کی تعلیم و تلقین کہیں اور نہیں۔ یہ بات انتہائی کھلے طور پر واضح ہےکہ اک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودو ایاز۔ نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

کسی بھی جماعت تنظیم ادارے اور پارٹی کے نظریات اصول و تعلیمات کیا ہیں۔ اس تنظیم پارٹی ادارے کے بانیان، لیڈران کی تحریروں تقاریر سے عیاں ہوا کرتے ہیں-آر ایس ایس کے لیڈران کی تحریر تقاریر کتابوںمیں محفوظ ہیں۔ جس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ وہ مذہب اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے کس قدر عداوت بغض رکھتی ہے۔ مسلمانوں کو غیر ملکی کہنا مسلم بادشاہوں کو ظالم کہنا اس ملک میں شریعت کا قانون نہیں چلے گا مسلمانوں کو اس ملک میں ہندو بن کر رہنا ہوگا، وہ یہاں ہندوئوں کےرحم و کرم پر رہیں۔ وہ یہاں کوئی مطالبے و سہولتیں مانگ نہیں سکتے۔ یہاں تک ک ان کوشیواجی کا سیکولر کردار بھی پسند نہیں۔ مسلمانوں کو ملیچھ، کہنا ان کے لئے عام بات ہے۔ آر ایس ایس کے نزدیک محب وطن اور ملکی ہندو مذہب ہی کا ماننے والا ہے۔ یہ اپنے آپ ہی کو سب سے بڑا محب وطن سمجھتے ہیں۔ آر ایس ایس کو اپنے آپ پر تنقید برداشت نہیں۔ ایسا کرنے والوں کو یہ غدار وطن اور غیر ملکی تک کہہ دیتے ہیں۔

آج پورے ملک میں آر ایس ایس کے نور نظر وزیراعظم مودی کے راج میں دلتوں اور مسلمانوں کا حال انتہائی برا ہے۔ قانون، دستور، قاعدوں کو ہندوتواوادیوں نے درکنار کر دیا ہے۔ ہندوتواوادی سرکار میں شامل وزراء تک اس میں ملوث ہیں۔ دستور و آئین پر ایمانداری سے چلنے کی قسم کھانے والے وزراء اور بذات خود وزیراعظم، دلتوں اور مسلمانوں کے تعلق سے مثبت معیار کو قائمرکھتے نظر نہیںآرہے ہیں۔ چاہے میڈیا، ملکی اور بین الااقوامی انسانی وسماجی اسٹیج پر یا پارلیمینٹ میں کتنا ہی، ملک میں جاری عدم رواداری اور ظلم وستم پر، پر زور احتجاج یا مذمت کی جائے۔ وزیراعظم مودی ہندوتواوادیوں کے ہاتھوں معصوم مسلمانوں، دلتوں پر بڑھتے بہیمانہ سلوک پر چپی سادھے ہیں۔ یہ ہندوتواوادی شر پسندوں کی ہمت افزائی کے مترادف ہے۔

اس وقت صرف دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ ہندوتواوادیوں کے ناروا سلوک کے ساتھ آدی واسیوں اور دیگر طبقات کی بھی زندگی تنگ ہے۔  فرقہ وارانہ ہم آہنگی قومی یکجہتی تار تار ہوئی جا رہی ہے۔ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی مول نیواسیوں حقیقی باشندوں کی زندگی اجیرن ہے۔ اسے روکنا ضروری ہے۔ تمام مظلوموں  انسانیت پسندوں کا اتحاد ضروری ہے۔ یہ مظلوموں کو اپنے حق کے لئے طاقت دیا کرتا ہے۔ آئینی حقوق کی ضمانت بن جا یا کرتا ہے۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ بڑھتے ظلم و ستم کے خلاف دلت اور مسلمان، اک متحدہ پلیٹ فارم کی ضرورت کو پہلے سے زیادہ محسوس کررہے ہیں۔ وہ کسی بھی وقت سے زیادہ جان رہے ہیں کہ دلتوں اور مسلمانوں کا دشمن اک ہی ہے۔ اپنے فائدے کے لئے منو وادیوں نے دلتوں اور مسلمانوں میں غیر مستند باتوں سے دوریاں پیدا کیں، دلتوں کا استحصال کیا۔ یہ بات دلت بھی اب اچھی طرح جان رہے ہیں۔ سیاسی اور سماجی سطح پر دلتوں اور مسلمانوں کا اک ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی ہند، غیر مسلموں اور دلتوں میں اسلام کے تعلق سے جانکاری سالہا سال سے پیش کرتی آئی ہے۔ دلتوں اور مسلمانوں میں نزدیکیوں کے لئے  کوشاں رہی ہے۔ حال ہی میں کچھ مہینوں سے آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے دستور بچائو، دین بچائواس موضوع پر، اک ہی پلیٹ فارم پر علمائے دین، دلت لیڈران دانشوران اور دیگر اقلیتوں کے لیڈران، سماجی حقوق کی بحالی اور تحفظ کے لئے میدان عمل میں احتجاجی جلسے کرتے نظر آئے۔ یہاں مہاراشٹر میں کئ شاندار اجلاس ہوئے۔ بڑے پیمانے پر مسلمانوں دلتوں و دیگر اقلیتوں نے شرکت کر کے انہیں کامیاب بنایا۔

 مولانا سجاد نعمانی محترم ولی رحمانی دلت لیڈر و امن میشرام و دیگر اقلیتی لیڈران کو بڑے پیمانے پر لوگ جوق درجوق سننے آرہے ہیں۔ ان کی  تائید وحمایت کر رہے ہیں۔ مولانا سلمان ندوی بھی دلت لیڈروں کے ہمراہ یو پی میں سرگرم ہیں۔ یہ خوش آ ئند باتیں ہیں۔ مسلمان کبھی متحد نہیں ہوتے یہ اک حقیقت ہے۔ خدارا اب تو اس پر آشوب دور میں اپنے دستوری حق کی لڑائی بھی الگ الگ نہ لڑیں، اسے جھوٹی شہرت اور انا کا مسئلہ نہ بنائیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے بڑھ کر ہم مسلمانوں کا مستند متحدہ پلیٹ فارم ہے۔ ماضی سے حال تک تمام مسالک کے علمائے دین اور دانشوران قوم اس سے جڑے رہے۔ مسلمان اس ملک میں سب سے بڑی اقلیت ہیں ساری اقلیتیں ہندوتوا کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس پرآشوب دور میں، بڑھتے مسائل کے تدارک کے لئے، دلت عیسائی اور دیگر پریشان حال اقلیتوں کی نظریں، ملک کی اک بڑی اقلیت ہونے کی بناء پر مذہب اسلام کے ماننے والے مسلمانوں پر ہیں کہ دلتوں اور دیگر مسلم اقلیتوں کے مسائل کے تدارک کے لئے مسلمان آگے بڑھیں۔

مسلمانوں دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے ملک میں برہمن واد منو واد کے ستم سے بچنے اور اپنے دستوری حق کے لئے ان سب مظلوموں کا اتحاد ضروری ہے یہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔

ملک کی آبیاری بقا تحفظ کے لئے علمائے کرام نے تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔ ملک کی آزادی کےلئے مسلمانوں نے علمائے دین کی قیادت میں انگریز سامراج کے پیر اکھاڑ دئیے۔ یہ آزادی کی لڑائی میں علمائے دین جمعیت العلمائے ہند کی قیادت میں آگے تھے۔  ملک کی آزادی میں کانگریس سب سے آگے اور واحد بڑی پارٹی تھی۔ اوروں کے لئے ملک کی آزادی ملکی فریضہ تھا۔ علمائے دین نے ملک کے لئے آزادی کو جہاد قرار دیا۔ ہزاروں علمائے دین نے ملک کی آزادی کے لئے ہنستے کھیلتے پھانسی کی سزائیں بھگتیں۔

انگریز چلے گئے ملک آزاد ہواانسانیت پر مبنی دستور آئین قاعدے بنے۔ اس پر ایمانداری دیانت داری سے چلنے کی قسم کھانے کے باوجود اس پر عمل کہاں؟ اسی دستوری آزادی کے لئے علمائے دین کی قیادت کے لئے ملک کے سارے مظلوموں کی آنکھیں ترس رہی ہیں۔ اپنے ملک کی آزادی میں تاریخ ساز رول ادا کرنے والے علمائے دین کو مادر وطن کی دستوری آزادی کے تحفظ کے لئے آگے آنا ہو گا۔ یہ وقت کی آواز ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔