دیار شہر

نظر عرفان

آج کی شام
دیار شہر کے نام

اور میں

گلستان خسرو سے دیارمیر تک

لیتے بلبل بنگال کے نام

تجھے ڈھونڈھا

اور ڈھونڈھتا رہا

اس زندگی کے میلے میں

میں اکیلا

تھیں یہاں ساری مہ جبیں

ماہ رخ بھی تھیں، ماہ پرور بھی

گل و بلبل کی طرح

ہنستے ہنساتے

کھلتے

مختلف رنگوں میں، بکھیرتے رنگین ادائیں

پر نہ دکھی تو

میں دور دور دیکھتا رہا

شاید تو بھی ہو یہاں

کہ

ان دنوں تیرا مسکن

ہے اسی علمی باغچہ کہ کنارے

اور تو بھی آئی ہو

اس علم و ادب کہ میلے میں

ہاں!

تجھے پایا

ذرا دور

شاید تم ہی ہو

قد وہی، رنگ وہی

اور وہی لباس سبز آبی- جو ہے تری پسند

گل رخ، کھلتا بدن، اس چمن میں

ہاں تم ہو،

شاید تم ہی ہو!

میں بڑھا تری جانب

سنبھل کر، اپنے کوسنبھالتے

باؤلا بن کر

 یا یہ میری فطرت

اب کچھ نہ دکھ  رہا تھا مجھے

یہ تھا دیوانگی کا عالم

ترا خاکہ مرے ذھن میں

تھیں اوربھی حسینائیں اس حسین میلے میں

ماہ پارو بھی تھی، مہ جبیں بھی تھی

ماہ رخ بھی تھی

اور نہ جانے تھیں کون کون

کتنوں کے لوں میں نام

 پر ذرا دور!

تری مشابہ –  کوئی اور یا تو ہی!

میں چلتا رہا تری جانب

دیکھتا رہا – – – !

ارے

ہاۓ!

پر نہ وہ  بات تجھ والی!

نہ ادا تمہاری والی، نہ وہ باؤلا پن!

منتظر تھا ترے سلام کا

پر نہ وہ سلام

نہ وہ شناسائی

ارے !

تو نہ تھی

اور، تو نہ تھی

حسرت بھری نگاھوں کے ساتھ

چل پڑا !

پڑی نگاہ گلستان غالب پہ

کیا خوب فرمایا مرزا نوشہ نے!

عشق نے  غالب   نکما   کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے  کام  کے

تبصرے بند ہیں۔