دور جدید میں کام یابی کا معیار 

شہباز رشید بہورو

قرآن مجید نے انسانی زندگی کے ہر معاملے میں حسین توازن  قائم کرنے کے زریں اصول بیان کیے ہیں۔ انسان کو حدوداللہ (بمعنی اصول وضوابط ) کے اندر رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی تلقین کی ہے، ان حدود قیود کو پھلانگنے سے منع کیا ہے اورحدوداللہ توڑنے والے کو ظالم قرار دیا ہے۔ انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کائنات کے اندر بھی ایک حکیمانہ توازن قائم کیا ہے جس سے بہتر کا تصور انسان نہیں کر سکتا ہے۔ الله تعالی کی اس عظیم الشان کائنات کے اندر ہر چیز کا اعلی سے اعلی اور ادنی سے ادنی کام کا سر انجام دینا اس کی پہچان ہے مثلاً آفتاب کا پوری دنیا کو روشن کرنا ایک اعلی کام ہے جو یہ سر انجام دے رہا ہے، دوسری طرف انسانی خلیے کے اندر ایک cell organelle ایک ادنی سا کام سر انجام دے رہا ہے یا  جراثیم فاضل مادے کو decay کرنے کا کام دیتا ہے، یہ افعال ان چیزوں کی پہچان ہے۔

یہ پہچان قدرتی طور پر انہیں حاصل ہے جس پر کیسے کا سوال(یعنی اس عمل کے steps کیا کیا ہیں) تسلی بخش جواب تو ضرور حاصل کر سکتا ہے لیکن کیوں کا جواب انسان کو ذہنی مشکلات میں ڈالنے کا امکان پیدا کرتا ہے(یعنی یہی چیز یہ مخصوص کام سرانجام کیوں دیتی ہے دوسری اور کیوں نہیں)۔ آفتاب کیوں روشنی دیتا ہے اور چاند کیوں نہیں یا چاند کیوں چاند ہے سورج کیوں نہیں؟  آفتاب کیوں آفتاب ہے چاند کیوں نہیں؟ یہ سوال ضرور ایک متجسس انسان کرسکتا ہے لیکن دانا بینا نہیں۔ میری نظر میں کیوں کا جواب اگر ایک انسان آفتاب کی روشنی کے سلسلے ميں fusion reactionکے تناظر میں دے سکتا ہے لیکن یہ کیوں کے مقابل کا جواب نہیں ہے بلکہ کیسے کے مقابل کا ہے۔

ایک سائنسدان physical and chemical phenomenonکے پیچھے کارفرما اصول وضوابط کو دریافت کر سکتا ہے لیکن یہ بتانے سے بالکل قاصر ہے کہ ایسا ہی کیوں ہوتا ہے مثلاً سورج میںfusion reactionہی کیوں ہوتی ہےfission reaction کیوں نہیں،ٹھیک ہے اگر اس کا جواب وہ hydrogenاور helium کی کیمیائی خاصیت کو لے کر دے سکتا ہے لیکن یہ جواب دینے سے بالکل قاصر ہے کہ hydrogen ہی کیوں سورج میں موجود ہے یا hydrogen ہی کیوں fusion کرتا ہے۔ اگر چہ اس کا جواب بھی وہ اپنے متجسس اور مظطرب ذہن کو مطمئن کرنے کے لئے مختلف theories کی صورت میں دے سکتا ہے لیکن اس کے بعد اور کئی ایسے سوالات کا دروازہ کھلتا ہے جن کا جواب تلاش کرتے کرتے اپنے بالوں کو سفید اور جسم کو کمزور پا کر حیرت کا لباس اوڑھ کر اس دنیائے فانی کو خیرباد کہتا ہے لیکن ان سوالات کے جوابات کے پیچھے کارفرما اصول کے خالق کو پہچانے بغیر سپرد خاک ہوتا ہے۔ زمین پر بیٹھنے والا انسان ضرور آفتاب کی ساخت اور اس سے متعلقہ امور کی جانکاری حاصل کر سکتا ہے لیکن سورج کا ذریعہ توانائی کی پوزیشن پر لفظِ” کیوں” کو چسپاں کرنا اس کا اپنی اوقات سے باہر نکلنے کے مترادف ہے۔ اگر انسان اپنے ذہن میں پیچیدہ سوالات پیدا کرتا ہے تو اسے اپنی ذہانت کا کمال سمجھتا ہے۔ ان پیچیدہ سوالات کا جواب تلاش کرنا اور دینا(جو وہ خود کھڑا کر چکا ہے )لازم سمجھتا ہے، یہ پیچیدہ سوالات اکثر وہ اپنے خالق کے متعلق کھڑا کرتا ہے۔ اس ذہنی سفر میں وہ نت نئے دلائل پیش کرتا ہے، مختلف انداز سے اپنا استدلال پیش کرتا ہےاور وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنے نقطہ نظر میں تبدیلی بھی لاتا ہے۔

اس انسان کو اتنا ہی ذہین مانا جاتا ہے جو جتنا الله تعالیٰ کے وجود پر، آخرت پر اور حیات مابعد الموت پر مشکوک سوالات اٹھاتا ہے۔ بے شمار سوالات انسانی ذہن نے اختراع کئے اور بے شمار دلائل سے اپنے نقطہ نظر کو منوانے کی کوشش کی۔ مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ انسانی علوم کے ہر شعبہ میں اس انسان کو ذہانت و فطانت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے جو جتنا مشکوک اور پیچیدہ سوالات اٹھاتا ہے اور جن سوالات کی لپیٹ میں ایک کثیر تعداد انسانوں کی، خدا، آخرت اور رسالت جیسے پاک تصورات پر اعتراض کرنے لگتی ہے۔ مثلاً Karl Marx کو لیجئے جو انیسویں صدی کا ذہین ترین انسان مانا جاتا ہے اس نے اپنی تھیوری میں” مادہ” کو ہی سب سے اعلیٰ و ارفع چیز اس دنیا میں قرار دیا (Matter is the essence of universe )اور اس کے ساتھ ساتھ انسان کو سب سے اعلیٰ قرار دے کر اس کے پاس reason کی دولت کی وجہ سے خدا کے تصور کو خارج از امکان کہا۔ Karl Marx کے الفاظ اس طرح کے ہیں :”In the country of reason the existence of God can not have any meaning ".کارل مارکس نے متعدد کتابیں لکھیں ہیں جس میں اس نے انسان کو درپیش مسائل کا اپنے چھوٹے سے وجود کے اندر چھوٹے سے ذہن کے ذریعے دینے کی کوشش کی ہے لیکن خدا کے تصور کو مشکوک بنا کر ذہانت کا سکہ ضرور منوایا لیکن دانائی اور بینائی کے فیلڈ میں مکمل طور پر ہار گیا اور اپنا نام خدا کے نافرمانوں میں شمار کرا گیا۔ اسی طرح سے انیسویں صدی میں Charles Darwin نے بھی ایک شوشہ چھوڑ کر بائیولوجی کی دنیا میں ایک ہلچل پیدا کی .ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے بھی تصور خدا کو مشکوک بنایا اگر چہ ڈارون اس دنیا کا ایک خالق مانتا ہے بقول مولانا وحیدالدین خان

"ڈارون اس دنیا کا ایک خالق تسلیم کرتا ہے، مگر اس نے زندگی کی جو تشریح کی ہے، اس کے اندر خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا اور نہ کائنات کے کسی ایسے انجام کی ضرورت معلوم ہوتی ہے،جہاں یہ تعلق ظاہر ہو، مجھے نہیں معلوم ڈارون اپنے حیاتیاتی نقطہ نظر کے اس خلا کو کیسے پُر کرے گا۔ مگر میری عقل کو یہ بات نہایت عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اس دنیا کا ایک خدا تو ہو مگر دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو اور بندوں کے مقابلے میں اس کی جو مالکانہ حیثیت ہے وہ کبھی سامنے نہ آئے۔ ۔ ۔ "اسی نظریہ ارتقاء کے متعلق سر آرتھر کیتھ (Keith)لکھتے ہیں

"نظریہ ارتقاء ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے اور وہ ثابت بھی نہیں کیا جا سکتا، ہم اس پر صرف اس لئے یقین کرتے ہیں کہ اس کا واحد بدل تخلیق کا عقیدہ ہے جو سائنسی طور پر ناقابلِ فہم ہے "

اسطرح کی بے شمار مثالیں ہیں کہ اسی انسان کو ذہین مانا جاتا ہے جو اپنے خالق کی بغاوت پر اترآتا  ہے۔ میرے خیال میں ڈارون کے ذہن میں جو پیچیدہ سوالات پیدا ہوئے ان کا جواب دینے کے لئے اس نے اپنے ذہن کو ہی کافی سمجھا اور غلط راہ پر چل دیا۔ اس کے نظریہ ارتقاء نے یقین اور ایمان کے حوالے سے جو دھاندلی مچائی وہ سب کے سامنے ہے۔

انسان دراصل اپنی حیثیت اور حقیقت کو بھول کر خدا پر سوال اٹھاتا ہے، اس کی کاریگری پر تنقید کرتا ہے اور اس کی طرف سے آئے ہوئے دین مبین کا مذاق اڑاتا ہے اور یہ بھول جاتا کہ وہ اس کائنات کے مقابلے میں اپنے وجود کے اعتبار سے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا تھا لیکن الله نے اس پر فضل کیا اور اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا۔ لیکن اب  اپنا کمال دکھانے کے لئے اسے باکمال وجود بخشنے والی ذاتِ پاک پر ہی انگلی اٹھانے لگا۔ انسان کی ڈکشنری میں وہ الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعے انسان اور خدا کے درمیان تفاوت کو بیان کیا جائے۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں۔

"وہ تمام عالم پر سلطنت کر رہا ہے اور ہم اس کی سلطنت کے ایک نہایت ہی حقیر گوشے میں بیٹھے ہیں۔ اس کی دانش و بینش سارے عالم پر حاوی ہے اور ہماری دانش وبینش کی رسائی خود اپنے جسم کی باطنی حقیقتوں تک بھی نہیں۔ اگر اس تفاوت عظیم کے باوجود اس کے کاموں پر ہم تنقید کریں اور ان کی حکمت و مصلحت کے متعلق رائے قائم کریں تو کیا یہ تنقید اس تنقید سے کروڑ درجہ جاہلانہ نہ ہوگی جو ایک گنوار اپنی جھونپڑی میں بیٹھ کر سلطنت کے معاملات پر کرتا ہے”.

مغرب کی تاریخ میں جن جن لوگوں کو نابغہ (Genius) تسلیم کیا جاتا ان کی اکثریت کی تحاریر خدا مخالف، آخرت مخالف اور رسالت مخالف ہیں۔ انہوں نے انسانی ذہن کو ہی ہر علم کا سر چشمہ مانا ان کے دماغ نے جو کچھ سوچا اسے ایک نظم کے تحت پیش کرکے ایک فکر کی بنیاد رکھی۔ مثال کے طور پر آپ عقلیت پسندی (Rationalism) کو ہی لیں اس کے نتیجے میں ایک تصور ابھرا جس کے مطابق ہر انسان ہر اعتبار سے بالکلیہ آزاد ہے جو چاہے سوچے، جو چاہے کرے اور جس چیز کو چاہے مانے نہ مانے وغیرہ وغیرہ یہ نقطہ نظر آزاد خیالی (Liberalism) کہلاتا ہے۔ اسی آزاد خیالی کے بازار میں جاکر مغرب کا انسان اپنا سب کچھ بیچ چکا ہے۔ اپنے مذہبی عقائد کو الحادیت کی نذر کر گیا، اپنے اخلاق کو سرمایہ داری کے ہاتھوں فروخت کرگیا، اپنی شرم وحیا کو جانوروں کو ہدیۃً دے گیا اور اپنی شرف انسانی کو فرعون کی مردہ لاش کے ساتھ رکھ گیا۔ مجھے یہاں صرف لبرل ازم کی تنقید ہی مقصود نہیں ہے بلکہ مغربی افکار کے جتنے بھی ملحد شعبہ جات ہیں وہ مقصود ہیں لیکن ان سب کا یہاں احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ اس حوالے سے حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ کی کتاب اسلام اور سیاسی نظریات کا مطالعہ مفید رہے گا۔

آج کے دور میں کامیاب سیاستدان اس کو کہا جاتا ہے جو جتنا ظالم ہوگا، کامیاب فنکارہ اس کو کہا جاتا ہے جو جتنی بے حیا ہوتی ہے، کامیاب Artist اس کو کہا جاتا ہے جو جتنا شہوت پر مبنی تصاویر بناتا ہے، کامیاب مصنف اس کو کہا جاتا ہے جو جتنا مذہب مخالف لیٹریچر تیار کرتا ہے اور کامیاب انسان وہ جو جتنی دولت کا ارتکاز کرتا ہے۔ ذہانت اور کامیابی کے یہ معیارات بالکل غیر فطری ہیں، انسان کو چاہیے کہ وہ فطرت پر مبنی دین مبین کے بتائے ہو معیارات پر غور کرے اور اپنے نقطہ نظر میں تبدیلی لائے اس سے پہلے کہ پھر بہت دیر ہو جائے گی۔اسی طرح سے ہمارے دینی و شرعی مسائل میں بھی انھیں لوگوں کو ذہین گردانا جاتا ہے ہیں جو مشکوک آرائیں پیش کرتے ہیں۔ جو لوگ جمہور علماء کی رائے سے اختلاف کرکے اپنی بات منوانے کے لئے نہ جانے کیا کیا شوشے چھوڑتے ہیں۔ ایسے علماء کو چاہئے کہ توازن برقرار رکھ کر اپنا نام معروف کرنے کے لئے اپنے متجسس ذہن پر لگام کسیں اور حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے اپنی بات پیش کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔