دہشت گردی کے حوالے سے بعض واقعاتِ سیرت کی تنقیح

اسلام اور امتِ مسلمہ کے خلاف عالمی سازشوں کا نقطۂ عروج یہ ہے کہ اسلام کو دہشت گردی کے ہم معنٰی بنادیاگیا ہے اور مسلمانوں کو ایک دہشت گرد قوم کی حیثیت دے دی کئی ہے ۔ دنیا کے کسی کونے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتاہے فوراً اس کا الزام مسلمانوں کے سر ڈال دیا جاتاہے ، تحقیقات کا رخ بھی یک طرفہ طور پر مسلمانوں کے خلاف طے کردیا جاتاہے اور بالآخر کھینچ تان کرکہیں نہ کہیں سے اس کے ڈانڈے مسلمانوں سے ملادیے جاتے ہیں ۔ پھر اس کا سرچشمہ اسلام کی تعلیمات اورسیرت نبوی کے واقعات میں ڈھونڈاجاتاہے اور کہاجاتاہے کہ مسلمان اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے ان تعلیمات سے تحریک پاتے ہیں اور ان واقعات کو نمونہ بناتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے انسانی جان کے احترام پر بہت زیادہ زور دیا ہے ۔ اس نے ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے (المائدہ۔ 32) لیکن ساتھ ہی اس نے اجتماعی فتنہ و فساد کے ازالے کے لیے جنگ کو مشروع قرار دیا ہے ۔ اس لیے کہ اس کی نگاہ میں فتنہ وفساد قتل سے زیادہ سنگین جرم ہے: الفتنۃ اشدّ من القتل (البقرہ۔ 191) جس زمانے میں اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت ہوئی جنگ کے وحشیانہ طریقے رائج تھے ۔ کسی طرح کے اخلاقی حدود کی پابندی نہیں کی جاتی تھی ۔ دشمن کے غیر مقاتلین پر بھی ظلم وستم ڈھایا جاتاتھا ۔ اسیروں کے ساتھ بدسلوکی اور مقتولین کی تحقیر و تذلیل کی جاتی تھی ۔ دشمن پرغلبہ پانے کے لیے ہر طرح کی کارروائی بلا روک ٹوک کی جاتی تھی ، حتی کہ ان کے کیے ہوئے معاہدوں کو توڑ دیا جاتاتھا اور غفلت میں ان پر حملہ کردیا جاتاتھا۔ روم وایران، جو اس زمانہ میں متمدن قومیں سمجھی جاتی تھیں، وہ بھی اسی طریق جنگ پر عمل پیرا تھیں ۔ اسلام نے وحشت وبربریت پر مبنی ان قوانین جنگ کی اصلاحات کیں ۔ اس نے معاہدوں کی پاس داری کا حکم دیا، دشمن پر غفلت میں حملہ کرنے سے منع کیا ۔ غیر مقاتلین، مثلاً عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں ، زخمیوں ، بیماروں اور مذہبی شخصیات سے تعرض نہ کرنے کی تاکیدکی ۔ ہتھیار ڈال دینے والوں اور قیدیوں کو قتل کرنے سے روکا ۔ مقتولوں کا مثلہ کرنے، جانوروں کو ہلاک کرنے ، پھل دار درختوں کو کاٹنے اور کھیتیوں کو برباد کرنے سے منع کیا ۔ مسلمان فوجوں نے ہمیشہ ان تعلیمات و ہدایات کو اپنے پیش نظر رکھا اور سختی سے ان پر عمل کیا ۔
سیرت نبوی کے بعض واقعات اسلام کی ان عمومی تعلیمات سے متصادم نظر آتے ہیں ۔ اسی لیے مخالفین اسلام نے ان پر اعتراضات کیے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے بعض مواقع پر خود ان تعلیمات سے انحراف کیا ہے ۔ اپنے دشمنوں کو دھوکے سے قتل کروایا ہے، اپنے کیے ہوئے معاہدوں کو توڑا ہے اور اپنے مخالفوں کے ساتھ سنگ دلانہ رویّہ اختیار کیا ہے ۔ سطورِ ذیل میں ان واقعات کی تنقیح مقصود ہے ۔
1۔ کعب بن اشرف اور ابو رافع کا قتل 
کعب بن اشرف اور ابو رافع کے قتل کا واقعہ غزوۂ بدر (رمضان 2ھ) اور غزوۂ احد (شوال 3ھ) کے درمیانی عرصہ میں پیش آیا ۔ ان دونوں کا تعلق یہود سے تھا ۔ ان کی اسلام دشمنی جب حد سے زیادہ بڑھ گئی تو اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں خفیہ طریقے سے قتل کروادیا۔ صحیح بخاری کتاب المغازی میں ان کے قتل کا واقعہ تفصیل سے مذکور ہے ۔کعب بن اشرف کو قبیلۂ اوس سے تعلق رکھنے والے کچھ نوجوانوں نے اور ابورافع کو قبیلۂ خزرج کے نوجوانوں نے قتل کیا ۔ کعب کو قتل کرنے کا کام حضرت محمد بن مسلمہؓ نے انجام دیا۔ کعب بن الاشرف یہود کے سرمایہ داروں میں سے تھا ۔ روایتوں میں ہے کہ اس نے یہودی علماء کے روزینے مقرر کررکھے تھے ۔ وہ ضرورت مندوں کو سود پر قرض دیا کرتا تھا ۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ اس کے پاس گئے اور اس سے کچھ قرض مانگا ۔ انہوں نے اس کی ہم دردی حاصل کرنے کے لیے اس سے کہا: ’’ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پناہ دے کر تمام عرب کو اپنا دشمن بنالیا ہے ۔ ہم سے بار بار صدقہ ما نگا جاتاہے ، اب تمہی سے کچھ قرض لینا ہے ‘‘ بالآخر طے پایا کہ ہتھیار رہن رکھ کر قرض دیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے رات کا وقت طے ہوا ۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مقر روقت پرپہنچے اور کعب بن اشرف کو آوازدی ۔ وہ اپنے بالا خانے سے اترا۔ ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں ۔ دفعۃً اسے غافل پاکر حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اس کے سر کے بال پکڑلیے اور ان کے ساتھیوں نے اس پر وار کرکے اس کا کام تمام کردیا۔ یہ واقعہ ربیع الاول 3ھ میں پیش آیا ۔
ابو رافع کو حضرت عبد اللہ بن عتیکؓ نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر قتل کیا ۔ وہ خیبر سے قریب سرزمین حجاز کی سمت میں ایک قلعے میں رہتا تھا۔ یہ قلعہ ایک چہار دیواری سے گھرا ہوا تھا جس کے مرکزی دروازے میں سرشام تالہ لگا دیاجاتاتھا۔ حضرت عبد اللہ نے اپنے ساتھیوں کو چہار دیواری سے باہر رکنے کو کہا اور خود بڑی ہوشیاری سے دروازہ بند ہونے سے عین قبل اندر پہنچ گئے ۔ وہاں انہوں نے کچھ دیر انتظار کیا ۔ جب ابو رافع کی مجلس ختم ہوگئی اور لوگ سونے کے لیے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو حضرت عبد اللہ بن عتیکؓ ابو رافع کے بالاخانے پرگئے ۔ وہاں اندھیرا تھا۔ انہوں نے ابو رافع کو پکارا اور اس کا جواب ملنے پر پے درپے کئی وار کرکے اس کا خاتمہ کردیا۔ روایات میں کعب بن اشرف اور ابو رافع کے قتل کی تفصیل ملتی ہے کہ کس طرح انہیں قتل کرنے والوں نے ا ن کی غفلت سے فائدہ اٹھایا اور انہیں دھوکے اور بے خبری میں قتل کیا۔
ان واقعات پر مخالفین اسلام کا اعتراض یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے دشمنوں کو دھوکے سے اور خفیہ طریقے سے قتل کرایا۔ یہ وہی طریقہ ہے جو عہد جاہلیت میں رائج تھا اور جسے اصطلاح میں ’’فتک‘‘ کہا جاتاتھا ۔ اسلام میں بھی اسی طریقے کو اختیار کیا گیا ۔
کعب بن الاشرف اور ابو رافع کی سیرت و کر دار اور احوال کی تفصیلات سامنے ہوں تو یہ جاننا آسان ہوگا کہ ان کو اس طریقے سے قتل کروانے کی کیوں ضرورت پڑی۔
کعب کا باپ اشرف قبیلۂ طے کی شاخ نبہان سے تعلق رکھتا تھا۔ عہد جاہلیت میں اس سے ایک خون ہوگیا تھا جس کی بناپر وہ مدینہ آگیا تھا اور اس نے یہود بنی نضیر سے حلیفانہ تعلقات قائم کرلیے تھے اور ان کے درمیان اتنا اعتبار اور عزت حاصل کرلی تھی کہ ایک یہودی سردار ابی الحقیق کی بیٹی عقیلہ سے شادی کرلی تھی جس کے بطن سے کعب پیدا ہوا۔ کعب بہت بڑا شاعر اور بہت دولت مند تھا ۔ اس کو اسلام سے سخت عداوت تھی ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ہجرت کے بعد باشندگان مدینہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں یہود بنی نضیر بھی شریک تھے ۔ اس روسے کعب بن الاشرف بھی اس معاہدہ کا پابند تھا۔ لیکن غزوۂ بدر کے بعد اس نے مسلمانوں اور اللہ کے رسول ﷺ کی ہجو کی اور مکہ جاکر کفار قریش کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ابن ہشام نے بیان کیا ہے کہ جب اسے بدر میں سردارانِ قریش کے مارے جانے کی خبرملی تو اسے سخت صدمہ پہنچا ۔ اس کا اظہار اس نے ان الفاظ میں کیا: ’’واللہ لئن کان محمد اصاب ہو لاء القوم لبطن الارض خیر من ظہرہا‘‘ سیرۃ النبی ، طبع مصر 1936، 2/431(اللہ کی قسم اگر محمدؐ نے ان لوگوں کو قتل کر دیا ہے تو زمین کا پیٹ اس کی پیٹھ سے بہتر ہے ) پھر وہ مکہ گیا جہاں مقتولین بدر کے پردرد مرثیے سناناتھا جن میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی ترغیب ہوتی تھی۔ سنن ابی داؤد کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’کان شاعراً وکان یہجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویحرّض علیہ کفار قریش‘‘
(سنن ابی داؤد ، کتاب الخراج والامارۃ،باب کیف کان اخراج الیہود من المدینہ ، حدیث نمبر 3000)
(وہ شاعر تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور کفار قریش کو آپؐ کے خلاف بھڑکاتاتھا)
ابن حجرؒ نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں ہے کہ اس نے مکہ جاکر مشرکین قریش کو حرم میں اکٹھا کیا اور خانۂ کعبہ کے پردوں کو تھام کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کا حلف لیا ۔ (فتح الباری ، طبع بیروت ، 7/337)
مدینہ واپس آیا تو یہاں رسول اللہ ﷺ کی ہجو کے علاوہ مسلمان خواتین کے بارے میں گندے عشقیہ اشعار کہتا ۔ حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے :
’’تشبّب بنساء المسلمین حتی اذا ہم ‘‘(فتح الباری 7/337)
(اس نے مسلمانوں کی عورتوں کے بارے میں عشقیہ اشعار کہے اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی )
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی میں وہ اسی حد تک نہ رہا ، بلکہ اس نے ایک بار خود اللہ کے رسول ﷺ کو ایک دعوت میں بلاکر دھوکے سے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے یہود کی ایک جماعت کو تیار کیا اور اپنا پورا منصوبہ سمجھادیا کہ وہ آپؐ کو ایک دعوتِ ولیمہ میں بلائے گا ، آپ ؐ آجائیں تو زندہ واپس نہ جانے دیا جائے ۔ آپ کو اس منصوبے کی خبر مل گئی اور آپؐ محفوظ رہے ۔ اس واقعہ کو ابن کثیر نے اپنی سیرت ، ابن حجر نے شرح فتح الباری اور یعقوبی نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے ۔
اسی طرح کی اسلام دشمنی کامظاہر ابو رافع بن ابی حقیق کی جانب سے بھی ہورہاتھا ۔ بخاری کی روایت میں ہے : کان ابو رافع یؤذی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویعین علیہ ، کتاب المغازی ، باب قتل ابی رافع ، حدیث : 1039 ( ابو رافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچاتاتھا اور آپ کے خلاف دوسروں کی مدد کرتاتھا) وہ کعب بن اشرف کا قریبی رشتہ دار تھا (کعب بن اشرف اس کا بہنوئی تھا ) اس لیے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں وہ اس کا برابر کا شریک تھا ۔ ابن الاثیر نے لکھا ہے: ’’کان یظاہر کعب بن الاشرف علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘
(وہ رسول اللہ ﷺکے خلاف کعب بن اشرف کی مدد کرتاتھا )
بعض روایات میں صراحت ہے کہ و ہ مشرکین عرب کے مختلف قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا تاتھا اور انہیں اپنا ہم نوا بنانے کے لیے ان پر بے دریغ مال خرچ کرتاتھا( فتح الباری ،7/243)
کعب بن اشرف اور ابو رافع دونوں کی یہ حرکات اس معاہدہ کے خلاف تھیں جو مسلمانوں اور یہود کے درمیان ہوا تھا اور جس کے وہ بھی پابند تھے ۔ محض ان کی حرکتوں کی و جہ سے ان کی قوم کے خلاف اعلان جنگ نہ کیا جاسکتاتھا ۔ ان کی قوم سے بھی امید نہ تھی کہ انہیں معاہدہ کی خلاف ورزی سے روکیں گے ۔ یہ لوگ خود کبھی کھلے میدان میں لڑنے نہیں آئے کہ انہیں تہ تیغ کرنا ممکن ہوتا، بلکہ ہمیشہ انہوں نے پردہ کے پیچھے سے خفیہ طریقے سے اپنی اسلام دشمن سرگرمیاں جاری رکھیں ۔ اسی لیے ان کے شر سے محفوظ رہنے کی واحد صورت یہی تھی کہ اسی طرح خفیہ طریقے سے ان کی زندگی کا بھی خاتمہ کردیا جائے ۔
مخالفین اسلام نے اس طریقۂ قتل پر اعتراض کیا ہے ۔ اس کے جواب میں علامہ شبلیؒ نے لکھا ہے کہ ’’اس وقت تک عرب میں ان طریقوں سے قتل کرنا معیوب بات نہ تھی (بعد میں) آں حضرت ﷺ نے تدریج کے ساتھ عرب کے ان طریقوں کی اصلاح کی ‘‘ (سیرت النبی ، طبع 1981ء، 1/408) مولانا مودودی ؒ نے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے :
’’اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ خفیہ طریقے سے دشمن کے سرداروں کو قتل کرادینا اسلام کے قانونِ جنگ کی کوئی مستقل دفعہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یقیناً آں حضرت ﷺ سب سے پہلے ابو جہل اور ابو سفیان جیسے دشمنوں کو قتل کراتے اور صحابہؓ میں ایسے فدائیوں کی کمی نہ تھی جو اس قسم کے تمام دشمنوں کو ایک ایک کرکے قتل کرسکتے تھے ۔ لیکن عہد رسالت اور عہد صحابہؓ کی پوری تاریخ میں ہم کو کعب بن اشرف اور ابو رافع کے سوا کسی اور شخص کانام نہیں ملتا جسے اس طرح خفیہ طریقہ سے قتل کیا گیا ہو، حالاں کہ آپؐ کے دشمن صرف یہی دو شخص نہ تھے ۔ پس یہ واقعہ خود اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ خفیہ طریقہ سے دشمن کو قتل کرنا اسلام کی کوئی مستقل جنگی پالیسی نہیں ہے ، بلکہ ایسے مخصوص حالات میں اس کی اجازت ہے جب کہ دشمن خود سامنے نہ آتا ہو اور پردے کے پیچھے بیٹھ کر خفیہ سازشیں کیا کرتا ہو ‘‘(الجہاد فی الاسلام ، مرکز مکتبہ اسلامی دہلی، طبع 1981ء، ص 313۔314)
بنو نضیر کی جلاو طنی 
بنو نضیر کی جلاوطنی کا واقعہ ربیع الاول 4ھ میں پیش آیا ۔ آں حضرت ﷺ نے ابتدامیں ان سے امن اور بقائے باہم کا معاہدہ کیا تھا ۔ لیکن بعد میں ان کی سرکشی اور پیہم بدعہدی کی بناپر انہیں جلاوطن کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مخالفین اسلام آں حضرت ﷺ کے اس فیصلے کو بھی اعتراض کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آپؐ کم زور تھے تو آپ نے ان سے معاہدہ کیا ، لیکن جب طاقت ور ہوگئے تو اپنے کیے ہوئے معاہدے کو توڑ ڈالا اور انہیں مدینے سے نکال باہر کیا ۔ اگر اس واقعہ کی تمام تفصیلات نگاہوں کے سامنے ہوں تو یہ اعتراض قائم نہیں رہ سکتا اور آں حضرت ﷺ کے فیصلے کی معقولیت سمجھی جاسکتی ہے۔
آں حضرت ﷺ نے مدنیہ تشریف لانے کے بعد تمام قبائل سے ایک معاہدہ کیا تھا جس کی ایک بنیادی دفعہ یہ تھی ۔
’’وادعہم علی ان لا یحاربوہ ولا یمالؤا علیہ عدوہ ‘‘(فتح الباری ، 7/330)
(آپ نے ان سے اس بات پر معاہدہ کیا تھا کہ و ہ آپ سے جنگ کریں گے نہ آپ کے خلاف آپ کے دشمنوں کی مدد کریں گے )
بنو نضیر نے اس معاہدہ کی پاس داری نہ کی ۔ انہوں نے کفار قریش سے ساز باز رکھی اور انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے اکساتے رہے ۔ موسیٰ بن عقبہ نے اپنی مغازی میں لکھا ہے :
کانت نضیر قددسوا الی قریش وحضّوہم علی قتال رسول اللہ ﷺ ودلّوہم علی العورۃ (بحوالہ فتح الباری ، 7/332)
(بنو نضیر قریش سے سازشیں کرتے تھے ، انہیں رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ کرنے کے لیے اکساتے تھے اور انہیں خفیہ اطلاعات فراہم کرتے تھے )
یہی نہیں بلکہ انہوں نے متعدد مرتبہ خود رسول اللہ ﷺ کو ہلاک کرنے کی خفیہ تدبیریں کی تھیں ۔ کتب سیرت میں ان واقعات کا تذکرہ ملتاہے ۔ ایک مرتبہ انہوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ آئیے ، ہم بھی اپنے تین علماء کو بھیجتے ہیں ، اگر وہ آپ پر ایمان لے آئیں گے تو ہم بھی آپ کے پیروبن جائیں گے ۔ ان یہودی علماء نے اپنے ساتھ خنجر چھپالیا ۔ منصوبہ یہ تھا کہ جب یہ لوگ اکٹھا ہوں گے تو دھوکے سے یہ آپؐ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہلاک کردیں گے ۔ خود ایک یہودی عورت نے اس سازش کا افشا کردیا اور آپ وہاں تشریف نہیں لے گئے۔(فتح الباری ، 7/331)
ایک دوسرے موقع پر دیت کے ایک معاملے میں آں حضرت ﷺ بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے ۔ انہوں نے بظاہر آپ سے اچھا برتاؤ کیا اور دیت کا ایک حصہ ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کی ، لیکن درپردہ یہ سازش کی کہ ایک شخص چپکے سے بالاخانے پر چڑھ کر ایک بڑا سا پتھر آپ کے اوپر گرادے جس سے آپ ہلاک ہوجائیں ۔ آپ کو اس کی خبر ہوگئی اور آپ دیت کا معاملہ طے کیے بغیر مدینہ واپس آگئے ۔
بنو نضیر رسول اللہ ﷺسے غدّاری اور بدعہدی پر آمادہ تھے ۔ ایک طرف کفار قریش غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں زبردست شکست کھانے کے بعد انہیں مسلمانوں کے خلاف ورغلارہے تھے ، دوسری طرف منافقین انہیں اپنے بھرپور تعاون کی جھوٹی امیدیں دلارہے تھے ۔ ان حالات میں انہیں مدینہ میں رہنے دینا خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا ۔ اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں الٹی میٹم دے دیا کہ غداری کی بناپر انہوں نے مدینہ میں رہنے کاحق کھودیاہے ۔ اب اگر انہوں نے دس دن کے اندر مدینہ خالی نہیں کردیا تو ان سے جنگ کی جائے گی ۔ انہوں نے اس الٹی میٹم کی مطلق پروانہ کی ۔ وہ مضبوط قلعوں کے مالک تھے۔ ان قلعوں میں پناہ گزیں ہوگئے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے پندرہ دنوں تک ان کا محاصرہ جاری رکھا ۔ بالآخر محاصرہ کی شدت سے وہ پریشان ہوگئے ۔ دوسرے یہودی قبیلہ بنو قریظہ نے ان کا ساتھ دیا ، نہ منافقین ان کی مدد کے لیے سامنے آئے ۔ بالآخر انہوں نے خود ہی یہ تجویز رکھی کہ ان کا خون معاف کردیا جائے اور انہیں اجازت دی جائے کہ جو کچھ مال و اسباب اونٹوں پر لادا جاسکتا ہو ، اسے لے کر اور بقیہ سامان یہیں چھوڑ کر وہ اذرعات (شام) چلے جائیں ۔ آں حضرت ﷺ نے ا ن کی جاں بخشی کردی اور ا ن کی تجویز منظور کرلی۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ معاہدہ کو رسول اللہ ﷺ نے نہیں ، بلکہ بنو نضیر نے توڑا تھا ۔ اس کے باوجود رسول اللہ ﷺنے ان کا محاصرہ کرلینے اور ان پر غلبہ پانے کے باوجود ان سے انتقام نہیں لیا، بلکہ خود ان کی شرائط مان لیں اور انھیں اپنے مال و اسباب کے ساتھ اپنے پسندیدہ مقام پر جانے دیا ۔
بنو قریظہ کا قتل عام 
غزوۂ بنو قریظہ، جس کا خاتمہ یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے تمام جنگ جوؤں کے قتل عام پر ہوا، غزوۂ احزاب (5ھ)کے معاً بعد پیش آیا۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر بنو قریظہ نے بد عہدی کی اور دشمنوں سے مل گئے ۔ چنانچہ غزوۂ احزاب سے فارغ ہوکر آں حضرت ﷺ نے صحابہ کے ساتھ بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کرلیااور بالآخر ان کے تمام جنگجوؤں کو، جن کی تعداد چار سو اور بعض روایات میں چھ سو بتائی گئی ہے ، قتل کردیا گیا اور ان کے بچوں اور عورتوں کو غلام اور ان کے تمام مال و اسباب کو مال غنیمت بنالیا گیا ۔ مخالفین اسلام نے اس واقعہ پر بھی اعتراضات کیے ہیں او رآں حضرت ﷺ پر بد عہدی اور سنگ دلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔
بنو قریظہ ان یہودی قبائل میں سے تھے جو مدینہ کے اطراف میں آباد تھے۔ آں حضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ان سے دوستانہ معاہدہ کیا۔ بعد میں قریش کے بھڑکانے پر وہ آمادۂ بغاوت ہوگئے تو آں حضرت ﷺ نے معاہدہ کی تجدید کرنی چاہی۔ بنو نضیر نے انکار کیا، چنانچہ ان کو جلا وطن کردیا گیا۔ بنو قریظہ تجدید معاہدہ پر رضا مند ہوگئے ، چنانچہ انھیں امان دے دی گئی۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر بنو نضیر کے بھڑکانے پر جب عرب کے تمام بڑے بڑے قبائل مسلمانوں کا صفایا کرنے کے لے امڈ آئے تھے ، بنو قریظہ نے بھی مسلمانوں سے کیا ہوا معاہدہ توڑدیا اور بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب کے بہکانے پر شریکِ جنگ ہوگئے۔ آں حضرت ﷺ کو بنو قریظہ کی غدّاری کا علم ہوا تو آپؐ نے انھیں سمجھانے بجھانے کے لیے حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کو ان کے پاس بھیجا، مگر انھوں نے بے رخی سے جواب دے دیا کہ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں۔
بنو قریظہ کی عہد شکنی اور غدّاری کے نتیجے میں مسلمان سخت پریشانی اور الجھن کے عالم میں تھے۔ وہ دو طرف سے محصور ہوکر رہ گئے تھے ۔ ایک طرف تمام قبائل عرب کی فوجیں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھیں اور دوسری طرف بنو قریظہ آمادۂ شر تھے۔ مسلمانوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو حفاظت کے لیے ایک قلعہ میں بھیج دیا تھا ، وہ بنو قریظہ کے نشانے پر تھا۔ دشمنوں کا محاصرہ طویل ہوتا جارہا تھا۔ مسلمان اس وقت جس عالم اضطراب سے گزر رہے تھے اس کا نقشہ خود قرآن نے یہ کھینچا ہے:
اِذْ جَآءُ وْکُمْ مِنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا۔ (الاحزاب۔10)
(جب دشمن اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے ، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منھ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔)
مسلمان اس وقت خود کو کتنا بے بس محسوس کررہے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آں حضرتﷺ نے مدینہ کی پیداوار کا ایک حصہ دے کر دشمنوں سے مصالحت کا ارادہ کرلیا تھا۔ لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ کی مدد آئی اور دشمن نامراد الٹے پیر واپس چلے گئے۔
بنو قریظہ کی اس غداری کے بعد ان کے ساتھ کسی طرح کی رعایت برتنا خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ آں حضرت ﷺ نے غزوۂ احزاب سے فارغ ہونے کے معاً بعد صحابہ کو بنو قریظہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا اور ان کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ پندرہ دن اور بعض روایات کے مطابق پچیس دن جاری رہا۔ بالآخر خود بنو قریظہ نے یہ پیش کش کی کہ حضرت سعد بن معاذؓ ان کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے وہ انھیں منظور ہوگا۔ حضرت سعدؓ کا قبیلہ اوس بنو قریظہ کا حلیف تھا۔ اس لیے انھیں امید تھی کہ وہ ان کے بارے میں ہمدردانہ فیصلہ کریں گے ۔ لیکن انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام بالغ مردوں کو قتل کردیا جائے ، عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا جائے اور مال و اسباب کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے ۔ ان کا یہ فیصلہ توریت ( کتاب استثناء، باب 20، آیات: 10۔14) کے عین مطابق تھا۔ اس لیے بنو قریظہ کے کسی ایک شخص نے بھی اس کے خلاف کچھ نہ کہا۔
عہد نبوی کے مذکورہ بالا تینوں واقعات کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں رسول اللہ ﷺ کی جانب سے کوئی زیادتی نہیں کی گئی ہے ، نہ کسی بد عہدی کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ بلکہ متعلقہ افراد اور قبائل کو جو سزائیں دی گئیں وہ ان کی بد عہدی اور غدّاری کے عین مطابق تھیں اور وہ انہی کے مستحق تھے۔

تبصرے بند ہیں۔