سلطنت اور دین کا تعلق – قسط (2)

تحریر: سید سلیمان ندوی ۔۔۔ ترتیب:عبدالعزیز
’’اور جو اللہ کے اتارے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں‘‘ (مائدہ:47)۔
احادیث میں بھی اس کی تصریحات ہیں، ارشاد ہے: ہاں؛ اے لوگو! خدا نے جو قانون اتارا ہے، اس کو چھوڑ کر کوئی امام کچھ فیصلہ کرے، اس کی نماز اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرے گا۔ (مستدرک حاکم، ج4، ص89، کتاب الاحکام)۔
سب ظاہر ہے کہ نماز بندہ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور انقیاد کی تمثیل ہے۔ اب جو شخص ایک طرف اس کامل اطاعت اور انقیاد کا اظہار کرتا ہے اور دوسری طرف اس کی صریح مخالفت کا مرتکب ہوتا ہے، وہ منافق ہے اور اس لئے اس کی نماز یعنی اظہارِ اطاعت بارگاہِ الٰہی میں بے معنی ہے۔
اسی سلسلہ میں ان حدیثوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت و فرماں روائی بھی ایک مذہبی فریضہ ہے، جو لوگ اس فریضہ سے حسب احکام الٰہی عہدہ برآ ہوں ان کیلئے آخرت میں رحمت الٰہی کا سایہ ہے اور جو اس امتحان میں پورے نہ اتریں ان کیلئے وہ سزائیں ہیں جو دوسری زندگی میں ان کیلئے مقرر کی گئی ہیں، فرمایا: ’’وہ امام جو لوگوں پر مقرر ہے، وہ نگراں کار ہے، اس سے اس کے زیر نگرانی اشخاص کے متعلق باز پرس ہوگی‘‘ (صحیح بخاری،ج2، ص1057 کتاب الاحکام) ۔
اس سے معلوم ہوا کہ امیر اور امام بڑی ذمہ داریوں کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں، اسلامی امارت وخلافت، تاج و تخت کی بہار اور عیش و عشرت کا گلزار نہیں ، ذمہ داریوں کا خارزار ہے، جو اس سے بسلامت گزر گیا، اس کیلئے دنیا کی سعادت اور نیک نامی اور آخرت کا ابدی آرام و آسایش ہے اور جو اس میں الجھ کر رہ گیا وہ اس دنیا میں بھی ذلیل و بدنام ہوگا اور آخرت میں بھی رسوا و خوار ہوگا۔
’’جس بندہ کو اللہ کسی رعیت کا نگراں بنائے اور وہ اس کی خیر خواہی پوری پوری نہ کرے تو وہ جنت کی بو بھی نہ پائے گا‘‘ (بخاری و مسلم حوالہ سابق) ۔
حضرت معقلؓ بن یسار ایک صحابی ہیں، ان کے مرض الموت میں بصرہ کا سفاک امیر عبیداللہ بن زیاد ان کی عیادت کو آیا، انھوں نے امیر کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آج میں تمہیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک پیغام سنا دینا چاہتا ہوں، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میری زندگی ابھی اور باقی ہے تو میں نہ سناتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ’’جس بندہ کو اللہ کسی رعیت کا نگراں بنائے، وہ مرتے دم اس حال میں مرے کہ وہ اپنی رعیت کے ساتھ غداری کرتا تھا تو اللہ اس پر جنت کو حرام کر دے گا‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ) ۔
اس سے اندازہ ہوگا کہ امارت و حکومت کی ذمہ داری اسلام کی شریعت میں کتنی بڑی ہے، ایک اور صحابی جن کا نام عائذ بن عَمرو رضی اللہ عنہ ہے وہ مرض الموت کا بھی انتظار نہیں کرتے۔عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں خود پہنچ جاتے ہیں اور اس کو پیار سے خطاب کرکے کہتے ہیں اے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’سب سے بُرا راعی (امیر) وہ ہے جو اپنی رعیت کو توڑ ڈالے‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ) ۔ تو تو ان میں سے نہ بن۔
اس نے کہا : آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں بھوسی ہیں۔
فوراً بولے: کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں کوئی بھوسی بھی تھا، بھوسی تو اوروں میں تھے اور ان کے بعد والے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ ’’بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء فرمایا کرتے تھے، ایک نبی گزر جاتا تھا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، نبوت مجھ پر ختم ہوگئی، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے، انہی کے ہاتھ میں امت کی سیاست کی باگ ہوگی‘‘۔
صحابہؓ نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! تو ہمارے لئے کیا حکم ہے؟
فرمایا: ’’پہلے بیعت کرو، پھر اس کے بعد والے کی، پھر عہد بہ عہد اوروں کی، ان کا حق ان کو ادا کیا کرو‘‘ (یعنی اپنے حق کی پرستش خدا پر چھوڑ دو)۔
’’کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کے متعلق باز پرس فرمائے گا جن کی نگرانی اس نے ان کے سپرد فرمائی ہے‘‘ (صحیح بخاری)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے امراء کے حق میں یہ دعا فرمائی ہے: ’’اے اللہ! جو کوئی میری امت کی کسی بات کا (یا حکومت کے کسی حصہ کا) بھی والی ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کرنا اور جو ان سے مہربانی سے پیش آئے تو تو بھی اس پر مہربانی فرمانا‘‘ (مسلم)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ کی وسعت میں بادشاہ سے لے کر ادنیٰ افسر تک شامل ہیں اور ہر ایک پر اپنے اپنے دائرۂ حکومت کی ذمہ داری عائد ہے۔ ایک اور حدیث پاک میں اس دائرہ کی وسعت اور زیادہ بڑھ گئی ہے: ’’ہاں، تم سب نگران کا رہو اور تم سب سے اپنے زیر نگرانی اشخاص و رعایا کی بابت پوچھ ہوگی تو لوگوں کا امیر نگران کار سے اس کے زیر نگراں کے متعلق پرسش ہوگی اور مرد اپنے گھر والوں کا نگرانِ کار ہے اور اس سے اس کے گھر والوں کی پرسش کی جائے گی اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بال بچوں کی نگراں ہے، اس سے ان کے متعلق سوال ہوگا اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے، اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا تو ہاں، ہشیار رہو، تم سب نگران کار ہو اور تم اس کے زیر نگران کے بابت باز پرس کی جائے گی‘‘ (مسلم و صحیح بخاری)۔
لفظ رعیّت: اس موقع پر ایک مخصوص لفظ کی تحقیق مناسب معلوم ہوتی ہے، جو ہماری زبان میں عام طور پر رائج ہے، اور وہ رعیت ہے اور ذمہ داری کے لحاظ سے وہ اپنی حقیقت سے بالکل خالی ہوگئی ہے، حدیثوں میں لفظ ’راعی‘ اور ’رعیت‘ بار بار آئے ہیں۔ یہ الفاظ لفظ ’’رعی‘‘ سے نکلے ہیں، جس کے اصل معنی جانوروں کے چرانے کے ہیں۔ راعی چرواہا اور رعیت وہ ہے جس کو وہ چرائے اور جس کی وہ نگہبانی کرے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کسی کی رعیت وہ ہے جس کی تربیت و پرورش و نگرانی اور حفاظت کسی راعی و محافظ کے سپرد ہو تو در حقیقت ایک امیر کی حیثیت ایک شفیق و محافظ چرواہے کی ہے جو اپنے گلّے کو سرسبز چراگاہوں میں لے جاتا ہے اور ان کی شکم سیری کا سامان کرتا ہے، درندوں سے ان کی حفاظت کرتا ہے اور حادثات سے ان کو بچاتا ہے۔ اس تشریح کے مطابق یہ غور طلب ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر لفظ ’’رعیت‘‘ کس قدر شفقت آمیز اور پُر محبت معنوں میں آیا ہے، اور ظالم و سفاک امراء اپنے عمل سے اس کو کتنے ذلیل اور پست معنوں میں استعمال کر رہے ہیں، حالانکہ اسی لفظ میں ان کی ذمہ داریوں کا ایک بڑا دفتر پوشیدہ ہے جو امام عادل اپنے فرائض سے بخوبی عہدہ بر آ ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نسبت یہ بشارت دی ہے:
’’بے شک انصاف کرنے والے (حکام و امراء) اللہ تعالیٰ کے پاس نور کے منبروں پر اس کے داہنے ہاتھ پر ہوں گے، اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں، یہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلہ میں اپنے اپنے لوگوں میں اور اپنے زیر حکومت امور میں عادل ہوں‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الامارہ)۔
اس رفعت و بلندی سے جو ایسے عادل حاکموں، منصف امیروں اور سلطانوں کو قیامت کے روز حاصل ہوگی۔ ظاہر ہے کہ عادلانہ حکومت اور منصفانہ سلطنت کتنی بڑی عبادت ہے۔ جامع ترمذی میں ہے: ’’بے شبہ سب لوگوں سے خدا کو محبوب اور خدا سے قریب امام عادل ہوگا۔ اور خدا کے نزدیک سب سے مبغوض اور خدا سے دور وہ امام ہوگا جو ظالم ہو‘‘ (ترمذی، ابواب الاحکام) ۔
اس کے برخلاف جو امام اور حاکم و امیر عدل و انصاف اور رعایا پروری اور خیر خواہی سے دور ہوں گے، وہ اللہ کی رحمت سے بھی دور ہوں گے، فرمایا: ’’جو امیر مسلمانوں کے کام کا والی ہو، پھر وہ ان کیلئے محنت نہیں کرتا اور ان کا خیر خواہ نہیں، وہ ان کے ساتھ بہشت میں داخل نہ ہوگا‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الامارہ)۔
’’کوئی والی جو مسلمانوں کی کسی زیر نگرانی جماعت کا والی ہو، وہ اس حال میں مرے کہ وہ ان مسلمانوں کے ساتھ غداری کا مرتکب ہو، اس پر جنت حرام ہے‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الاحکام)۔
’’امام ڈھال ہے، اس کے پیچھے اس کی پناہ میں لڑا جاتا ہے، تو اگر وہ اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کے مطابق حکم کرے اور عدل کرے تو اس کو اس کا بڑا انعام ملے گا، اور اگر غیر تقویٰ کا حکم کرے اور عدل نہ کرے تو اس کیلئے بڑی سزا ہے‘‘ (نسائی، کتاب البیعۃ)۔
یہ حدیثیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام میں حکومت و ریاست اور سلطنت و ولایت بھی امورِ دین کا درجہ رکھتی ہیں اور وہ بھی ثواب و عذاب اور جزا و سزا کی اسی طرح موجب ہیں جس طرح دین کے دوسرے امور و اعمال، اور وہ بھی ایک مسلمان کے سامنے جنت یا دوزخ کا دروازہ کھولنے میں اعمال و عبادات کے دوسرے شعبوں سے کم نہیں، اور اسلام کی شریعت میں یہ دین ہی کا ایک حصہ ہیں، کیونکہ یہاں دین کے معنی احکام الٰہی ہیں، یا قوانینِ الٰہی ہیں۔ یہ احکام الٰہی اور قوانین الٰہی انسانی زندگی کے ہر شعبہ سے یکساں متعلق ہیں۔ اس بنا پر سلطنت و ولایت اور حکومت و ریاست کے کاروبار کا نظم و نسق اور اہتمام و انصرام بھی دین ہی کا ایک جز ہے۔
ایک مدت سے علماء کی گوشہ گیری اور صوفیہ کی خانقاہ نشینی نے عوام کو یقین دلا دیا ہے کہ قیام سلطنت اور امورِ سلطنت میں دخل و تدبیر دنیا کا کام ہے جس سے اہل علم اور اہل اتقا کو کنارہ کش رہنا چاہئے۔ حافظ شیرازی کا یہ مشہور شعر اسی تصور کا غماز ہے ؂
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش ۔۔۔ رموزِ مملکت خویش خسرواں دانند
(اے حافظ! تو گدائے گوشہ نشین ہے، زیادہ شور و غل مت کر کہ اپنی مملکت کے رموز و اسراس بادشاہ ہی جانتے ہیں، تم کو ان سے کیا سروکار)۔
لیکن اسلام اس خسروی کا قائل نہیں، اس کی نگاہ میں سلطنت احکام الٰہی کی تبلیغ، تنفیذ اور اجراء کیلئے ہے اور یہ عین دین ہے، اسلام میں جس قتال و جہاد کی دعوت برملا دی گئی ہے اور جس پر اُخروی نعمتوں کے بڑے بڑے وعدے اللہ تعالیٰ نے فرمائے ہیں، اور جس سے داعیِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ مقدس اور حضرات خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓ کی زندگیاں سر تاپا معمور ہیں، اس سے مقصود اصلی احکام الٰہی کی تبلیغ، تنفیذ اور اجراء ہی تھا، جہاد سے فرار پر غضب الٰہی اور جہنم کی وعید ہے اور میدانِ جہاد کے صبر و ثبات پر صادق قدم اور متقی ہونے کی بشارت ہے۔ قرآن میں ہے:
’’اے اہل ایمان! جب میدانِ جنگ میں کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا، اور جو شخص جنگ کے روز اس صورت کے سوا لڑائی کیلئے کنارے کنارے چلے (یعنی حکمت عملی سے دشمن کو مارے) یا اپنی فوج میں جا ملنا چاہئے، ان سے پیٹھ پھیرے گاتو (سمجھو کہ) وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہوگیا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے، اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے، اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کار زار کے وقت ثابت قدم رہیں، یہی لوگ ہیں جو ایمان میں سچے ہیں اور یہی ہیں جو خدا سے ڈرنے والے ہیں‘‘ (البقرہ:22)۔
یہی سبب ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جہاد و قتال فی سبیل اللہ، انصاف، اقامت دین، تنفیذ حکم، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تمام کاروبار کو جس کا بڑا حصہ امامت و خلافت اور اس کے تحت شعبوں اور صیغوں سے متعلق ہے، عام عبادات و اعمال صالحہ سے کم اہم نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس تصور اور عقیدہ کی بنا پر کہ اقامت دین کی راہ میں خونِ شہادت کا ایک قطرہ بھی مومن کے اعمال نامہ اور گناہوں کے دفتر کو دم کے دم میں دھو دیتا ہے، حضرات صحابہؓ ہر وقت جہاد و قتال کے مشتاق اور اس راہ میں شہادت کے طالب رہتے تھے۔
’’تم جو لوگ میرے لئے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور لڑے اور قتل کئے گئے میں ان کے گناہ دور کروں گا اور ان کوبہشتوں میں داخل کروں گا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں(یہ) خدا کے ہاں سے بدلہ ہے اور خدا کے ہاں اچھا بدلہ ہے‘‘ (آل عمران:20)۔
خود لفظ دین قرآن پاک میں کئی معنوں میں آیا ہے۔ ان میں سے ایک معنی احکام الٰہی کی اطاعت، تنفیذ اور اقامت کے بھی ہیں۔ سورہ نور میں ہے:
’’اور ان دونوں مجرموں کے ساتھ اللہ کے دین میں تم کو رحم نہ آئے‘‘ (نور:1)۔
کھلی بات ہے کہ ’’اللہ کے دین‘‘ سے مقصود یہاں احکام الٰہی کی تنفیذ و اجراء سے ہے، اسی طرح سورہ بقر کی اس آیت میں :
’’اور ان سے اس وقت تک قتال کرتے رہیں کہ فساد نابود ہوجائے اور دین سب خدا ہی کا ہوجائے‘‘ (بقرہ:23)۔
صرف حکم الٰہی کی اطاعت کو ’’دین‘‘ فرمایا گیا ہے۔ سورہ انفال کی اس آیت میں: ’’اور ان لوگوں سے قتال کرتے رہو، یہاں تک کہ فتنہ (کفر کا فساد) باقی نہ رہے اور دین سب خدا ہی کا ہوجاے‘‘ (انفال:4)۔ بھی حکم و قانون الٰہی کی تسلیم و اطاعت ہی کو ’دین‘ فرمایا گیا ہے، یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی اطاعت کے لائق ہے اور نہ عبادت کے۔ اسی کا ایک فیصلہ ہے جو آسمان سے زمین تک جاری ہے۔
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (انعام، یوسف)۔۔۔ اَلَا لَہُ الْحُکْمُ (انعام)
ایک اور آیت میں ارشاد ہے: ’’اور اسی خدا کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کی لازمی اطاعت ہے‘‘ (نحل:7)۔ یہاں بھی دین کے معنی احکام الٰہی کی اطاعت ہی کے زیادہ موزوں اور نظم قرآنی کے مطابق ہے۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔