دلیل کم نظری قصہ قدیم و جدید‎

مصدق مبین

‘ کلاسکل جاہلی’ رویے اور مزاج کی بوسیدہ عمارت  کا نازک پلر  ‘ہر نئی چیز’ سے خوف کھانا اور ہر نئی بات سے راہ فراراختیار کرنا ہوتا ھے۔

قرآن کریم میں بیان کی گئی انبیاء کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ جاہلی معاشرے کے سامنے پیش کئے گئے ہر آرگومینٹ کا کاؤنٹر اسی ماسٹر دلیل سے کیا جاتا رہا کہ یہ تو بالکل نیٔ بات ہے، ہمارے آباء و اجداد تو کچھ اور ہی کرتے تھے۔ ایک جگہ کہا گیا:

 بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّهْتَدُونَ (الزخرف: 22)

 ‘نہیں، بالکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

ایک دوسرے مقام پر کہا گیا:

 قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ(الشعرائ: 74)

 ‘وہ کہتے ہیں ہمارے آباؤ اجداد کو ہم نے ایسےہی کرتے پایا ہے‘۔

اور بھی کئی مقامات پر اس طرح کے رویے کا تذکرہ ہے۔ دوسری طرف اسلام کا رویہ اس سلسلے میں بہت واضح ہے۔ کوئی چیز یا دلیل صرف اس بنیاد پر حق قرار نہیں پا سکتی کہ وہ پرانی ہے اور کوئی موقف اس وجہ سے رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ‘نیا’ ہے۔ ٹھہر کر ، دلائل کی روشنی میں کس بھی نۓ پرانے موقف کا محامکہ، یہی صحت مند علمی اپروچ ہے۔ لیکن  افسوس کہ آج کل یہ ‘جاہلی مرض’ عام ہے اور اتفاق سے اس گروہ میں بھی جس نے یہ الزام اپنی تاریخ کے ہر دور میں سہا اور جھیلا ہے۔  خلاصہ یہ ہے کہ  اگر ہر پرانی بات برحق ہے تو پھر علمی ارتقاء، تخلیقیت اور اجتہاد ‘چہ معنی دارد’

کلاسکل جاہلی رویے میں جہاں ہر نئی چیز باطل و بے کار اور ہر پرانی چیز برحق ہوتی ہے،   ‘طرز کہن’ پر اڑنے اور ‘آئن نو ‘ سے ڈرنے کا ہنر سکھایا جاتا ہے ۔ وہیں دوسری طرف ‘ ماڈرن (جدید) جاہلی سماج’ میں ہر ‘پرانی’ چیزخلاف حق گردانی جاتی ہے۔ اور یہ پرانی بات انکے خود ساختہ’روشن خیالی’ کے معیار پر کھری نہیں اترپاتی ہے۔ آپکا ہر ‘آرگیومینٹ’ روڈھیواد، فرسودہ اور نا قابل عمل موقف قرار پاتا ہے۔ خصوصی طور پر مذہب اور اخلاق پر گفتگو کرتے وقت انکا یہ ‘نقطہء عارفانہ’ پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ یہ دوسری قسم کی جاہلیت مزید خطرناک اور دوسری طرف مضحکہ خیز بھی  ہے۔ اگر آپ سماجیات اور سیاسیات میں سقراط، افلاطون یا ارسطو کو محض اس وجہ سے رد نہیں کر سکتے اور واقعتا نہیں کرتے ہیں کہ یہ بہت قدیم فلسفی اور مفکرین ہیں یا انکے افکار و خیالات قدیم ہیں تو مذہب اور اخلاقیات کے کسی بھی مقدمے کو اس مفروضے کی بنیاد پر کیوںکر رد کیا جا سکتا ہے؟

معاملہ یہ ہے کہ جدید اور قدیم کا قصہ ‘دلیل کم نظری’ کے سوا کچھ اور نہیں۔  جس میں روایت پسند بھی ملوث ہیں اور جدید روشن خیال حضرات بھی۔ نام اور عنوان دونوں کے جدا ہیں، مجموعی مزاج اور رویہ ایک ہے۔

علامہ فرما کر گئے ہیں:

زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک

دلیلِ کم نظَری، قِصّۂ جدید و قدی

تبصرے بند ہیں۔