دَلت بمقابلہ دلت یا فاشزم بمقابلہ سیکولرزم؟

عبدالعزیز

عام طور پر  یہ بات کہی جارہی ہے کہ بھاجپا سے دلتوں میں ناراضگی بڑھتی جارہی ہے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے، ان کی ناراضگی کو دور کرنے کیلئے بھاجپا نے رام ناتھ کووند کو صدارتی عہدہ کیلئے نامزد کیا ہے۔ میرے خیال سے یہی واحد وجہ نہیں ہے بلکہ کئی اور وجہیں ہیں۔ ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ سنگھ پریوار کو رام راج یا ہندو راشٹر بنانے کیلئے ایک ایسا شخص جو صدر اسٹامپ پیپر کا کام کرسکے۔ راجیہ سبھا میں ابھی بھی بھاجپا کی تعداد کم ہے۔ اس وجہ سے 2019ء تک موجودہ حکومت کو بہت سے آرڈیننس جاری کرنے کی ضرورت ہوگی جس پر صدر کے دستخط آسانی سے ہوسکے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ کووند کا تعلق اتر پردیش سے ہے۔ اتر پردیش سے لوک سبھا کی سیٹیں تمام ریاستوں سے زیادہ ہیں۔ 2019ء میں دوبارہ کامیابی کیلئے اتر پردیش پر نظر رکھنا حکمراں جماعت کیلئے ضروری ہے۔ جہاں تک دستور ہند میں تبدیلی و ترمیم کرکے ہندو راشٹر بنانے کی بات ہے تو یہ 2019ء تک ممکن نہیں ہے۔ سنگھ پریوار یا آر ایس ایس کی نظر 2024ء کے لوک سبھا کے انتخاب پر ہے ۔

 سنگھ پریوار کا منصوبہ یہ ہے کہ 2024ء میں کانگریس صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نعرہ ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا ہے۔ جب 2024ء تک کانگریس باقی نہیں رہے گی یا برائے نام رہ جائے گی تو پھر دستور ہند کو تبدیل کرنا آسان ہوجائے گا۔ اس سے رام راج یا ہندو راشٹر کا راستہ آر ایس ایس کیلئے اس کے نزدیک ہموار ہوجائے گا۔

1925ء میں آر ایس ایس کی زندگی کے سو سال پورے ہوجائیں گے۔ اس طرح آر ایس ایس کے نظریہ سازوں اور دانشوروں کے نزدیک سو سال کے اندر ہندو راشٹر کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے گا۔ دلتوں میں جو لوگ مجبور ہوجائیں گے مقابلہ کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ وہ بھاجپا کا حصہ بن سکتے ہیں۔ معاملہ صرف مسلمانوں کا ہے۔ ان کو بھاجپا پورے طور پر الگ تھلگ کرنا چاہتی ہے۔ یہ سمجھ کر کہ مسلمان بھاجپا کے ساتھ کبھی نہیں ہوں گے اور نہ ان کے ہندو راشٹر کے خاکہ میں رنگ بھریں گے اور نہ دستور میں تبدیلی کو تسلیم کریں گے، لہٰذا ان کو الگ تھلگ رکھنے میں ہی آر ایس ایس کیلئے عافیت ہے۔ اسی پر وہ عمل پیرا ہے۔

جہاں تک کانگریس کی رہنمائی میں اپوزیشن کا معاملہ ہے تو کانگریس ایک سست رفتار اور کاہل پارٹی ہوکر رہ گئی ہے۔ گوا کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس کے امیدواروں کی اکثریت کامیاب ہوگئی تھی مگر کانگریس کی آرام دہ سیاست دیکھتی رہ گئی اور بی جے پی کی چست اور چالاک قیادت گوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ یہی حال کم و بیش صدارتی انتخاب کیلئے کانگریس کی رہنمائی میں اپوزیشن کا ہوا۔ کئی نام آئے ، سب پر غور و فکر ہوا مگر کسی نام پر اتفاق نہ ہوسکا۔ میرا کماری کا نام بھی زیر غور آیا تھا لیکن جب بھاجپا کا صدارتی امیدوار سامنے آگیا تو مجبوراً میرا کماری کا نام اپوزیشن پیش کرسکی۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اپوزیشن اپنی بنائی ہوئی جیل (Self Prision) میں گرفتار ہے، اسے توڑ نہیں پا رہی ہے۔ وہ پہل کرنے یا پیش قدمی کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ کئی ایسی پارٹیوں نے جو این ڈی اے میں نہیں ہیں۔ وہ بھاجپا کے صدارتی انتخاب کی حمایت کا پہلے ہی سے اعلان کر دیا تھا۔

اپوزیشن کا حال یہ ہوا کہ نتیش کمار جو غیر بی جے پی صدارتی امیدوار کیلئے کوشش کرنے والوں میں آگے آگے تھے وہ این ڈی اے کے صدارتی امیدوار کی حمایت کرنے کیلئے تیار ہوگئے اور اپوزیشن کے امیدوار میرا کماری جو بہار کی ہیں ان کی حمایت سے نہ صرف انکار کر رہے ہیں بلکہ اپوزیشن کے امیدوار کا مذاق اڑا رہے ہیںکہ میرا کماری کو ہرانے کیلئے کھڑا کیا گیا ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جب وہ خود اپوزیشن کے امیدوار کیلئے تگ و دو کر رہے تھے اس وقت اپوزیشن کا امیدوار کیا کامیاب ہوجاتا؟ پہلے بھی کوئی چانس نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔ یہ سب تو 2019ء کے لوک سبھا انتخابات کیلئے کیا جارہا تھا کہ اپوزیشن فرقہ پرست اور فسطائی طاقت کے خلاف متحد ہوجائے تاکہ 2019ء آتے آتے اپوزیشن کا اتحاد اس قدر مضبوط و مستحکم ہوجائے کہ بھاجپا کو مل جل کر شکست دے سکے مگر نتیش کمار جیسی شخصیت فسطائیت یا فرقہ پرستی سے لڑنے کے بجائے اس کے اتحاد کا حصہ بن گئی۔

منافقت کا عالم تو یہ ہے کہ بی جے پی کے قافلہ میں شامل ہونے کے باوجود نتیش کمار اور ان کے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپوزیشن کے اتحاد سے الگ نہیں ہوئے ہیں۔ نتیش کمار کی منافقت سے اپوزیشن کو پہلا دھچکا لگا ہے۔ اپوزیشن کی صدارتی امیدوار مینا کماری کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ صدارتی انتخاب میں دلت کا مقابلہ دلت سے نہیں ہے بلکہ سنگھ پریوار کی فسطائیت اور فرقہ پرستی سے مقابلہ ہے۔ جو لوگ اپوزیشن کے ساتھ نہیں ہیں ان کو آخر کیسے مانا جائے کہ وہ فسطائیت اور فرقہ پرستی کے خلاف ہیں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔