دہلی کا ایم سی ڈی الیکشن!

صادق ظلی

ایم سی ڈی الیکشن کی تیاریاں زوروں پر ہیں دیواریں پوسٹر بینر سے اٹی پڑی ہیں جا بجا روڈ پر پمفلٹ بکھرے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی انفرادی اجتماعی ملاقاتیں نکڑ سبھائیں جلسے جلوس بائیک ریلی روڈ شو وغیرہ کا سلسلہ بھی جنگی پیمانے پر چل رہا ہے ہونا بھی چاہئے کیونکہ گنتی کے چند ہی دن رہ گئے ہیں چھوٹی بڑی بیشمار پارٹیوں کے ساتھ آزاد امیدوار بھی کثیر تعداد میں طاقت آزما رہے ہیں کچھ کچھ جگہوں سے ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ وہاں ووٹر سے زیادہ امیدوار میدان میں ہیں۔

جمہوریت ہے ہر فرد آزاد ہے کسی کو ہرانے جتانے کا فیصلہ لینے، بذات خود الیکشن لڑنے، سیاست میں بھرپور حصہ لینے یا پھر سیاست سے دور رہنے کا ہر فرد کو برابر برابر کا حق حاصل ہے ہم کسی کو اس کے حق سے نہ تو محروم کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر کسی طرح کا دباو بنا سکتے ہیں دلی والے بھی ایم سی ڈی الیکشن میں پوری طرح سے کمر بستہ ہیں۔

حالیہ دنوں میں جس طرح سے سیاست کی ساری اے بی سی ڈی الٹی ہوئی ہے اور سارے ہی تجزیے تبصرے غلط ثابت ہوئے ہیں اور نتائج امیدوں کے برعکس آئے ہیں اور مقتدر پارٹی کی مضبوط تنظیمی اور زمینی گرفت کو روز روشن کی طرح عیاں کیا ہے اس سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ مخالف پارٹیاں ہوش کے ناخن لیں گی اور اپنے طرز کہن سے ہٹ کر کچھ نیا کریں گی اور مد مقابل سے اپنی بقا کی جنگ حکمت عملی سے لڑیں گی مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا وہی رفتار بے ڈھنگی وہی انداز بچکانہ۔

کراری شکست کے باوجود نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے کوئی اتحاد نہیں کیا ہے یہاں تک کہ بہار میں ایک ساتھ اقتدار کا مزہ لوٹنے والی تین بڑی پارٹیاں آر جے ڈی ، جے ڈی یو اور کانگریس بھی دہلی میں علیحدہ علیحدہ الیکشن لڑ رہی ہیں کیجریوال سے ناراض چل رہے یوگیندر یادو جی بھی کیجریوال کی عاپ کو مات دینے کے لئے اپنی سوراج انڈیا کے ساتھ میدان میں ہیں اور ساری ہی سیٹوں پر اپنے امیدوار اتار رہے ہیں سپا اور بسپا بھی الگ الگ میدان میں ہیں۔

دس سے زاید چھوٹی بڑی مسلم دلت پارٹیوں کا ایک اتحاد بھی میدان میں ہے اور سب سے بڑے سیکولر اسدالدین اویسی کی مجلس بھی اتحاد سے پرے تن تنہا خم ٹھونک رہی ہے بحر حال جس کو جو بہتر لگے ویسا وہ فیصلہ لے میں کون ہوتا ہوں دخل دینے والا مگر سوال تو پوچھ سکتا ہوں اویسی جی سے وہ بھی پورے ادب احترام کے ساتھ کہ حضرت آپ خود کسی اتحاد کی پہل تو کرتے نہیں اور اگر اتحاد ہو کوئی تو اس کا حصہ بننا نہیں چاہے کیوں؟ اپنی ڈفلی اپنا راگ آپ نے بہار میں بھی الاپا اور یوپی میں بھی اب اور کتنا الاپیں گے؟ سنا ہے لوگ اپنے ہی تجربات سے سیکھنا چاہتے ہیں تو کیا دو صوبوں کا تجربہ ناکافی ہے؟ اپنی الگ شناخت کا ہی زعم کیوں صاحب کہیں ایسا تو نہیں آپ پورے ملک کو حیدر آباد سمجھ بیٹھے ہیں ؟
بی جے پی پندرہ سالوں سے ایم سی ڈی پر قابض ہے اور موجودہ صورتحال کہہ رہی ہے کہ آئندہ پانچ سال بھی بی جے پی ہی رہنے والی ہے کیونکہ ایم سی ڈی الیکشن میں سب سے زیادہ تازہ اور توانا وہی دکھ رہی ہے اس نے ایک چھوٹے سے الیکشن کے لئے بھی اپنا اسٹار پرچارک یوپی کے سی ایم یوگی جی کو بنایا ہے جبکہ سیکولرازم کا راگ الاپنے والی پارٹیاں بلکل مردہ اور بے جان سی دکھ رہی ہیں مد مقابل سے لڑنے کے لیے نہ تو ان کے پاس آئیڈیاز ہیں اور نہ ہی کوئی اچھا اور دمدار چہرہ اور نہ ہی اپنی انا کو قربان کر کے اپنی بقا کے لئے متحد ہونے کا جذبہ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔