وہ ایک کام جو اب تک نہیں  ہوا!

انور جمال قاسمی

 ہندستان ہمیشہ سے ہندو اکثریت اور مسلمان اقلیت کا مسکن رہا ہے۔ پھر بھی دونوں  قومیں  شیر وشکر رہیں ، اپنے اپنے مذہب وتہذیب کی رسوم وروایات اور اقدار وتہوار کی سخت پابند تھیں ، دونوں  کے اندر نہ مذہبی منافرت پیدا ہوتی تھی اور نہ تہذیبی بھیدبھائو آتا تھا۔ ہر ایک دوسرے کے مذہب وتہذیب کی قدر داں  واحترام کنندہ ، ایک دوسرے کے دکھ درد میں  شریک اور مصیبت وپریشانی میں  دست گیر وغم خوار تھیں ۔

 انگریزوں  کی قومی روایات ہے کہ وہ اپنے علاوہ دیگر قوموں  کو چین وسکون سے رہنے دینا، اپنے قومی مفاد کے خلاف تصور کرتے ہیں ،چنانچہ انہوں  نے اسی ذہنیت کے سبب دنیا کے کئی اپنے مقبوضات سے مختلف نوع کے فتنے وفساد کی بیج بوکر بہ مشکل مجبوری دست کش ہوئے۔اسی طرح اس نے سخت مجبوری میں  ہندستانیوں  کو آزادی تو دی، لیکن انہیں  آزادی کے تحفے مذہبی وثقافتی نفرت وعداوت کی ایسی صورت میں  دی ہے جس کے دائرے آزادی کی چھ دہائی گزر جانے کے بعد بھی سمٹنے کے بجائے پھیلتے جارہے ہیں ۔

 غور سے دیکھا جائے تو ہندو اور مسلمان کے درمیان عداوت ونفرت کی بیج بونے کا اصل سبب مئی 1875ء کا متحدہ ناکام غدر ہے، اس نے انگریزوں  کے ذہنوں  میں  ہندی عوام کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے منصوبے کو جنم دیا۔ اس کے بعد ہی سے انہوں  نے دونوں  قوموں  کو لڑانے اور حکومت کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ پھر بھی اس کی یہ پالیسی اتنی کامیاب ودیرپا نہ ہوتی جتنی کہ بیسویں  صدی کے پہلے عشرے سے ہندستان کے سیاسی وسماجی افق پر گرم مزاج ومحدود معنی میں  قوم پرست ذہن ورجحان کے ہندو نوجوان قائد اگر نمودار نہ ہوتے، جنہوں  نے بہت جلد اپنے قوم پرستانہ سیاسی وسماجی سرگرمی سے اکثریتی فرقوں  کے قلب وذہن پر اپنی گرفت تو مضبوط ہی کی، اس کے علاوہ وہ ملک میں  قوم پرستانہ فضا پیدا کرنے میں  بھی کامیاب ہوگئے۔ یہیں  سے ہندو مسلم سیکولر اور قوم پرستوں  کے مابین ایسی سیاسی وفکری دراڑیں  پیدا ہوئیں  جو بالآخر مذہبی وثقافتی نفرت وعناد کا سبب بن گئیں  اور پھر آگے چل کر وہ ایسے لامتناہی فرقہ وارانہ فساد ودنگے کی صورت اختیار کرلی جس کے بند ہونے کے آثار تا ہنوز نظر نہیں  آتے۔

ملک کی آزادی کانگریس کے پلیٹ فارم سے حاصل ہوئی تھی اور ان ہی کانگریسیوں  کے ہاتھوں  میں  نئی حکومت کی باگ ڈور بھی آئی، تو جس طرح انہوں  نے ملک کے استحکام کی غرض سے بہت سے حکومتی ادارے پر خصوصی توجہ دی ، اس طرح انہیں  اندرون ملک امن وامان، سلامتی وبھائی چارگی بحال کرنے اور قبل آزادی سے ذہنی وفکری طور پر بٹی ہندستانی عوام کے درمیان بقائے باہمی کی فضا بنانے پر خاص دھیان دینا، نیز خاص وعام کے ذہن وسوچ کو سیکولر بنانے اور منفی سوچ کے حاملین فرقہ پرستوں  میں  مثبت فکر، رواداری و اعتدال پسندی کی فضا پیدا کرنے کے راستے وذرائع اپنانا نئی حکومت کی اہم ذمہ اری تھی، لیکن ان سمتوں  میں  سرکاری سطح سے کوئی نظم باضابطہ نہیں  ہوا۔ علاوہ ازیں  نہ فرقہ وارانہ ماحول بنانے اور اس کے لئے کسی بھی طرح کے غیر اخلاقی جارح ذرائع استعمال کرنے والوں  کی بلاکسی رعایت کے سرزنش کی گئی۔ اگر ایسا ہو تا تو بہت ممکن تھا کہ آزادی کے بعد فرقہ وارانہ فسادات بند ہوتے اور ہندستانی عوام میں  تشدد آمیز فرقہ وارانہ ماحول کا پھیلائو آہستہ آہستہ مسدود ہوجاتا، لیکن صد افسوس پنڈت جواہر لعل نہرو اور ڈاکٹر راجندرپرساد اور دیگر سینکڑوں  سیکولر قائدوں  کا ذہن اس اہم امر کی طرف کیوں  نہیں  گیا اور اس سمت میں  سرکاری طور پر منظم کارروائی کو ضروری کیوں نہیں  سمجھا گیا۔ جدید ہند کی تاریخ کا اہم سوال ہے۔

 آزادی کے بعد کم وبیش اکاون سالوں  تک مرکز وریاستوں  میں  خود کو سیکولر کہنے والی پارٹیوں  کی حکومتیں  رہیں  اور ان کے سامنے فرقہ پرست پارٹیاں  حصول اقتدار کی غرض سے فرقہ وارانہ ماحول بنانے اور اس کو فرقہ وارانہ فسادات اور اقلیتوں  کی جان ومال اور عزت وآبرو کو نیلام کرکے طاقت پہنچاتے رہے اور یہ سیکولر حکومتیں  تماشائی بنی رہیں ۔جس نے فرقہ پرستوں  کے حوصلے ہی بلندنہیں  کئے بلکہ ملک میں  سیکولر کی اصل صورت مسخ کرنے اور اس کے دائرے کو مسدود کرنے کی تدبیر میں  معاون ثابت ہوئے ہیں ۔ آج سے پندرہ سال پہلے بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالوپرساد نے کہا تھا کہ ’’سنگھ پریوار کو ملک میں  سیکولرزم کی دھجیاں  اڑانے اور قوم پرستانہ حکومت تشکیل دینے میں  ہم سیکولر پارٹیوں  کی غیر سیکولر پالیسی نے مدد کی ہے۔‘‘یہی بات ہارڈ نیوز میگزین کے چیف ایڈیٹر سنجے کپور نے اس طرح کہی ہے ۔اب یہی دیکھئے کہ جب ہیمنت کرکرے جی کا قتل ہوا اور ہندتوا ٹیرر (دہشت گردی)کی بات ہوئی تو کیوں  نہیں  سیکولر طاقتیں  سڑک پر اتریں ؟ اور کیوں  نہیں  مطالبہ کیا کہ اس کی تفتیش اس نہج پر کرائی جائے جس کا شبہ ہے ؟ اس سوال کا جواب کون دے گا ؟ دراصل ہم آر ایس ایس کے نظریات سے یہیں  مات کھاجاتے ہیں ، جب ہم یہ سوچتے ہیں  کہ ہماری لڑائی کوئی اور لڑے۔

 دوسری طرف اسلامی ہند کا طویل ترین دور بھی برادران وطن میں  باضابطہ اسلامی تعلیم اور اس کے محاسن کی تبلیغ وتعارف کے نظم سے خالی نظر آتا ہے ۔اس کی اہمیت وافادیت کا احساس اس زمانے کے سربراہان و امراء کو نہیں  ہوئے تو حیرت نہیں ، لیکن اس کے علما و فضلا اس سے کیسے غافل رہے ؟ یہ اسلامی ہند کی تعلیمی وفکری تاریخ کا ایسا المیہ ہے جس کے برے اثرات کو نہ معلوم مسلمان نسلیں  کب تک جھیلتی رہیں  گی۔

1857ء کے ناکام غدر کے بعد ملک پر انگریزوں  کا مکمل کنٹرول قائم ہوگیا۔ تو اس نے ملک میں  مسلمانوں  کی ملی بقا اور ان کی تعلیم وثقافت کی حفاظت وترقی کی فکر مسلم اکابرین وقائدین کی آنکھیں  وا کردی۔ انہوں  نے دینی و عصری تعلیم وتربیت کے ادارے کے قیام میں  غیر معمولی لگن و محنت کا مظاہرہ کیا، جس کے اثرات آج بھی برصغیر ہی نہیں  اس کے قرب وجوار کے ملکوں  میں  بلا انقطاع جاری ہیں ۔

لیکن ان روشن ضمیر اکابرین وقائدین کی دور رس نگاہیں  ان نئے حالات کو کیوں  نہیں  بھانپ سکیں ، جو انگریز حکومت کی انگریزی تعلیم وتہذیب اور اس کے فکر وفن سے برادران وطن کے متاثر ہوئے پیدا ہونے والے تھے اور جس کی وجہ سے وہ فکری وذہنی طور پر مسلمانوں  سے دور ہوکر ان کے خلاف بھی کھڑے ہوسکتے تھے، اس وقت دانشمندی یہ تھی کہ انگریزوں  اور خاص برادران وطن کے درمیان اسلامی تعلیم واخلاق اور غیروں  کے ساتھ مسلمانوں  کے معاملات وتعلقات اور احترام انسانیت کے حوالے سے اسلام کے سنہرے ارشاد واحکام کی اشاعت وتبلیغ باضابطہ تنظیمیں  مشکل میں کی جاتی، تو اس سے حکام اور برادران وطن میں  مسلمانوں  کے تئیں  نرم گوشے وذہنی قرب پیدا ہوسکتا تھا، لیکن اس طرح کی منظم کوششیں  مسلمانوں  کی طرف سے نہیں  ہوئیں ، نتیجتاً انگریزوں  کی اکثریت میں  مسلمان اپنی وہ اہمیت اور وقار نہ بناسکے جو ایسے حالات ومقام میں  ملی بقا وتہذیب کی حفاظت کے لئے ناگزیر ہوتے ہیں ۔

آزادی کے بعد بھی مسلمان نہیں  سنبھلے اور بیسویں  صدی کے آغاز سے ان کے خلاف تنظیمی وغیر تنظیمی شکلوں  میں  اٹھنے والے فتنے کے نتائج بھی نہ پڑھ سکے، شاید اب بھی وہ اس کو ایک معروضی واقعہ سمجھ کر سنجیدگی سے نہیں  لیتے، نیز 1925ء میں  قائم ہونے والی آر ا یس ایس کوئی معمولی تنظیم نہیں  تھی، وہ ایک فکری وتہذیبی سرد جنگ تھی،جس کے قیام کا اہم ترین مقصد ہندستان کی تمام تہذیب و ثقافت کو ملا کر ایک رنگی فکر وتہذیب کا قیام تھا اور اس کے اثرات مختلف سطح زندگی پر قبلِ آزادی سے پڑنے لگے تھے،اس لئے ہندستانی عوام میں  اس کا توڑ اور اس کو بے ا ثر بنانے کا کام اس جیسی تحریک کے قیام سے ممکن تھا، جو مسلمانوں  کی طرف سے اب تک نہیں  ہوا،مسلم لیگ 1905ء جمعیۃ علما 1920ء ، جماعت اسلامی 1940ء، تبلیغی جماعت 1926ء اور مسلم پرسنل لا بورڈ 1973ء ، مسلمانوں  کی ان تنظیموں  کا کام صرف مسلمانوں  کی اصلاح وفلاحی امور تک محدود تھا۔ آر ایس ایس کے خاص موضوعات و ایشوز کا جواب اور اس کی اصلیت کااظہار ان کے انداز بیان اور انہی کی زبان میں  کسی تنظیم نے نہیں  کیا ہے اور نہ اس جیسی تنظیم کا قیام تا حال مسلمان نے کیا ہے۔ اب تک انہوں  نے اس کا دفاع اور روک تھام حزب اقتدار واپوزیشن سے گلہ شکوہ اور جلوس ودھرنا کے حربے سے کئے ہیں ، جو اس کے سامنے ہمیشہ صدا بہ صحرا ثابت ہوئے ہیں ۔

 وطن عزیز میں  مسلمان مخالف حالات سے مقابلہ مسلمان طاقت وقوت سے ہرگز نہیں  کرسکتے ہیں ، البتہ وہ فرقہ پرست پریوار کے ان تمام ایشوز کی دلیل وتجربہ سے بکھیاگری کرسکتے ہیں  جن کو وہ اقلیت کے خلاف استعمال کرتے رہتے ہیں  اور جن سے ملک کا سیکولرزم وجمہوریت پرمبنی دستور خطرے میں  آتا جاتا رہا ہے، اس کی وجہ سے ملک کہاں  جارہاہے۔ان ایشوز سے فرقہ پرست کیا چاہتے ہیں  اور ان کے اصل مقاصد کیا ہیں  ، وہ کیسی حکومت لانا چاہتے ہیں  ، ان کی حکومت میں  اقلیتوں  وہریجنوں  کی کیا حیثیت ہوگی، علاوہ ازیں  اسلام کی صحیح تصویر اس کی اخلاقی تعلیم، غیروں  کے ساتھ مسلمانوں  کے تعلقات ومعاملات اور اکرام انسانیت کے حوالے سے اس کے ارشاد کیا ہیں  اور دیگر مذاہب وتہذیب کے تعلق سے قرآنی بیان کیا ہے۔دہشت گردی سے اسلام کی بیزاری ولاتعلقی وغیرہ کو عام ہندستانیوں  کے سامنے لانا وقت کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ انہیں  کے ذریعہ ہم ہندستانی عوام کے ذہنوں  کو اپنی طرف پھیر سکتے ہیں ۔

لیکن مذکورہ امور میں  کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب ان کاموں  کو منظم طریقے سے تحریکی شکل میں  تسلسل کے ساتھ کیا جائے اور پرنٹ والیکٹرانک میڈیائوں  کے سہارے پورے ہندستان میں  عام کیا جائے۔ جگہ جگہ خاص اسی موضوعات پر تعلیم یافتہ مسلم وغیر مسلم پر مشتمل سمینار اور عام ہندومسلم کے لئے الگ اجتماع کے انعقاد کا اہتمام کیا جائے، جن میں  سنجیدگی سے مذکورہ ایشوز پر گفتگو کی جائے، انہی موضوعات پر بولنے والے مسلمانوں  کے ساتھ غیر مسلموں  کو زیادہ موقع دیا جائے، ایسی مجلسوں  میں  غیر مسلموں  کے ہر طبقات کو خاص مدعو کیا جائے۔ انہی مضامین پر مشتمل ہندستان کی اہم زبانوں  میں  جرائد ورسالے کے اجراء انتہائی ضروری ہے۔

 دینی ورفاہی کاموں  کو جذبہ اجر وثواب سے انجام دینے والی بے مثال مسلمان قوم سے مذکورہ امور میں  شریک ہونا قطعاً مشکل نہیں ، مشکل یہ رہی کہ قوم کے مخلص خدمت گاروں  نے خاص اس سمت میں  باضابطہ کام کرنے کا سوچا ہی نہیں ، ورنہ یہ ناممکن ہے یہ قوم خاص برادران وطن کے بیچ اسلامی تعلیم کی تبلیغ وتعارف اور ہندی مسلمان کے حالات کی ترجمانی کرنے والی تنظیم وپریس اور چینلوں  کے اخراجات میں  بڑھ چڑھ کر حصہ لینے میں  آگے نہ آئے۔

ہندستانی مسلمانوں  کے ارباب حل وعقد اور قائدین تنظیم وادارے اگر مذخورہ باتوں  کو سنجیدگی سے نہیں  لیتے ہیں ، تو فرقہ پرستوں  سے ان پر ہورہے چوطرفہ وار کو وہ صرف ووٹوں  اور احتجاج وجلوس سے کبھی نہیں  روک سکتے ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔