دم بھر کا یہ سفینہ،  پل بھر کی یہ کہانی!

محمد خان مصباح الدین

فجر کی نماز کے بعد صبح کا حسین منظر دیکھ کر اور دنیا کی ہر مخلوق کا استقبال کرتی ہوئی ہلکی ہلکی سرد و تازہ ہوائیں جس سے اکثر لوگوں کا دل بہل جاتا ہے اورانسانیت کو دلی سکون اور لطف میسر ہوتا ہے مگر آج دل کو سکون نہیں مل رہا تھا ہر روز صبح کا منظر جو میرے دل ودماغ پے ایک خوبصورت نشان چھوڑ جاتا تھا آج اسکا سایہ بھی مجھ سے کوسوں دور تھا عجیب سی کشمکش میں میں سونچ رہا تھا کہ آج مجھے کیا ہو گیا ہے حالانکہ میں اپنے آپ کو سنبھالنے کی پوری کوشش کر رہا تھا مگر ناکام رہا پھر اپنے کمرے میں آکر بیٹھ گیا کہ شاید سکون مل جائے مگر جب کہیں سے دل کو آرام نہ ملا تو پھر خیال آیا کہ چلو موبائل کے رسائل پڑھتا ہوں اچانک ایک قریبی دوست کا رسالہ موصول ہوا جس میں کچھ تصویریں بھی تھیں دیکھ کر آنکھیں نم ہو گئیں ایک دوست جو دل کو بہت عزیز تھا اور اس سے بات کر کے مجھے بہت لطف حاصل ہوتا تھا اور ہر بار اس سے کچھ سیکھنے کا موقعہ ملتا تھا,مگر آج وہ خاموش تھا کیوں کہ اسکی دنیاوی زندگی کا حصہ مکمل ہو چکا تھا اسکی موت کا منظر میری آنکھیں برداشت نہیں کر پا رہی تھیں چارپائی پے رکھی اسکی لاش میری نظروں نے دیکھا اور ایک لمہے کے لیے میں نے دل ہی دل میں انکار کیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا مگر حقیقت میں ایسا ہوا تھا موت پے کسی کی نہیں چلی اور نہ چلے گی بڑے بڑے لوگ آئے جنہوں نے زندگی کے مشکل سے مشکل میدان کو سر کیا اور اسکی فتح کا سہرا اپنے سر باندھا, بلندیوں کا بڑے سے بڑا نشان چھوا ,شہرت ومقبولیت نے انکے قدم چومے, دولت کا انبار جمع کر کے دنیا کی ہر وہ چیز اپنے قبضے میں کی جسے عام انسان اپنے تصور میں بھی لانے سے قاصر ہے مگر ایسے لوگ موت سے اپنی زندگی نہ خرید سکے قارون,فرعون,ہامان,ہرمز,چنگیز, ہلاکو,ہٹلر,وقت کے شہنشاہ,بادشاہ,حاکم,کوئی نہیں بچا, بڑی بڑی باتیں کرنے والے,چاند کو زمیں پر اتارنے کا دعوی کرنے والے ,سورچ چاند اور ستاروں پر کمند ڈالنے کادعوی کرنے والے, جب موت کو قید کرنے کی کوشش کی تو پھر دنیا نے انکی موت کا تماشہ دیکھا کہ موت نے انہیں وقت مقررہ پر کس طرح آ دبوچہ اور ایک لمہے کی رہائی نہ دی_

           پانی کا بلبلہ ہے ، انساں کی زندگانی

          دم بھر کا یہ سفینہ ، پل بھر کی یہ کہانی

قارئین کرام!

 دوست زندگی میں ہزاروں مل جاتے ہیں مگر ایسا دوست جو حقیقی معنوں میں دوستی کا مطلب اور دوستی کا حق سمجھتا ہو ایسے لوگ ہزاروں میں بھی کبھی کبھی ملا کرتے ہیں وہ آپ کی زندگی میں خوبصورت سایہ بن کر آتے ہیں اور آپ کو سایہ دے کر سورج ڈھلنے کے ساتھ ہی آپ کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور آپ کو زندگی بھر کیلیےحسین یادوں کی سوغات دے جاتے ہیں اور اپنے انمٹ نقوش دنیا میں چھوڑ جاتے ہیں انکی یادوں کو آپ چاہ کر بھی اپنے دل سے جدا نہیں کر سکتے آپ خوابوں اور خیالوں میں انکی تصویر بنانے کی کوشش کرتے ہو  مگر دوبارہ ایسے لوگ بڑی مشکل سے ملا کرتے ہیں_

تقریبا 2 ماہ پہلے میرے دوست نے اپنے گھر کی ایک روداد مجھے سنائی کہ اسکی بہن لکھنو میں کسی کالج میں زیرتعلیم تھی اللہ نے حسن کی بےشمار دولت سے آراستہ کیا تھا دیکھنے والوں کی نظریں خیرہ ہو جایا کرتی تھیں وہ فراز کے اس شعر کا حقیقی مصداق تھی

            رکے تو گردشیں اسکا طواف کرتی ہیں

          چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

مگر اسے  ہوس کے بھیڑیوں کی نظر لگ گئی اور اسے ایک ہندو لڑکے نے اپنی محبت کے جال پھانسا اور اسے محبت کے سر سبز اور حسین باغات اور خوبصورت جھانسوں کے مناظر دکھائے اور لمبے چوڑے وعدے کر کے زندگی اور موت کا سفر ایک ساتھ طے کرنے کی قسمیں کھائی اسیطرح اپنی جالسازی کو خوبصورت شکل دے کر  ایک دن اسکی عزت کو اپنی ہوس کا شکار بنا لیا اور یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا اور کچھ دن بیتنے کے بعد اسکے  ماں بننے کے آثار نظر آنے لگے گویا دنیا اسے اندھیری نظر آنے لگی نہ کوئی راہ نہ کوئی راہ رو بس اکیلی منزل کا نشان ڈھونڈھنے لگی مگر افسوس اس راستے پے سوائے اس کے وجود کے کوئی نہ ملا وہ خود کو اکیلی پا رہی تھی موت کو گلے لگانے کا تصور بھی آیا مگر شاید موت اتنی آسان نہیں ہوتی جتنا لوگ سمجھتے ہیں پھر اسکے سامنے ایک ہی راستہ بچا کہ اسی ہوس کے بھیڑے کے سامنے اپنے آپ کو پیش کردے چنانچہ لڑکی نے اسکے تمام وعدوں کو دہرایا اور سب کچھ سنا کر کہا کہ مجھے کسی بھی طرح اس مصیبت سے نجات دلاو لیکن اس ظالم نے لڑکی کی خوف کے خوف ودہشت کا  بھر پور فائدہ اٹھایا اور اسپر دہشت کا سایہ برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ اب دنیا میں تمہیں کوئی قبول نہیں کریگا نہ سماج نہ تمہارے گھر والے اس لیے میری کچھ شرطیں مان لو اور میرے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ میری بن کر رہو,ظالم عاشق نے اس کے سامنے شرط کی دیوار کھڑی کر دی کہ اگر تم چاہتی ہو کہ ہم دونوں شادی کر لیں اور ایک ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہیں تو تمہیں اسلام چھوڑ کر ہندو دھرم قبول کرنا پڑے گا اور دوسری بات آج سے تمہارا رشتہ اپنے گھر والوں سے اور مسلمانوں سے بالکل منقطع یہ شاری شرطیں اگر منظور ہوں تو میں تمہیں اپنا بنانے کیلیئے تیار ہوں ورنہ میرا تمہارا کوئی واسطہ نہیں,شاید وہ لڑکی بزدل تھی جس نے ہر غلط قدم کے بعد ایک اور غلط قدم اٹھایا شاید یہ سونچ کر کہ اس بار کچھ بہتر ہو مگر ہر بار برائی اور حیوانیت نے  نیا چولہ پہنا  اور وہ مسلسل شکار ہوتی گئی اور اس نے اپنے آپ دھوکے اورفریب کے جال میں بری طرح پھنسا لیا جہاں سے نکلنا وہ اپنے لیے محال سمجھ رہی تھی تبھی تو اس نے ظالم کی ہر شرط کو سر جھکا کر قبول کر لیا اور اپنی دنیاو آخرت دونوں برباد کر لیا_

      صرف اک قدم اٹھا تھا غلط راہ حیات میں

        منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈھتی رہی

ادھر گھر میں جیسے ماتم سا پرپا ہو گیا جب کالج سے بچی کے لاپتہ ہونے کی خبر آئی لوگ طرح کی باتیں کرنے لگے گھر والوں نے پورے رشتے کنبے ہر جگہ کھوج کی مگر کہیں سے کچھ پتہ نہ چل سکا گھر والوں کی آنکھیں آنسو بہا بہا کر سوکھ گئیں بھائیوں نے دن رات ایک کردی مگر کچھ پتہ نہ چل سکا ادھر گاوں اور محلے کے لوگوں نے زبان کا زخم دینا شروع کیا طرح کی باتیں سامنے آنے لگیں کسی نے کہا اسکے اثرات پہلے سے ٹھیک نہیں تھے تو کسی نے خاندان کی عزت پے سوالیہ نشان کھڑے کئے تو کسی نے گھر والوں کو بھی بد چلن اور الٹے پلٹے خطاب دیئے رشتہ دار ایک ایک کرکے بکھرتے چلے گئے گاوں اور سماج کے لوگوں نے دامن بچانا شروع کردیا, یہی دنیا کی  ریت اور سچائی ہے اور سماج کی حقیقت بھی ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی مگر اس دوڑتی اور بھاگتی دنیا میں لوگ حادثات اور مصیبتوں کو پل بھر میں بھول جاتے ہیں چار دن لوگ چلاتے ہیں انگلی اٹھاتے ہیں پھر سب بھول جاتے ہیں_

      یہ حادثات تو پتھر بنائے دیتے ہیں

    کسی کو دل پے بہت دیر تک اثر نہیں رہتا

زمانہ گزر گیا مگر ماں,باپ,بھائی,بہن اس درد کو بھول نہیں پائے اور انہوں نے امیدوں کے سہارے اپنی تلاش جاری رکھی اور ملک کے کونے کونے میں معاش کی تلاش کرنے والوں سے برابر یہ التجا کرتے رہے کہ کہیں انکی عزت نظر آ جائے تو انہیں خبر کر دیں اسطرح یہ سلسلہ برسوں تک جاری رہا اور لوگوں سے دریافت کرتے رہے آخر ایک دن ممبئی سے وہ خبر بھی آئی جس کا انہیں برسوں سے انتظار تھا ماں کی آنکھوں میں ممتا اور پیار کے آنسوچھلک آئے ,باپ کی شفقت و محبت دل میں  ہچکولے کھانے لگی, بھائی کے دل میں اپنی بہن کو دیکھنے کی حسرت جاگ اٹھی, بڑی بہن خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی ,بھابھی کے من میں خوشی کی امنگیں اٹھنے لگی اور سب نے ایک دوسرے کو دیکھ کر امید کی سانس لی مگر ابھی تک سب لوگ اسکے کرتوت سے بے خبر تھے کسی کو بھی اسکی زندگی کے عجیب داستاں کا علم نہ تھا اسکے ساتھ ہوئے حادثے سے سب بے فکر تھے مگر جب خبر دینے والے نے طویل خاموشی کے بعد لمبی سانس لی اور اپنی بات کا آغار کیا کہ آپ کی بچی جو کبھی آپ کے لیے معصوم اور دنیا وما فیہا سے بے نیاز تھی آج وہ خود دو بچوں کی ماں بن چکی ہے اور اس نے ایک غیر مسلم لڑکے کو اپنا ہمسفر چن لیا ہے اور اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کو فراموش کر دیا ہے اور اس وقت وہ ان کے رنگ میں اس طرح رنگ چکی ہے کہ اسے اپنی دنیا وہیں تک سمٹی نظر آتی ہے اتنا سننا تھا کہ سب کےعقل و ہوش پے جیسے بجلی سی گر پڑی ہو سب کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا سب کی زبانوں پے تالے لگ گئے سب خاموش تھے غم اور غصے کی لہر دوڑنے لگی ممتا اور پیار کا محل چند لمہوں میں خاکستر ہو کر رہ گیا پھر گہری سکوت کے بعد باپ کی غیرت جوش میں آئی اور اس نے مذہب اور ملک کے قانون سے ہٹ کر فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا کہ اب ان دونوں کی موت ہی میری زندگی کا مقصد ہوگا کیوں کہ میں اپنی عزت کو کسی غیر مسلم کے ہاتھوں میں لٹتے نہیں دیکھ سکتا بیٹے نے باپ کے ہر فیصلے کی تائید کی اور اسکے حکم سے وہ مکمل تیاری کیساتھ ایک دن ممبئی کو روانہ ہوا سفر کے دوران اس نے منظم طریقے سے ذہن میں ایک خاکہ تیار کیا اور ممبئی پہونچ کر کچھ دن ارد گرد رہ کر حالات جائزہ لیا پھر ایک دن اپنی بہن سے ملاقات کرنے اس کے گھر گیا شاید اسکا عاشق اس وقت گھر پے نہیں تھا بھائی نے بہن سے ملاقات کی اور برسوں کی محبت کو آنسووں سے ثابت کر کے دکھایا کافی وقت تک دونوں روتے رہے پھر گھر کے حالات کا ذکر, لوگوں کے لعن وطعن,ماں باپ کا دکھ سب کچھ سنانے کے بعد اسکے حالات دریافت کیئے پھر بھائی نے بہن سے کہا کہ گھر والوں کو تم دونوں کے بارے میں سارا علم ہے چار برسوں تک یہ ناراضگی برقرار رہی مگر اب ہم لوگ تم دونوں کو اپنانا چاہتے ہیں تم دونوں کی محبت ہم لوگوں کے سمجھ میں آ گئی ہے دنیا میں انگنت لوگ ایسے ہیں جو دوسرے مذہب کی لڑکیوں سے شادی کرتے رہے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری اب تم دونوں گھر چلو اور آرام سے وہیں رہو ہم لوگ تمہاری حفاظت کا ذمہ لیتے ہیں اسطرح بھائی نے بہن کے جذبات کو ابھار کر اسے منا لیا اور بہن نے اپنے عاشق کو اپنے بھائی کی باتوں کوخوبصورت الفاظ اور حسین انداز میں بیان کر کے راضی کر لیا لیکن انہیں یہ علم کہاں تھا کہ موت انہیں آواز دے رہی ہے اور ہر قدم موت سایہ بن کر انکا پیچھا کر رہی ہے اسطرح سب نے نہایت سنجیدگی سے گھر کے لیے رخت سفر باندھا اور راستے کے درمیاں بھائی اپنی الفت اور پیار کی باتوں سے سب کو لبھاتا رہا اور چند راتوں کی مسافت طے کرنے کے بعدایک دن صبح کے وقت سب کو لیکر دہلی پہونچا اور وہاں منظم طریقے سے معاملے کا لائحہ عمل پہلے سے تیار تھا سب کو بیٹھا گیا کھانا وغیرہ مل کر سب نے ساتھ کھایا پھر سورج اپنی کرنوں کو سمیٹنے لگا دھیرے دھیرے تاریکی نے چارو طرف اپنا بسیرہ کر لیا اس پہلے کی نیند بھائی کو اپنی آغوش میں لیتی بھائی نے اپنے دل میں دبے ہوئے طوفان کو اور دل میں لگی ہوئی آگ کو ہوا دی,غم اور غصے کو دوبارہ بیدار کیااورموقعے کی نزاکت کا فائدہ اٹھایا اور اپنی بہن کے عاشق کو بہانے سے بلا کر ایک الگ کمرے میں لے گیا اور چاقو نکالا جب تک سامنے والا کچھ سونچتا یا کسی رد عمل کا اظہار کرتا تب تک چاقو اپنا کام کر چکی تھی سامنے والا زمین پے پڑا تڑپ رہا تھا اور بھائی نے اس پر بھی بس نہیں کیا بلکہ سر تن سے جدا کر دیا اور اسکے بعد بہن کے کمرے میں گیا وہاں کچھ دیر بیٹھ کر اسے دیکھتا رہا شاید وہ دل ہی دل میں اس پر ملامت بھیج رہا تھا کہ آخر تم نے ایسا کیوں کیا؟ کیا ہماری محبت میں کوئی کمی رہ گئی تھی؟ یا ہم نے تمہاری خوشیوں کا خیال نہیں رکھا؟ کیا تمہیں اپنی عزت کا سودا کرتے وقت اپنے ماں باپ کا خیال تک نہیں آیا جس نے تم پر بھروسہ کر کے تمہیں مکمل آزادی دی؟ جس نے تمہاری خوشیوں کی خاطر خود کو داو پے لگا کر تمہیں تعلیم حاصل کرنے کیلیئے اپنے سے الگ رکھا؟ کیا انکی صورت پے ذرہ برابر رحم نہیں آیا جنہوں نےخود جینے کیلئے کھانا کھایا مگر تمہیں بھر پیٹ کھلایا اور تمہیں احساس تک ہونے نہیں دیا؟ کیا تمہیں اپنے بھائی بہنوں کا ذرہ برابر خیال نہ آیا کہ تمہاری اس حرکت پر سماج کے لوگ انہیں کس نگاہ سے دیکھینگے اور ان سے کس طرح دامن چرا کر بھاگینگے؟ کیا تمہیں اس مذہب تک کا پاس نہ رہا جس نے تمہیں سماج میں سر اٹھا کر جینا سکھایا,جس تمہیں عزت,مرتبہ,بلندی سب کچھ عطا کیا؟ اس سے قبل کہ دل کی آگ سرد ہوتی یا بہن بغاوت کے لیے سر اٹھاتی بھائی نے بہن کو بھی موت کی نیند سلا دی اور اب بچے انکے بچے اس پہلے کی صبح کی کرنیں منظر کشی کرتیں دونوں بچوں کو اس نے کچھ قرابت داروں کے سپرد گھر کو روانہ کر دیا اور خود پولیس اسٹیشن گیا اور پورے معاملے کی کہانی سنائی اور خود کو قانون کے سپرد کردیا یہ کہتے ہوئے کہ میں نےسارا معاملہ اپنے ہوش میں انجام دیئے ہیں اور مجھے اسبات کا ذرا بھی افسوس نہیں عدالت میرے حق میں جو بھی فیصلہ صادر کرے مجھے منظور ہے چنانچہ معاملہ عدالت تک پہونچا تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد اور مکمل تفتیش کے بعد عدالت نے بھائی کو مجرم قرار دے کر پھانسی کی شزا سنا دی اور ماں باپ کو اس معاملے کی نمائندگی کرنے کے جرم میں قید کی سزا سنائی_

آج سے تقریبا 6 ماہ سال قبل اسی گھر کے ایک فرد سے ملاقات ہوئی وہ میرے لیےانجان تھا مگر میں اسکے لیے انجان نہیں تھا کیوں کی رشتوں کی ڈور بڑی لمبی ہوتی ہے میں اس رشتے سے انجان تھا مگر وہ نہیں, آج اس نے اجنبی بن کر ملاقات کی اور رشتوں کی دہائی نہ دے کر بلکہ خود سے ایک اچھی دوستی کی بنیاد ڈالی اور اس نے اپنی دوستی کا حق ان چند ماہ میں اتنی بخوبی سے ادا کیا کہ شاید کوئی اپنا بھی ہوتا تو بھی اتنی شدت سے دوستی کا فرض ادا نہ کرتا مگر میری بد قسمتی کہیئے کہ وقت نے کبھی اتنی مہلت ہی نہ دی کہ میں اسکی دوستی کا دم بھرتا اور کبھی اسکے ساتھ بیٹھ کر چند منٹ گفتگو کرتا یا  اسکے دکھ درد میں شریک ہو کر اسکے غموں کو بانٹتا اور اسکے اداس دل کا دوا تلاش کرتا,

وہ اعظم گڑھ شبلی نیشنل کالج  میں کئی برسوں سے تعلیم حاصل کر رہا تھا زندگی خوشگوار تھی اور پرسکون ماحول میں وقت گزتا گیا اور تعلیمی عروج کا سلسلہ بھی جاری رہا کہ ایک دن اچانک ایک دوست کیساتھ بازار گھومنے اور ضروری اشیاء خریدنے کا اتفاق ہوا اسکوٹی ابھی کچھ مراحل طے کر کے مین روڈ پے پہونچی کہ اچانک ایک تیز رفتار ٹرک نےاتنا شدید سے ٹھوکر مارا کہ دونوں دوست اسکے نیچے آ گئے ایک کی موقعے پر ہی جان نکل گئی اور دوسرے کا ایک پیر جسم سے بری طرح الگ ہو گیا داہنے ہاتھ کی تین انگلیاں اور بائیں ہاتھ کی ایک انگلی بھی ہاتھوں سے الگ ہو گئی میرا دوست تڑپ رہا تھا کہ اچانک لوگوں کا سیلاب آ گیا فورا ہاسپیٹل لے جایا گیا خون کافی ضائع ہو چکا تھا اور مسلسل سر اور پیر سے خون بہہ رہا تھا کسی طرح خون کے بہاو کو کم کیا گیا اور اسکا چہرہ جوکبھی قابل دید تھا,جسکی صورت دیکھ کر اکثر لوگ قدرت کی کاری گری کی تعریف کرتے تھے,جس میں کشکش اور رونق چھلکتی دکھائی دیتی تھی آج وہ بالکل بھیانک اور ڈراونہ سا ہو گیا تھا جسے دیکھ کر ہوش والوں کے ہوش اڑے ہوئے تھے مگر قدرت کے فیصلے کو کون ٹال سکتا ہے منہ سے آواز تو دور سانس لینے کی گنجائش نہ رہی پر بھی 15 دنوں میں حالات کچھ سازگار ہوئے اور طبیعت میں روانی بھی آنے لگی مگر افسوس اور احساس کمتری نے اس کے ذہن کو قید کر لیا ایسے موقعے پے اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ماں باپ پہلے سے جیل کی کال کوٹھری میں قید اور بھائی کو پھانسی کی سزا اور ایک بہن جسکو موت کی نیند سلا دیا گیا تھا ان سارے زخموں کے ساتھ ایک اور گہرا زخم اس وقت لگا جب زندگی کا ساتھ نبھانے والے بھی رشتہ منقطع کر کے چلے گئے اور ساتھ ہی ساتھ ہاتھ پاوں کی کمی اور چہرے کی خوبصورتی یہ سارے درد ایک ساتھ آکر زخم کو اور گہرہ کرتے چلے گئے اور اسے اپنی مستقبل کا غم ستانے لگا پوری دنیا اسکے سامنے تاریک نظر آنے لگی اکیلے پن کا احساس اسے کھوکھلا کرتا گیا اور پھر اچانک ایک ماہ مسلسل زخموں کا بوجھ سنبھالے وہ اس دنیا کو خیرباد کہہ کر چلا گیا_  طبیعت میں روانی دیکھ کر کسی کو یہ گمان نہ تھا کہ اچانک وہ دنیا کو الوداع کہہ دیگا سب لوگ حیرت اور افسوس کر رہے کہ پورا گھرانہ چند دنوں میں بکھر کر رہ گیا اسکی میت پر کوئی اپنا رونے والا تک نہ بچا آج مجھے زندگی کا بہت بڑا صدمہ لاحق ہوا ہے کیوں کی میرے سامنے اس گھر کی مکمل تصویر ہے جو چند سالوں پہلے خوشی کی زندگی بسر کر رہا تھا اور اس گھرانے کی تہذیب اور خوشحالی کی لوگ مثال دیتے تھے آج وہ مکمل طور پر ٹوٹ کر رہ گیا_

مجھے افسوس اس وجہ سے بھی ہیکہ جس نے مجھے مصائب کے وقت حوصلہ دیا اور مجھے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا میں زندگی میں اسکی قدر نہ کر سکا آج افسوس کر کے بھی کیا فائدہ جبکہ وہ اس دنیا میں نہیں ہے ہر بار اس نے ضد کی کہ میں اسکی دوستی کی تعریف کروں مگر کبھی اسکا دل رکھنے کیلیئے بھی میں نہ کر سکا اور ہر بار وقت کی تنگی کا شکوہ کرکے اسکی معصوم عادتوں کو ٹالٹا رہا_

قارئین کرام!

اس حقیقت کو ذکر کرنے کا مقصد اللہ کی قدرت کو اجاگر کرنا ہے

": ( وتعز من تشاء وتذل من تشاء)”:

ساتھ ہی ساتھ عبرت اور نصیحت کیلیئے اور باطل کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کرنے کیلیئے_

اللہ ہمیں برائیوں سے محفوظ رکھے آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔