’دھوپ کا مسافر‘ کے رسم اجراء و تقریب میں دانشوروں کا اظہار خیال

جمیل اختر شفیق ؔامکانات کے شاعر ہیں، ان کی شاعری کلاسیکی قدروں کی پاسدار ہے۔ انہو ں نے عصری حسیت کو فنی جمالیات کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مشتاق احمد نوری سابق سکریٹری بہار اردو اکادمی نے کیا۔ نور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی، دربھنگہ کے زیر اہتمام بہار کے جواں سال مقبول شاعر وادیب جمیل اختر شفیق کی تازہ تخلیق ’’دھوپ کا مسافر ‘‘ کااجراء اور شعری نششت بہار اردو اکادمی میں منعقد ہوا۔

جمیل اختر شفیق امکانات کے شاعر ہیں: مشتاق احمد

پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے مشتاق احمد نوری نے جمیل اختر شفیق کی شاعری اور فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بہار کی نئی نسل کے شعراء میں شفیق ؔنمائندہ شاعر ہیں، ان کی شاعری میں تازہ کاری اور جدت پائی جاتی ہے۔ اس موقع پر امتیاز احمد کریمی نے جمیل اختر شفیق ؔ کی کتاب پرمبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ جمیل اختر شفیق نے اپنے تجربات واحساسات کو خوبصورتی کے ساتھ شعری پیکر میں ڈھالا ہے۔ انہو ں نے زندگی کے نشیب و فراز کو جھیلتے ہوئے جس طرح بلند مقام حاصل کیا اور شاعری کی دنیا میں نام پیدا کیا ہے وہ دوسروں کیلئے نمونہ ہے۔

مشہور عالم دین اور خطیب پروفیسر شکیل قاسمی نے کہا کہ دھوپ کا مسافر کا سرد موسم میں اجراء فال نیک ہے، جمیل اختر شفیق تہذیبی اور اخلاقی قدروں کے امین ہیں۔ ان کی شاعری اعلی اخلاقی اور تہذیبی قدروں کی محافظ ہے۔ اس موقع پر سینئر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے تاثرات کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جمیل اختر شفیق جس انداز سے پرورش لوح وقلم کر رہے ہیں وہ اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا۔ انہو ں نے کہا کہ جمیل اختر کاسیاسی و سماجی شعور بالیدہ ہے اور سماجی مسائل پر ان کی نگاہ گہری ہے، جس کی وجہ سے ان کی شاعری کا کینوس بڑا ہوگیا ہے۔

رسم اجراء تقریب کی نظامت جواں سال صحافی و ادیب نورالسلام ندوی نے کی۔ انہوں نے اجراء سے قبل جمیل اختر شفیق کی شخصیت، فن اور شاعری پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی اور کہا کہ شفیق ؔنے کلاسیکی شاعری سے بھی استفادہ کیا ہے اور نئے تراکیب اور نئے لفظیات سے غز ل میں تازگی اور شگفتگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ آصف تنویر تیمی نے جمیل اختر کی زندگی کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ طالب علمی کے دور ہی ذہین اور محنتی رہے ہیں، شاعری ان کی فطرت میں بسی ہوئی ہے۔ ان کی شاعری ہمیں دعوت فکر و عمل دیتی ہے۔

نوجوان شاعر کامران غنی صبا ؔنے جمیل کی شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری قدیم و جدید کے درمیان کی کڑی ہے۔ ان کا لہجہ دوسروں سے منفرد اسی لئے ہے کہ انہو ں نے قدیم صالح اور جدید نافع دونوں خوبیوں کو سمولیا ہے۔ اہل قلم عالم دین انظار احمد صادق نے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے جمیل اخترشفیقؔ کو نئی عمر کے طویل راہوں کا مسافر قرار دیا۔ اس موقع پر عاصم سلفی اور یحیی فہیم نے بھی کتاب سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کیااورشاعر کو مبارک باد پیش کی۔

’’دھوپ کا مسافر‘‘ کے خالق جمیل اختر شفیقؔ نے اپنی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی شاعری کے سلسلے میں بہت بڑا دعوی تو نہیں کرسکتا لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میں نے زندگی کو جس شکل میں قریب سے محسوس کیا ہے اسے بے کم و کاست شعری قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ میری شاعری پڑھ کر اگرقارئین کے قلوب میں زندگی کو زندگی کی طرح برتنے کا جذبہ پیدا ہوجائے تو مجھے لفظوں کی یہ کائنات بہت حسین معلوم ہوگی۔ رسم اجراء کے بعد ایک مختصر شعری نششت بھی منعقد ہوئی، جس کی نظامت جمیل اختر شفیق ؔنے کی اور اشرف مولا نگری، شہاب ساغر، معین گڑیڈ یہوی، تحسین روزی، حذیفہ شکیل، کلیم ثاقب، نصر عالم نصر، تبسم ناز، عنایت اللہ جوہر، پریم ناتھ بسمل، کوثر حسام اور نصر عالم بلخی نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ اس موقع پر اہل علم و ادب کی بڑی تعداد موجود تھی۔

تبصرے بند ہیں۔