گائے کے بیٹے

   ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی  

اللہ تعالٰی نے انسانوں کی منفعت کے لیے بہت سے جانور پیدا کیے ہیں۔ ان میں سے ایک گائے بھی ہے۔ (الانعام :143) میرے گاؤں کی کل آبادی مسلمانوں کی ہے، ان میں سے بہت لوگ گائے پالتے ہیں۔ یہی حال پورے ہندوستان کا ہے، کہ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے گائے پالتے ہیں اور اس سے مختلف طرح کے فائدے اٹھاتے ہیں ۔ بہت پہلے اسماعیل میرٹھی نے ‘ہماری گائے’ کے عنوان سے ایک نظم کہی تھی، جس میں اس سے حاصل ہونے والے بہت سے فائدوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا:

           رب  کا شکر  ادا کر  بھائی

            جس نے ہماری گائے بنائی

           گائے ایک بہت سیدھا سادھا،بے ضرر اور مسکین سا جانور ہے۔ اس کا سیدھا پن ضرب المثل ہے۔ کنایۃً غریب، بے زبان، بےچارہ، مسکین، سادہ لوح، بھولے بھالے، نہایت سیدھے آدمی کو، جوکچھ کاٹ پیچ نہ جانتا ہو "اللہ میاں کی گائے” کہا جاتا ہے۔

           بہت سے لوگ گائے کو اپنی ‘ماتا’ کہتے ہیں۔ گویا انھوں نے خود کو اس کا بیٹا ہونا تسلیم کرلیا ہے۔ آج کل گائے کے بیٹوں کا رویّہ پورے ہندوستان میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے اور ان کی الٹی سیدھی حرکتیں نہ صرف گائے کی تضحیک کا باعث بن رہی ہیں، بلکہ انسانیت کو بھی شرم سار کر رہی ہیں۔

           اگر وہ گائے کو اپنی ماتا کہتے ہیں تو انھیں اس کی دیکھ بھال، خبر گیری اور نگہ داشت میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، لیکن دیکھا جاتا ہے کہ شہروں میں بڑی تعداد میں گائیں ماری ماری پھرتی ہیں،کوئی ان کا پرساں حال نہیں ہوتا۔ وہ ٹریفک جام کرتی ہیں،پھلوں اور سبزیوں کے ٹھیلوں پر منہ مارتی ہیں اور ڈنڈے کھاتی ہیں۔

            حکومتوں نے گایوں کی دیکھ بھال کے لیے بہت سے مراکز قائم کر رکھے ہیں، جنھیں ‘ گو شالا’ کہا جاتا ہے۔ لیکن ان میں ان سے بالکل لاپروائی برتی جاتی ہے۔ چنانچہ تازہ خبر یہ ہے کہ ریاست راجستھان کی ہگونیا گوشالہ میں، جو ملک کا سب سے بڑا گوشالہ ہے، گزشتہ 10 دنوں میں 100 سے زائد گائیں کم چارہ اور پانی ملنے اور انتظامات میں کمی کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر چکی ہیں۔

           گائے کے بیٹے اس کی دیکھ بھال کیا کریں گے، مسلسل ایسی خبریں آرہی ہیں کہ گوشالہ کے لیے حکومتوں کی طرف سے جو زمینیں الاٹ کی جاتی ہیں ان پر وہ ناجائز قبضے کر لیتے ہیں اور چارہ کے لیے مختص کی جانے والی رقمیں، جو کروڑوں میں ہوتی ہیں، ہڑپ کرجاتے ہیں۔

         گائے کے بیٹے اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ہاتھ نہیں لگاتے، بلکہ اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے کا کام انھوں نے اپنے درمیان نیچ قوم، جسے وہ شودر یا دلت کہتے ہیں، کے حوالے کر رکھا ہے۔ اس کام پر انھیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا، لیکن احسان فراموشی کا یہ عالم ہے کہ اب یہ کام کرنے والے بھی ان کے ظلم و تعدّی سے محفوظ نہیں ہیں، چنانچہ ایسی خبریں آئی ہیں کہ مری ہوئی گایوں کی لاشوں کو اٹھا کر لے جانے اور ان کی کھال اتارنے والوں کو بری طرح زدوکوب کیا گیا، یہاں تک کہ ان میں سے کئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

          گائے کے بیٹوں نے اس کی جھوٹی محبت کا سوانگ بھر کر اب پورے ملک میں آتنک پھیلا رکھا ہے۔ جانوروں کی تجارت کرنے والے ان کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں۔ چاہے کوئی گائے کو پالنے کے مقصد سے لے جارہا ہو، لیکن وہ اسے گائے کا قاتل سمجھتے ہیں اور اہنسا کے علم بردار ہر طرح کی ہنسا پر آمادہ رہتے ہیں۔

         ان کا آتنک اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ کسی کو راستے میں پکڑ لیں، اور اس کے ٹفن کی تلاشی لے لیں، کسی کے گھر میں بے دھڑک گھس جائیں اور اس کا فریج کھول لیں، پھر گوشت کا کوئی ٹکڑا پاکر اسے موت کے گھاٹ اتاریں، چاہے بعد میں لیبارٹری میں وہ بکرے کا گوشت ثابت ہو جائے۔

           گائے کے بیٹوں کا دوہرا رویّہ اس سے ظاہر ہے کہ ہندوستان کے ہر بڑے ہوٹل میں کھلے عام گوشت ملتا ہے، مگر ان پر یہ ہلّہ نہیں بولتے، اس لیے کہ ان ہوٹلوں کے وہی مالک ہیں، گوشت کے ایکسپورٹ کا کاروبار، جو کروڑوں اربوں روپے کا ہے، اس کے یہی مالک ہیں، جانوروں کی کھالوں (چمڑوں) کا کاروبار، جو غیر معمولی منفعت کا ہے، انہی کے دم سے قائم ہے۔

          اگر واقعی گائے ان کی ماتا ہے اور یہ اس کے بیٹے ہیں تو انھیں گائے کی طرح کی مسکنت، تواضع اور سیدھا پن اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے اور دھونس، دھاندلی، ظلم و جبر کا رویّہ ترک کر دینا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔