غلاموں کے غلام

محمد رضی الاسلام ندوی

کسی زمانے میں انسانوں کو غلام بنایا جاتا تھا _ ان کے گلوں میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں پہنائی جاتی تھیں _ ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا _ انھیں کسی طرح کی آزادی حاصل رہتی تھی نہ ان کی اپنی کوئی رائے ہوتی تھی _ وہ اپنے آقاؤں کے اشاروں پر عمل کے پابند ہوتے تھے _ شکر ہے کہ وہ زمانہ اب لَد گیا ہے اور ویسے غلام اب معدوم ہو گئے ہیں _

اب ایسے غلام پائے جاتے ہیں جنھیں ان کی ماؤں نے آزاد پیدا کیا تھا ، لیکن وہ غلامی کو اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتے ہیں _ آزاد رہنا ان کے لیے ممکن ہے ، لیکن وہ آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتے ہیں _ انھیں اللہ تعالی نے ‘طلاءِ سیال’ سے نوازا تھا ، جسے وہ آزادی کی حفاظت، بقا اور استمرار کے لیے ہتھیار بنا سکتے تھے ، لیکن وہ اس کے ذریعے سنہری زنجیریں ، بیڑیاں اور طوق تیار کرتے ہیں ، ان کے ذریعے خود ہی اپنے ہاتھوں ، پیروں اور گردنوں کو جکڑ لیتے ہیں اور ان کے سِرے اپنے آقاؤں کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں کہ وہ جس طرح چاہیں انھیں نچاییں اور وہ ان کے اشاروں پر تِھرکیں _ اللہ تعالی نے انھیں ایسی صلاحیتیں اور ایسے وسائل عطا کیے تھے کہ وہ بہ آسانی ان ظالم و جابر آقاؤں سے گلو خلاصی حاصل کرسکتے تھے ، لیکن وہ ان کے سامنے بِچھے جاتے ہیں اور ان کے انتہائی احسان مند ہیں کہ انھیں غلامی کا شرف بخشا گیا _ یہ آقا ان کی گردنوں میں پٹّے ڈالے رہتے ہیں اور انھیں کُتّوں کی طرح استعمال کرتے ہیں _ کسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو یہ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑتے اور اس پر بھونکنے لگتے ہیں _ یہ بے چارے غلام بڑے قابلِ رحم ہیں کہ انھوں نے خود کو شرفِ انسانیت سے گِرا رکھا ہے اور اپنی مرضی سے غلامی کا طوق اپنی گردنوں میں ڈال رکھا ہے _

غلاموں کی ایک تیسری قسم بھی پائی جاتی ہے _ یہ وہ لوگ ہیں جو آقاؤں کا غلام بننے کے بجائے غلاموں کا غلام بننا زیادہ پسند کرتے ہیں _ آقاؤں کے غلام ان کے سامنے سوکھی روٹی کے چند ٹکڑے ، چند سکّے ، چند ریال پھینک دیتے ہیں تو یہ خوشی سے ناچنے لگتے ہیں ، ریالوں کے نشے میں وہ اتنے بدمست ہوجاتے ہیں کہ ان کی زبانوں پر غلامی کے قصیدے جاری ہوجاتے ہیں اور وہ آزادی کی حرمت اور غلامی کی فضیلت پر قرآن و سنت سے دلیلیں فراہم لگتے ہیں _

غلاموں کے یہ غلام قرآن و سنت کو اپنا رہ نما بنانے کے دعوے دار ہیں ، جب کہ :

* قرآن و سنت نے کافروں کی دوستی سے منع کیا تھا، یہ ان کی دوستی کا دَم بھرتے ہیں _

* قرآن و سنت نے یہود و نصارٰی کو اہلِ ایمان کا دشمن قرار دیا تھا، یہ ان سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں _

* قرآن و سنت نے اہلِ ایمان کو ایک دوسرے کا دوست قرار دیا تھا ، یہ اہلِ ایمان سے دشمنی رکھتے ہیں _

* قرآن و سنت نے ایمان کے رشتے کو مضبوط ترین رشتہ قرار دیا تھا اور اسے جوڑے رکھنے کا حکم دیا تھا، یہ اس رشتے کو کاٹتے ہیں _

* قرآن و سنت نے قول و فعل کے تضاد سے روکا تھا ، یہ دوسروں کو جن سے دوستی رکھنے سے منع کرتے ہیں ان سے خود دوستی رکھتے ہیں _

* قرآن و سنت نے لوگوں کو دائرہ اسلام میں لانے کا حکم دیا تھا، یہ دائرہ اسلام میں موجود لوگوں کو اس سے خارج کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور گم راہی سے سرٹیفکٹ تقسیم کرتے ہیں _

مستقبل بہ ہر حال نہ غلاموں اور ان کے آقاؤں کا ہے اور نہ غلاموں کے غلاموں کا _ مستقبل ان جیالوں ، سرفروشوں اور حرّیت پسندوں کا ہے جو اللہ کے علاوہ کسی کی غلامی پر راضی نہیں ہیں _ انہیں زیادہ دنوں تک قید خانوں میں اسیر اور زنجیروں میں جکڑ کر نہیں رکھا جا سکتا _ جس طرح تاریک رات کے بعد صبح کی آمد یقینی ہے اسی طرح یہ بھی یقینی ہے کہ آزمائشوں کے بادل چھٹیں گے اور اہلِ حق کو سرخ رویی نصیب ہوگی _

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. زرار فاروق کہتے ہیں

    مضمون میں زندگی کی حرارت محسوس ہوتی ہے۔ اس دور میں ایسے قلمکاروں کی کمی ہے جو شہ رگ پر انگلی رکھتے ہیں۔ ورنہ بہت سارے دریا کے بہاو نظر آتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔