دہشت گردی:یہ گرفتاریاں بھی کہیں ماضی کا اعادہ نہ ہوں  

  ڈاکٹر عابد الرحمن 

گجرات اے ٹی ایس نے دو سگے بھائیوں کو پکڑا ہے ،الزام ہے کہ یہ دونوں اسلامک اسٹیٹ سے متاثر ہوکر سریندر نگر کے ایک مندر پر دہشت گردانہ حملہ کر نے کی پلاننگ کر رہے تھے ،کہا گیا ہے کہ دونوں بھائیوں کی رہنمائی کسی نامعلوم آئی ایس آ ئی ایس ہینڈ لر کی طرف سے کی جارہی تھی ،وہ مبینہ طور پر ایسے بڑے مقامات پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جو بڑی خبر بن سکیں ۔پولس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان میں سے ایک وسیم کا نام اتر پردیش سے این آئی اے کے ذریعہ مفتی عبدلسمیع قاسمی کی گرفتاری کے بعد سامنے آیا تھا ۔ قاسمی کے فون کالس کی تفصیل سے پتہ چلا تھا کہ وہ ایک موبائل نمبر کے ٹچ میں تھے جو وسیم عارف بھائی رمودیا کے نام رجسٹر ڈ تھا۔وسیم کے فون کی نگرانی سے معلوم ہوا تھا کہ وہ انتہائی بنیاد پرست جہادی نظریہ ( Ultra Radical Jihadi Ideology) سے متاثر ہے جیسا کہ آئی ایس آئی ایس تبلیغ کرتی ہے۔ ان کے کمپیوٹر اور موبائل فون سے بم سازی کی معلوما ت فراہم کر نے والا مواد بھی ملااسی طرح گوریلا لڑائی کی تکنیک اور ہتھیاروں کی ٹریننگ کا مینیول بھی ملا۔

اسی طرح دونوں بھائیوں کی فونک گفتگو سے صاف طور سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ خلافت سے بہت زیادہ متاثر تھے اور غیر مسلموں کے خلاف نام نہاد جنگ (کروسیڈ Crusade)کا حصہ بننے کے خواہاں تھے  ( انڈین ایکسپرید آن لائن 27،فروری 2017 ) ۔ اس طرح کے معاملات اور گرفتاریاں اب مسلمانوں اور ملک کے لئے بھی نئی نہیں ر ہیں ۔ پچھلے دس پندرہ سالوں سے مسلم ناموں والی تنظیموں کے نام مسلم نوجوانوں گرفتار ہوتے آئے ہیں ہر بار یہ کہا جاتا جارہا کہ یہ بھٹکے ہوئے نوجوان ہیں لیکن اس معاملہ میں نئی بات یہ کہی جارہی ہے کہ ’ دونوں ملزمین کی والدہ اور وسیم کی بیوی دونوں کو ان کی دہشت گردانہ منصوبہ  بند ی کا علم تھا ‘ ۔ تو کیا اب اس دہشت گردی کا قبیح دائرہ ’بھٹکے ہوئے نوجوانوں ‘ سے آگے بڑھ کر ماؤں اور بیویوں تک بھی پہنچ گیا ہے؟ یا اب اس جال کو وسیع کر کے نواجوان مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی اس میں پھنسانے کی دیدہ و دانستہ کوشش کی جارہی ہے؟اور یہی بات اس معاملہ کاانتہائی تشویشناک پہلو ہے ۔حقیقت کیا ہے یہ تو عدالت میں ہی معلوم ہو سکے گا لیکن حقیقت جاننے کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ کوشش کر نا اور اس کو ملک کے سامنے پیش کرناحکومت ،ملک کے تمام ذمہ دارشہریوں اور خاص طور سے ہم مظلوم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔

اگر یہ دونوں ملزمین واقعی داعش کے حامی ہیں اوردہشت گردانہ وارداتوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے تو ان کی گرفتاری ہمارے لئے باعث خوشی ہے اور اس کے لئے گجرات اے ٹی ایس قابل مبارکباد ہے کیونکہ ہم اور بھارت کے سبھی مسلمان دہشت گردی کے تئیں ملک کی عوام و خواص پولس اور سیکیورٹی ایجنسیوں سربراہان مملکت ،آر ایس ایس اور شیو سینا و بی جے پی ہی کی طرح حساس ہیں اور اسے ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ بھی سمجھتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ہر کارروائی کی حمایت کرتے ہیں لیکن دہشت گردی کے نام پرہم نا انصافی کی حمایت نہیں کر سکتے ،ہمارا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جو بھی کارروائی ہو وہ مبنی بر انصاف اور حق بہ جانب ہو ،غیر ضروری اور غیر قانونی نہ ہو۔ انہی لوگوں کے خلاف ہو جن کے خلاف دہشت گردی یا دہشت گردی کی سازش رچنے کے پختہ ثبوت موجود ہوں۔

ہمارا کہنا ہے کہ داعش کے متعلق مذکورہ گرفتاریوں کے ضمن میں ہمیں یہ نہیں بھولناچاہئے کہ پچھلے دس سالوں میں ہماری تفتیشی ایجنسیوں ،دہشت گردی مخالف دستوں اور پولس نے بالکل اسی طرح کی سنسنی خیز گرفتاریاں کی تھیں اور ان کے متعلق خطرناک دہشت گرد ہونے کی کہانیاں بھی سنائی تھیں لیکن جب یہ سارے معاملات عدلیہ میں پہنچے تو منھ کے بل گر گئے ان میں سے زیادہ تر معاملات میں پولس کی ساری کہانیاں جھوٹ اور من گھڑت ثابت ہوئیں اور خطرناک دہشت گرد اور تباہ کن دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر نے والے با عزت بری ہوگئے لیکن ان کی معصومیت کے ثبوت اور رہائی کے لئے بہت لمبا عرصہ لگا اور اس دوران ان کا کریئر ہی کیا پوری زندگی خراب ہوگئی۔ نفسیاتی اور جسمانی ٹارچر کے ناقابل فراموش داغ اور دہلادینے والی اذیتیں ان کی روح تک میں پیوست ہو گئیں ۔ تو اس سب کے بعد اب اس نئے معاملہ میں حکومت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ پولس اور تفتیشی ایجنسیوں کو اس بات کی پابند بنائے کہ داعش ہی کیا دہشت گردی کے دیگر معاملات کے سلسلے کی گرفتاریوں میں کم از کم ایسا نہ ہواور اس کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ پولس اور تفتیشی ایجنسیوں کے محاسبہ کاسخت اورفعال نظام بنا یا جائے تاکہ محاسبہ کی لٹکتی تلوار قانون کے محافظوں کو قانون کا پابند بنائے رکھے۔

دوسرے اس طرح کے معاملات میں مقدمات تیز رفتاری سے چلائے جائیں تاکہ ملزمین اگر واقعی مجرم ہیں تو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچیں اور اگر بے قصور ہیں جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے تو کم سے کم وقت میں انہیں انصاف ملے اور وہ رہا ہوں ،ان کی زندگی کے قیمتی سال جیل خانہ کی نذر نہ ہوں ۔جیسا کہ ابھی حال ہی میں دہشت گردی کا جو مقدمہ فیصل ہوا، اس میں پولس کی غیر ذمہ دارانہ گرفتاریوں اورواضح طور پر انہیں زبردستی مقدمہ میں پھنسائے رکھنے کا معاملہ سامنے آیا ہے جس میں گرفتاری کے تقریباً بارہ سال بعد کورٹ نے ملزمین کو تمام الزامات سے بری تو کردیا لیکن ان کی بازآبادکاری اور ان کے ساتھ ہوئی ظلم و زیادتی کا بھی کوئی بدل فراہم نہیں کیا۔ ان معاملات میں یہ بھی اشد ضروری ہے کہ غیر ضروری طور پر پھنسا ئے گئے ملزمین کی بازآبادکاری کا بھی پختہ نظام ضرور بالضرور بنایا جائے تاکہ بے قصوروں کی ذہنی ، جسمانی، نفسیا تی اور معاشی تکالیف کی پوری پوری بھر پائی ہو سکے۔وطن عزیز میں دہشت گردی کا مطلب مسلمانوں کی تخریبی کارروائیاں ، اور دہشت گردی مخالف کارروائیوں کا مطلب مسلم نو جو ا نو ں کے خلاف کارروائیاں ہو گیا ہے ۔

دہشت گردی کے خلاف اب تک کی گئی پولس کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد صرف تعلیم یا فتہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار و ہراساں کر کے ان کا کرئر تباہ کرنا اور دہشت گردقرار دے کر اور ملک میں کئی مسلم ناموں والی دہشت گرد تنظیموں کی فعال موجودگی کا اعلان کر کے پوری مسلم قوم پر دہشت گردی کا دھبہ لگا نا ہی تھا کیونکہ جس آسانی سے عدالتوں نے پولس کی کہانیوں اور ثبوتوں کو مسترد کیا ہے اس سے ایسا نہیں لگتا کہ خود پولس کو اور سرکاری قانونی ماہرین کو ان ثبوت و شواہد کے کمزور ہونے کا ادراک نہ ہو یعنی یہ پوری کارروائی یا تو پولس کی ذاتی من مانی تھی یا پھر پوری مسلم قوم کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی ہمیں لگتا ہے کہ اس سازش میں خود سرکاریں بھی ملوث رہی ہیں اور اگر سرکاریں اس میں ملوث نہیں ہیں اور اگر یہ پولس کی ذاتی کارروائیاں ہی تھیں تو بھی اس کی ذمہ داری سر کار پر ہی عائد ہوتی ہے ، کہ سرکار نے اس ضمن میں خاطی پولس والوں پر کوئی کارروائی نہیں کی یا کم از کم انکے محاسبہ کا کوئی فعال نظام نہیں بنایا ۔ بلکہ خاطی پولس والوں پر کارروائی کر نے کی بجائے انہیں قانونی اور سیاسی پناہ فراہم کرتی رہیں ۔

اگر سرکار سمجھتی ہے کہ یہ محض الزام ہے تو کم از کم اب اس نے پوری ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ان کارروائیوں کو بھی پرانی روش پر جانے سے روکنے کا مکمل انتظام کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں میڈیا کی ذمہ داری بھی کچھ کم نہیں ہے ہمارے یہاں خاص طور سے دہشت گردی کے معاملات میں یہ ہوتا ہے کہ گرفتاریوں اور پولس کی تھیوریوں اور ملزمین کے اقبالیہ بیانات اور پولس تحقیق کی رپورٹس کو تو میڈیا اچھی طرح بلکہ اپنی طرف سے نمک مرچ لگا کر ہائی لائٹ کرتا ہے لیکن جب عدلیہ ان خطرناک دہشت گردوں کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کردیتی ہیں تواس کی رپورٹ، عدالتی فیصلہ اور عدلیہ کے ذریعہ پولس کی سرزنش کو میڈیا سوائے چند کے وہ جگہ نہیں دیتا جو گرفتاری کی سنسنی خیز خبروں کو دی جاتی ہے ۔ ایسا نہیں کہ اس کی رپورٹس شائع نہیں کی جاتیں ،کی جاتی ہیں لیکن اتنی موثر نہیں جتنی ہونی چاہئے ۔

 اب جبکہ اس طرح کے معاملات میں عدلیہ کے فیصلوں نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیا ہے تو میڈیا کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے ۔ اور جب حکومت میڈیا کی طرف خاص دھیان دے رہی ہے تو پہلی ذمہ داری اسی کی ہے کہ وہ اس معاملہ میں بھی میڈیا کی رپورٹنگ کا نوٹس لے۔اس ضمن میں ہم مظلومین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے معاملات میں ہم انتھک قانونی کارروائی کریں ، اور جو لوگ قانونی کارروائیوں میں عملی حصہ لیتے ہیں ان کی دامے درمے سخنے مدد کریں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔