دو دو بونس: ایک سچا واقعہ

ازرق سماوی

میں ظہر بعد گہری غنودگی میں تھا کہ دفعتاً موبائل کے چیخنے کی آواز آئی. بہت غصہ آیا لیکن نمبر دیکھ کر تھوڑے وقفے کے لیے ٹھٹکا کیوں کہ یہ میرے ایک دیرینہ دوست کا نمبر تھا.. اس سے بات کیے ہوئے ایک عرصہ ہو چکا تھا. صرف فیس بک پر  ہماری گفتگو علیک سلیک اور رسمی تک ہی محدود تھی. مجھے لگ گیا کہ ضرور کوئی اہم بات ہے. میری ساری غنودگی پل میں اڑن چھو ہو چکی تھی. میں نے جب کال ریسیو کی تو اس کی بھرائی ہوئی آواز میری سماعت سے ٹکرائی جیسے اس نے ابھی ابھی رونا بند کیا ہو. میرا تجسس اور بھی بڑھ گیا کہ آخر بات کیا ہے؟

 ہم دونوں دو سال پہلے ایک ہی کمپنی میں ملازمت کرتے تھے. ہمارا خاصا وقت ساتھ ہی میں گزرتا تھا. وہ ایک شریف طبیعت اور نیک طینت جوان تھا. اس کے اوپر اس کے گھر کی ذمہ داریاں بھی تھیں جسے وہ بحسن وخوبی انجام دے رہا تھا. ملازمت کے دوران میں نے اسے کبھی پریشان حال نہیں دیکھا. بڑی سی بڑی آزمائشوں میں بھی وہ خوش و خرم رہنے کا عادی تھا. اس کا ایک بڑا بھائی بھی تھا جو اکثر ہی بیمار رہتا تھا. اس کے علاج کے لیے بارہا مجھ سے مشورے بھی لیتا رہتا تھا. کبھی کبھی جب شدت جذبات سے مغلوب ہوجاتا تو اپنے دکھ کا اظہار کر دیا کرتا تھا. اس کے لیے دکھ کی بات یہ تھی کہ اس کے بھائی کی ایک گھریلو بیوی اور دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے. اس نے بھائی کے علاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی. ملازمت کرتے ہوئے بھی اس شہر اس شہر ہسپتالوں کے چکر کاٹتا رہتا تھا. مرض چوں کہ ناقابل علاج تھا اس لیے اس کی مخلصانہ کوششیں بھی بار آور نہیں ہو سکیں . میں نے جب ملازمت کو خیرآباد کہا تو اس کے کچھ دنوں بعد ہی افسوس ناک اطلاع ملی کہ اس کے بھائی مرض کی تاب نہ لا کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں . مجھے بھی اس بات کا بہت دکھ  ہوا لیکن میں نے کبھی بھی اس موضوع کو  نہیں چھیڑا. ہم ایک دوسرے سے کافی دور ہو چکے تھے. ہمارے درمیان ہزاروں میل کی مسافتیں حائل ہو چکی تھیں . ہمارا رابطہ تقریباً منقطع ہو چکا تھا. ہماری گفتگو صرف فیس بک تک ہی رہ گئی تھی اور وہ بھی بہت رسمی سی…!

میں نے پوچھ ہی لیا: سب خیریت تو ہے نا.

اس نے بلا توقف بتایا کہ وہ بہت ٹینشن میں ہے. اس کی آواز سے اس کا اضطراب جھلک رہا تھا. پھر اس نے ٹھہر ٹھہر کر سارا قصہ بتانا شروع کیا کہ وہ کن صورت حال سے دوچار ہے. اس بتایا کہ وہ اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ سے شادی کرنا چاہتا ہے. وہ اس سے چار سال کی عمر میں بڑی ہے. اس کے گھر والے اس معمولی درازی عمر کی وجہ سے راضی نہیں ہو رہے ہیں . اس نے بتایا کہ اس نے  یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر لیا ہے. ہمارے معاشرے میں بیواؤں کی شادیاں بمشکل ہی ہو پاتی ہیں اور دو بچوں کی ماں ہو تو شادی ایک جرم تصور کیا جاتا ہے. اس نے کہا کہ اگر وہ اس سے شادی نہیں کرے گا تو اس کے دونوں بھتیجوں کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا. بتاتے ہوئے اس کی آواز میں لرزش صاف طور پر محسوس کی جا سکتی تھی جو اس کے بے لوث جذبات کی غماز تھی. اس کی بات سن کر میں نے خود کو اس کی جگہ رکھ کر دیکھا. میں اس کی قامت کے سامنے بہت بونا دکھا. ایک ہونہار، کم عمر اور کڑیل جوان جب دو بچوں کی ماں سے شادی کرنے کا فیصلہ لیتا ہے تو وہ اپنے کن امنگوں کی بھینٹ چڑھاتا ہے!

میں نے اس کی ڈھارس بندھائی. اس کے فیصلے کو میں نے سراہا. میں نے والدین کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے کچھ ترکیبیں بھی بتائیں . مجھ سے بات کرکے اس کے حوصلہ کو جلا ملی. اس نے بتایا کہ اس کے سارے دوست اس کے اس فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار  کر رہے ہیں . اس میں دوستوں کا کیا قصور؟ اس کے دوست تو اس کے لیے مخلص تھے.. دنیوی انداز سے سوچنا ہی ہمارے معاشرے کا چلن ہے. اس گفتگو کے بعد میں وقتاً فوقتاً اس سے رابطہ کرتا رہا اور اس کی پیٹھ تھپتھپاتا رہا. پھر میں بھی غم روزگار کی مصروفیات میں اتنا الجھ گیا کہ اس سے دھیرے دھیرے رابطہ ٹوٹ سا گیا.

چند مہینے کے بعد ایک بار پھر موبائل فون کی گھنٹی بجی. میرا وہی دوست لیکن کافی مختلف لہجہ… . اس بار اس کی آواز میں چہکار تھی. اس نے خوش خبری دی کہ اس کی شادی اس کے مرحوم بھائی کے بیوہ سے ہوگئی ہے. اس نے بتایا کہ لوگوں کا ذہن تجارتی ہے اور میں بھی اس پہلو سے سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں فائدے ہی فائدے میں ہوں .. کیوں کہ مجھے اللہ تعالٰی نے بغیر کسی محنت کے دو دو بونس دییے ہیں . اس سے گفتگو کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ آج بھی بے لوثی کی زندہ مثالیں موجود ہیں جو میرے اس دوست کی طرح کہیں بھیڑ میں گم ہو جاتی ہیں …!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔