دہشت گردی کی عالمی سازش اورہم

 ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)

رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں بھی ترکی سے لے کر بنگلہ دیش و امریکہ تک اور سعودی عرب اور خاص طور سے شہر رسول صلی اللہ و علیہ و سلم مدینہ منورہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں دہشت گردانہ حملے ہوئے جن میں کئی لوگ ناحق موت کے گھاٹ اتاردئے ۔ دہشت گردی اب مسلمانوں اور اسلام کے قلب تک پہنچ گئی ہے بلکہ اسلام کے دشمنوں نے اب تو شہر رسول ﷺ میں خود کش حملہ کروا کر مسلمانوں کے دل میں دہشت گردی کا خنجر گھونپنے کی کوشش کی ۔اللہ کا شکر کہ حملہ آور مسجد نبوی میں داخل نہیں ہو پایا جہاں روضہء اطہر کی زیارت کے لئے ساری دنیا سے آئے مہمانان نبی ﷺ افطار و نماز مغرب میں مشغول تھے ۔ ان تمام حملوں کو ’اسلامی دہشت گردی ‘ قرار دیا گیا ۔ اور ویسے بھی اب دہشت گردی کا مطلب مسلمانوں کی دہشت گردی ہو گیا ہے ۔ اس طرح کی دہشت گردی کر نے والے چاہے اسلام سے کوسوں دور کیوں نہ ہوں ،اسلام مخالف ہی کیوں نہ ہوں یا اسلام دشمنوں کے ایجنٹ اور دلال ہی کیوں نہ ہوں انہیں’ اسلام پسند ‘ اور ان کی تنظیموں کو’ اسلامی تنظیمیں‘ ہی کہا جاتا ہے یعنی اگر کوئی بھی مسلم نام والا شخص کسی بھی مقصد یا کسی بھی پس منظر کے تحت اگر کسی تخریبی کارروائی کا مرتکب ہو جاتا ہے تو وہ’ اسلامی آتنک وادی ‘اور اس کی کارروا ئی ’اسلامی آتنک واد ‘قرار دی جاتی ہے ۔یعنی کسی بھی تخریب کاری کو اسلامی دہشت گردی ثابت کر نے کے لئے اس کے کارپردوزاں کے نام مسلمانوں جیسے ہونا ہی کافی ہے ،یہ دیکھنے کی قطعی ضرورت نہیں کہ ان کی تخریب کاری کا پس منظر کوئی ذاتی مخاصمت ،ظلم ،اکساہٹ یا کوئی نفسیاتی مرض ہے۔ لیکن اگر کوئی غیر مسلم ایسا کرے تو اس کی اس کارروائی مذہب سے نہیں جوڑا جاتا ،نہ ہی اسے مذہبی شدت پسند یا جنونی کہا جاتا ہے اور نہ اس کے جرم کی پاداش میں اسکی ساری قوم کو گھیرا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے مذہب کو دہشت گردای کا مذہب قرار دیا جاتا ،بلکہ اس کی اس طرح کی کارروائی کا پس منظر تلاشنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے ، اس کی نفسیاتی صحت اور مزاج کی بھی بال کی کھال نکال کر اسے اس کی ذاتی کارروائی قرار دیا جاتا ہے اور اس کی بھرپور تشہیر بھی کی جاتی ہے ۔ابھی حال ہی میں امریکہ کے شہر’ اورلینڈو‘میں ہم جنس پرستوں کے ایک نائٹ کلب میں ایک مسلم شخص نے فائرنگ کے ذریعہ تقریباً پچاس لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ خبروں کے مطابق اس کارروائی سے پہلے اس نے داعش کے لیڈر سے اظہار یکجہتی کیا تھا اور اپنی اس کارروائی کو داعش کے خلاف امریکی بمباری کا انتقام بھی قرار دیا تھا اور داعش نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول کر کے اس کے بیان کی تصدیق کردی ،اسی ضمن میں ایسی خبریں بھی آئیں یا پھیلائی گئیں کہ وہ ہم جنس پرستوں سے نفرت کرتا تھا ( شاید یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ اس نفرت کی بنیادی وجہ اسکا عقیدہ یا مذہب ہے )لیکن وکی پیڈیا نے مختلف حوالوں سے یہ خبر بھی دی ہے کہ کلب کے کم از کم چار ریگولر ممبروں کا کہنا ہے تخریب کار خود بھی ہم جنس پرست تھا ،کلب میں آتا بھی تھا اور شراب نوشی بھی کیا کرتا تھا ۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی عاشق بھی سامنے آیا ہے جس نے اس واقعہ کا جو پس منظر بیان کیا ہے وہ تخریب کار کی ذات سے وابستہ ہے اسی طرح اس کی پہلی بیوی کا بھی کہنا ہے کہ وہ ہم جنس پرست تھا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکی میڈیا نے اس کے ہم جنس پرست ہونے کے متعلق ملی تمام شہادتوں کو مسترد کردیا ہے اور اس میں سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اسکی بیوی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ایف بی آئی نے اس سے کہا ہے کہ وہ یہ بات (کہ تخریب کار ہم جنس پرست تھا ) امریکی میڈیا کو نہ کہے ۔یعنی اس واقعہ کے حقیقی پس منظر کی پوری طرح جانچ کر کے اس کے حقیقی مقصٓد کو واضح کر نے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے بلکہ اسے چھپا کر براہ راست ’اسلامی دہشت گردی‘ سے جوڑا جا رہا ہے ،وجہ صاف ہے کہ تخریب کار مسلم تھا ۔اور امریکہ کی اس سازش یا کوشش میں داعش بھی شریک ہے کہ اس نے آناً فاناً اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر کے امریکہ سے پہلے ہی اسے ’اسلامی دہشت گردی ‘ قررار دیا ۔اور اس واقعہ کی اصل سچائی چھپانے میں اور اسے اسلام اور مسلمانوں کے سر منڈھنے میں امریکہ کی مدد کی ۔حالانکہ خبر ہے کہ سی آئی اے نے اس بات کی نفی کی ہے کہ تخریب کار کا داعش سے کوئی تعلق تھالیکن میڈیا آجکل دہشت گردوں کی زیادہ سن رہا ہے سو اس نے پوری دنیا کو بتا دیا کہ اورلینڈو شوٹنگ داعش ہی نے یعنی مسلمانوں نے یا اسلام کے پیروکاروں نے کروائی ہے اور بڑی تعداد میں بھولے بھالے اور سیانے لوگ بھی یہی سمجھنے لگے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی جو دہشت گردانہ حملہ ہوا داعش نے فوراً اس کی بھی ذمہ داری قبول کرلی ۔جبکہ بنگلہ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ اس میں داعش نہیں بلکہ کسی اور تنظیم کا ہاتھ ہے ۔وہ تو امریکہ کے ڈلاس میں ایک سیاہ فام امریکی کے ذریعہ کی گئی پر تشدد واردات جس میں سفید فام پولس افسروں کو نشانہ بنایا گیا ،اس میں مجرم کی شناخت ہوگئی ورنہ داعش اس کی بھی ذمہ داری قبول کر کے اس واردات کو بھی اسلام اور مسلمانوں کے سر منڈھنے کی کوشش کرتی ۔ویسے بھی اب دھیرے دھیرے یہ بات سامنے آ ہی رہی ہے کہ داعش امریکہ کی یا مسلمانوں کے دشمنوں کی ایجنٹ ہے جو مسلمانوں کے تمام تر مفادات کے خلاف اور اسلام اور مسلمانوں کے تمام دشمنوں کے مفادات کے لئے ہی کام کر رہی ہے ۔ وہ دنیا میں کہیں بھی ہونے والی دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کر کے دراصل یہ بتا نا چاہ رہی ہے کہ وہ ساری دنیا میں موجود ہے اور ہر ملک اور سوسائٹی کے مسلمانوں میں اس کے حمایتی ہیں جو اس کے لئے یا اسکے نظریہ کی حمایت میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اس کی ان حرکات کی وجہ سے ساری دنیا کے مسلمان دہشت گردی کے حامی سمجھے جارہے ہیں اور مخلوط سوسائٹیوں میں خاص طور سے مسلمانوں کے خواص کو گھیرا جارہا اور دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔اسی طرح داعش کا دوسرا مقصد امت مسلمہ کو آپسی انتشار میں الجھا کر اس کا شیرازہ بکھیر دیناہے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کا کیس اس کی تازہ ترین مثال ہے۔جس میں ڈاکٹر صاحب کے خلاف ایک طرف سرکار ہے اور دوسری طرف خود مسلمان ۔ انہیں سرکاری طور پر گھیرنے کے لئے تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے جبکہ ان سے مسلکی اختلاف رکھنے والے مسلمان بھی ان کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں ۔ہم تحقیقات کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ وہ تو اچھی چیز ہے کہ اس سے حقیقت واضح ہوجاتی ہے لیکن تحقیقات غیر جانبدارغیر متعصب ،سامنے والے کے حقوق کاپوری طرح خیال رکھتے ہوئے سنجیدگی اور ذمہ داری سے اور پیشہ ورانہ طریقے سے ہونی چاہئے جس میں میڈیا ٹرائیل کی بالکل گنجائش نہیں بلکہ میڈیاٹرائیل تو تحقیقات کی روح کے ہی خلاف ہے لیکن سب سے خراب اور تشویشناک بات یہی ہے کہ سرکار ڈاکٹر ذاکر نائیک کے میڈیا ٹرائیل پر بالکل خاموش ہے بلکہ اس کی خاموش پزیرائی کر ہی ہے شاید اس کا منشا یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے بہانے تمام ہندوستانی مسلمان بدنام ہو جائیں کیونکہ ان کے خلاف قانونی طور پر کچھ ثابت کرپانا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور لگ رہا ہے۔رہی بات ڈاکٹر صاحب کے خلاف ہوئے مسلمانوں کی تو مسلمانوں کے افتراق کے خلاف اور اتحاد کے لئے اتنا کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے کہ جو اندھوں بہروں کی رہنمائی کے لئے بھی کافی لیکن ہماری انتہا درجہ کی بے چارگی ہمیں اسکا ادراک ہی نہیں ہونے دے رہی ہے۔ہم بے چارے مسلمان ۔۔۔! دنیا میں ہو رہی دہشت گردی دراصل اسلام دشمنوں کی انتہائی خطر ناک اور کار آمد چال ہے جس کے ذریعہ انہوں نے مسلمانوں کے گرد گویا ایک طرح کا جال بن دیا ہے اور مسلمان اس میں پوری طرح پھنستے نظر آرہے ہیں ۔دہشت گردی کی خونریز وارداتیں زیادہ تر مسلمانوں کے خلاف ہی ہورہی ہیں جس سے ہمارا بے انتہاء جانی و مالی نقصان ہورہا ہے اور اس کا الزام بھی مسلمانوں پر ہی لگا یا جارہا ہے ۔اور اگر یہ وارداتیں مسلمانوں کے خلاف نہیں بھی ہو رہی ہیں تو بھی خسارے میں مسلمان ہی ہیں کہ سماجی طور پر ہمیں ہی معتوب کیا جارہا ہے اور اسلام دین اللہ کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں نے اسی لئے دہشت کو جنم دیا کہ وہ مسلمانوں کا ہی نقصان کرتی رہے اور اس کے مجرم بھی مسلمان ہی ٹھہرائے جاتے رہیں اور اسی کو بنیاد بناکر بلکہ مسلمانوں کو دہشت گردی سے بچانے کے نام پر انہی کے ممالک اور علاقوں میں بے دریغ فوجی کارروائی اور خفیہ آپریشنس کئے جاتے رہیں اور ضرورت پڑنے پر ان ممالک کی خود مختاری کی بھی قدر نہ کی جائے اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح جو دہشت گردی ہو رہی ہے وہ اسلام کے نام پر ہورہی ہے ،مسلمانوں پر ہورہے مظالم کی دہائی دے کر اور اس کے انتقام کے نام پرہورہی ہے اور مسلمانوں اور ان کے علاقوں کو دشمنوں سے بچانے کے نام پر ہورہی ہے جس کی وجہ سے عام مسلمانوں کی قلیل تعداد اس کے جال میں پھنس رہی ہے اورکچھ خواص بھی اس کے خلاف بولنے یا اس کی مذمت سے پہلے اس کا پس منظر یا اس کے اسباب گنواتے ہیں ۔اور یہی اسلام دشمن بھی چاہتے ہیں کہ مسلمان اگر دہشت گردی کی حمایت نہ بھی کریں مذمت ہی کرتے رہیں توبھی کم از کم اس کے اسباب ( مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ) اجاگرکرتے رہیں تاکہ عام مسلمان اسے جہاد نہیں تو انتقامی کارروائی ضرور قراردیں ۔جس کی وجہ سے دہشت گردی کو بڑھا وا دیا جاتا رہے اور وہ مسلمانوں کو اقوام عالم کے مقابلہ مسلسل پیچھے کھدیڑتی رہے اور اس کا الزام بھی مسلمانوں ہی پر جاتا رہے اور ساری دنیا کی نظر میں مسلمان اور اسلام دین اللہ ہی مجرم بنا کر پیش کئے جاتے رہیں۔اسلام دشمنون کی اس سازش کو زائل کر نے کے لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم دہشت گردی کی مکمل مخالفت اور مذمت کریں چاہے دہشت گردی کوئی بھی کرے،کہیں بھی کرے اور کسی کے بھی خلاف کرے اور چاہے کوئی اسے مذمت کی کھجلی کہے یا کھجلی کی مذمت !۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔