کون جانے کون سمجھے شام کے لوگوں کا غم!

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی

 سرزمین شام پر ایک مرتبہ پھرسے قیامت برپا ہوئی اور اس مقدس زمین پر بے قصوروں پر ظلم وستم کی ایک اور دردناک اور الم انگیز تاریخ لکھی گئی، ظالموں کی سفاکانہ کاروائی کا نشانہ بننے والے جہاں مرد وعورت تھے وہیں ننھے بچے اور پھول جیسے معصوم کلیوں کو بھی بے دردی کے ساتھ مسل اور کچل کر رکھ دیا گیا۔شام کے شہر ادلب کے ’’خان شیخون ‘‘ کے علاقہ میں کیمیائی بم برسائے گئے اور نہتے مسلمانوں پر سیرین گیس Sarin Gasاستعمال کرکے گھروں کو اجاڑا گیا اور انسانوں کو موت کی آغوش میں بھیج دیا گیا،ظلم وستم کی انتہا اور شقاوت وبدبختی کی حد کردی بشار الاسد کی حکومت نے، اور اپنی درندگیت اور بہیمیت کا کھلے عام مظاہر ہ کیا۔ان بموں سے نکلنے والی تباہ کن گیس سے بچے اور بوڑھے، مرد وعورت اور جوان سبھی تڑپ تڑپ کر موت کا شکار ہوئے۔ جس میں 86سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور درجنوں لوگ زخمی، فوت ہونے والوں میں 27بچے بھی شامل ہے۔کون انسان ہوگا جو اس روح فرسا منظر کو دیکھ کر خاموش رہ جائے اور اس کی آنکھیں اشکبار نہ ہوں، اور دل میں درد کی چبھن نہ محسوس کرے؟تڑپتے بچوں کی تصویروں نے یقینا ہرایک دل کو بے چین کردیا ہے، زہریلی گیس سے متاثر لوگوں اور بالخصوص بچوں کی اذیت نے ہر آنکھ کو نمناک کردیا۔جب ان معصوم بچوں اور بڑوں کی تصاویر نگاہوں سے گزری اور موت کی نیند سوجانے والے چہرے دیکھے تو ذہن ودماغ میں یہ اشعار یاد آنے لگتے، جسے بڑے ہی سوز اور درد کے ساتھ حافظ فہد شاہ نے پڑھاہے ؎

کون جانے، کون  سمجھے  شام  کے لوگوں کا غم

 بکھرے اعضاء،مسلخ لاشیں، ہر طرف رنج والم

  کھلنے سے پہلے کلی  ملبے  تلے  خاموش  ہے

 پھٹنے  لگتا  ہے  جگر جب دیکھتی ہے چشم ِ نم

چند ما ہ قبل شام کے شہر’’حلب ‘‘ کو نشانہ بنایا گیا اور تقریبا چار سالوں میں حلب کے آباد شہر کو ویران کرنے میں اسدی فوج نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، جلتے ہوئے حلب کی ویڈیواور خاک وخون میں بکھری ہوئی نعشیں، ہر طرف پھیلا ہوا خون، ملبوں کے ڈھیر میں دبی ہوئی جانیں، تڑپتی اور چیختی مائیں اور بہنیں، زار وقطار آنسو بہاتے ہوئے بوڑھے اور اپنے ہی ہاتھوں میں پھول جیسے بچوں کی لاشوں کو اٹھائے ہوئے باپ کی تصاویر ابھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوئی تھی اور وہ غم ہی ہلکا نہیں ہوا تھا کہ پھر یہ تازہ زخم اور نیاغم ان ظالموں نے شام کے لوگوں کو پہنچااور پوری ملت کو بے قرارکرکے رکھ دیا، بلکہ پوری انسانیت اس بربریت اور حیوانیت پر چیخ وپکار اٹھی اور جو خاموش رہتے تھے انہوں نے بھی مہر ِ سکوت توڑکر اسے ایک وحشت ناک عمل قراردیا۔جن کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعہ حملہ کیاگیاان کا استعمال تو جنگ میں بین الاقوامی قوانین کی رو سے منع ہے، مگر ان خون کے پیاسوں نے اس کو خاطر میں لائے بغیر اور انسانی جانوں کی قدر وقیمت کا خیال کئے بغیر اور قوانین کی رعایت کے بغیر ان کیمیائی آلات کا استعمال کیا اور نہایت وحشت ناک منظر پیش کردیا، ان ظالموں نے اس کو فراموش کردیا کہ ان معصوم بچوں کی آہیں اور بے قصور مردوخواتین کی سسکیاں ان کی زندگیوں کو برباد کرکے رکھ دے گی،ماؤں کی آہیں اور نالے ضائع نہیں ہوں گے۔

آپ نے ان دو چھوٹے اور بالکل معصوم بچوں کی مردہ تصویر بھی دیکھی ہوگی جسے ان کے باپ نے اپنوں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہے اور غم والم سے چور چور ہے، چناں چہ جمعہ کے روز صدر طیب اردغان سے کیمیائی حملوں کا شکار بننے والے 9ماہ کے جڑواں بچوں کے باپ عبد الحمید الیوسف نے ملاقات کی اور اپنے دکھ اور درد کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ:’’ہمیں امید ہے کہ دنیا ہمارے دکھ کو سمجھے گی،میرے بچے بہت خوبصورت تھے، لیکن وہ پہلے بچے نہیں تھے جو اسد کے ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ہم کتنے صابر ہیں، اس جاری جنگ میں نہ ہم پہلے نشانہ بننے والے ہیں اور نہ آخری نشانہ ہیں، چھ سال سے ہم اپنے بچوں کے لاشے اٹھارہے ہیں۔ ‘‘اس نوجوان نے فرط ِ جذبات میں صدر طیب اردغان کی تسلی،تعزیت اوراظہارِ ہمدردری پر پیشانی کا بوسہ دیتے ہوئے کہاکہ:’’وہ اس کی آخری امید ہیں۔ ‘‘اس جان لیوا کیمیائی حملہ میں الیوسف کے جڑواں بیٹے،بیوی، بہن سمیت خاندان کے20افراد شہید ہوئے ہیں۔ یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں ہے کہ جس کے سامنے اس کا ساراگھر بار تباہ ہوچکا ہواور خوشیوں سے آباد زندگی ویران ہوچکی ہو اور پھر بھی وہ ہمت ہارے بغیر صبر کے پتلے بنے اپنے غم والم کو برادشت کررہے ہیں، اور ان کی نگاہیں امن کے نام نہاد ٹھیکداروں کی طرف اٹھی ہوئی ہیں کہ کوئی تو ہوگا جو ان کے زخموں پر مرہم رکھے گا،کوئی تو ان کے غموں کا مداوا کرے گا،کوئی تو ان کے اجڑتے شہروں کو بچائے گا،کوئی تو ان کی تباہ ہوتی نسلوں کی حفاظت کا بیڑا اٹھائے گا،کوئی تو انہیں ظالموں کے ظلم وستم سے نجات دلانے کی کوشش کرے گا؟؟وہ ہر وقت خدا کے حضور ہاتھ اٹھاکر اپنی بیچارگی، مجبوری اور کسمپرسی کی فریاد کررہے ہیں، اپنے اشکوں سے خدا کے دربار میں اپنے درد وغم کو پیش کررہے ہیں۔

بشار الاسد ظالم نے شام کے لوگوں کو مختلف انداز میں تباہ کیا ہے، وہ جب چاہے بمباریوں کے ذریعہ ان کی عمارتوں، گھروں اور محلے کو ڈھادے، شہروں کو تہس نہس کردے، کوئی اسے روکنے والا نہیں، اب جب چاہے زہریلی گیس اور کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعہ نسل کشی اور انسانیت سوزی کا وحشت ناک کام انجام دے،چناں چہ ابھی بھی تحقیقاتی اداروں نے دعوی کیا ہے کہ شام میں بشار کی حکومت نے مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کی بڑی تعداد چھپارکھی ہے، جسے وقفے وقفے سے استعمال کیا جارہا ہے اور لوگوں میں خوف ودہشت پیدا کی جارہی ہے اور انسانی جانوں کو ضائع کیا جارہا ہے۔

  اس تباہ کن کیمیائی حملے کی اگرچہ زبانی طورپر کچھ مذمت کی گئی اور اس کو جرم قراردیا گیا، اور امریکہ کی جانب سے اس کی دفاعی کاروائی بھی کی جارہی ہے، لیکن صرف زبانی قراردادوں سے اور ہنگامی حالات میں دفاع سے مسئلہ کا پوراحل نہیں ہوگا بلکہ آگے بڑھ کر اس مقدس سرزمین اور یہاں کے باشندوں کو امن فراہم کیا جائے اور ظالم حکومت کے چنگل سے نکالاجائے، اس کے ظلم کے خلاف زبردست کاروائی کی جائے، اس کے معاون ملکوں سے مقاطعہ کیا جائے، یہ ان مظلوم انسانوں کے ساتھ حقیقی خیر خواہی ہوگی اور ان کے دکھ ودرد کو سمجھنا ہوگاورنہ سالوں سے ظلم کی چکی میں پستے انسان ظلم وبربریت سے تھک چکے ہیں اور ان کے گھر ومحلے ویران ہوچکے ہیں۔ شام کی اس صورت حال سے دنیا انسان مضطرب وبے قرار ہے، دل میں انسانیت سے محبت رکھنے والا ہر انسان دکھی وغمگین ہے،اور بالخصوص معصوم بچوں کو ظلم کا نشانہ بنانے پر بہت ہی زیادہ برہم بھی ہے۔ یہ ظالم خود اپنے ہی لوگوں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے لہوسے اپنی داستان ِ حیات کو خون آلود کررہے ہیں اور اپنے شیطان صفت ہونے کا کھلے عام اعلان کررہے ہیں۔

بہرحال ملک شام جس کی عظمت کو نبی کریم ﷺ نے بیان کیاوہ آج ایک عجیب دور سے گزرہاہے اور اہل شام کٹھن مرحلوں سے دوچارہیں، ہر رات کے بعد صبح نمودار ہوتی ہے اور ہر تاریکی کے بعد اجالا ظاہر ہوجاتا ہے، اسی طرح ایک وقت آئے گا جب ظلم کا خاتمہ ہوگا او ر امن وامان نافذ ہوگا، ظلم کی حکومت کا بھی سورج غروب ہوگا اورظالم بھی اپنے انجام کو پہنچیں گے، اس دنیا میں نہ ظلم ہمیشہ رہا اور نہ ظالم  ہمیشہ رہیں گے، کچھ مہلت انہیں حاصل ہے جس کا وہ ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ یہ بھی تاریخ کے بدترین حکمران بن کر رہ جائیں گے اور حالات پر صبر کرنے والے، خدا سے مدد طلب کرنے والے، اور مشکلات میں ثابت قدم رہنے والے ہی سرخرو وکامیاب رہیں گے اور انہیں کی یادیں تازہ اور باقی رہیں گی۔ ہم مسلمان ہیں اور ایک مسلمان کے لئے دعا ایک عظیم بڑا ہتھیار ہے، ہم اس موقع پر ا ن تمام مظلوموں اور ستم رسیدہ لوگوں کے حق میں پروردگار عالم سے التجا کرتے ہیں کہ :اے اللہ ! اہل شام کی مدد ونصرت فرما،رحم وکرم فرما،ان کے مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کی زندگیوں کی حفاظت فرما،امن وامان،عافیت وراحت نصیب فرما،اورسارے عالم کے مسلمانوں کواورتمام انسانوں کوظلم سے نجات عطا فرما،فتنہ وفساد،قتل وغارت گری سے محفوظ فرما۔آمین  

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔