دیار غیر میں اپنے لوگوں پر توجہ؟

  راجہ طاہر محمود

ہمارے بہت سے دوست جو خلیجی ممالک خاص طور پر سعودی عرب میں مقیم ہیں ان کے آئے دن فون اور میسجز کو سن کر اور پڑھ کر لگتا ہے کہ اب ان کے روزگار کا زریعہ ختم ہونے کو ہے اس سلسے میں یہ لوگ بہت پریشان حال ہیں انھون نے کئی سالوں تک اپنے ملک کی خدمت کی مگر ہماری حکومت اور متعلقہ اداروں کی نااہلی کی وجہ سے ان بیچاروں کی مشکلات بڑھتی ہی جا رہی ہیں پاکستان کے ہزاروں ہنر مند افراد کئی خلیجی ممالک میں بر سر روزگار ہیں اور یہ افراد ہر سال کروڑوں کا زر مبادلہ پاکستان بھیج کر ایک طرف تو اپنے خاندانوں کی کفالت کرر ہے ہیں تو دوسری طرف قومی خدمت یعنی زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا بھی باعث ہیں ۔

ان افراد کی بھیجی ہوئی رقوم ہی ہیں جس سے اس ملک کی معیشت ترقی کی طرف گامزن ہیں ان افراد کی دیکھ بھال اور ان کو معاونت فراہم کرنے کے لئے پاکستانی اوور سیز فائونڈیشن اپنا کردار بخوبی ادا کر ہا تھا مگر حالیہ تین سالوں سے جب سے خلیجی ممالک میں معیشتیں کمزور ہوئی ہیں یہ ہنر مند افراد کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جس میں سب سے پہلے ان افراد کی جاب سیکیورٹی ہے ان لوگوں کو کسی بھی وقت نوکری سے نکال دیا جاتا ہے وجہ بتائے بغیر بہت سے لوگوں کی تنخواہیں روک لی جاتی ہیں اور اگر یہ بیچارے کسی سے اپنی تنخواہ کا تقاضا کریں تو ان کا خروج لگا کر وطن واپس کر دیا جاتا ہے اور کچھ دیا بھی نہیں جاتا اس طرح کے کئی کیس میڈیا کی زینت بھی بن چکے ہیں ایسے میں بہت سے بیچارے لوگوں کے گھروں کا چولہا ہی ان کی محنت سے جل رہا تھا مگراب تو ان کے گھروں میں نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔

دوسری طرف حکومت بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہے اور اوور سیز پاکستانی فائونڈیشن کا کردار تو ان لوگوں کے لئے کچھ بھی نہیں دوسرے الفاظ میں یہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کی بھیجی گئی رقوم کی وجہ سے اس ملک کی معیشت مضبوط ہو تی ہے مگر جب بات ان کی ذات کی آئے تو کوئی امداد نہیں ایسے میں بہت سے لوگ پریشانی کے عالم میں دیار غیر میں پڑے ہوئے ہیں کہ شاید کوئی مسیحا ان کے دکھ درد کا مداوا کر دے شاید حالات بہتر ہو جائیں مگر شاید ہماری حکومت کو اپنے جھمیلوں کی پڑی ہے جس کو یہ بھی نہیں پتا کہ اگر ان لوگوں کا روز گار چلا گیا تو ملک میں غربت اور بے روزگاری کا ایک طوفان آجائے گا جس کو روکنا ناممکن ہو گا۔

بہت سے خلیجی ممالک اپنے ہاں غربت کے خاتمے کے لئے اور معیشت کی بہتری کے لیء بہت سے شعبہ جات پر قدغن لگانے کا سوچ رہے ہیں اور اس کے لئے کئی طرح کے اقدامات کر بھی لئے گئے ہیں ایسے اقدامات سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہی ہوتا نظر آرہا ہے ان ممالک میں سعودی عرب سر فہرست ہے سعودی عرب کی وزارت سول سروسز نے تمام سرکاری اداروں کو حکم دیا ہے کہ 3 سال کے اندر تمام غیر ملکیوں کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا جائے۔

گزشتہ برس سے سعودی عرب کی تیل کی آمدنی میں کمی آئی ہے جس کے بعد حکومت نے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی ہے سعودی حکومت نے وژن 2030ء کے تحت ایک ایسے منصوبے کا اعلان بھی کر رکھا ہے جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ مقامی افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کرناہے اس منصوبے کے تحت سعودی حکومت تیل کی کمائی کے بغیر چھوٹے’ بڑے اور درمیانے درجے کی سرمایہ کاری اور کاروبار کے منصوبے شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے سعودی گزٹ کے مطابق سول سروسز کے ڈپٹی وزیر نے تمام متعلقہ اداروں کو حکم دیا ہے کہ 2020  کے بعد کوئی بھی غیر ملکی نوکری پر نہ ہو ڈپٹی وزیر کی صدارت میں منعقدہ اجلاس کو بتایا گیا کہ گزشتہ برس کے اختتام تک ملک بھر میں 70ہزار غیر ملکی افراد نوکری کر رہے تھے سعودی حکومت وژن 2030ء کے تحت مکمل طور پر تمام سرکاری نوکریاں قومی اور مقامی افراد کو دینا چاہتی ہے اس سے قبل سعودی گزٹ نے 2017ء میں بتایا تھا کہ سعودی حکومت نے نومبر 2016ء سے اب  تک 39ہزار پاکستانیوں کو بے دخل کیاہے رواں برس اپریل میں سعودی عرب کی وزارت محنت نے تمام شاپنگ ہالز میں غیر ملکی خواتین و مردوں کے کام کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے وہاں مقامی افراد کو تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی نے تیل برآمد کرنے والے ملکوں کو بہت متاثر کیا ان کی معیشت کو اس صورتحال سے بہت جھٹکا لگا چنانچہ آمدنی میں کمی کے باعث متبادل راستے تلاش کئے گئے اسی پس منظر میں سعودی حکومت نے 2020ء تک تمام نوکریاں اپنے شہریوں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے اور شاپنگ مالز سے اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

 اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان بھی متاثر ہوا ہے اور اس کے کارکن بے روزگار ہوئے ہیں جو کہ تشویش کی بات ہے یہ صورتحال ہمارے لئے خطرناک ہے سی پیک کے ذریعے جن لاکھوں نوکریوں کی بات کی جارہی ہے ان کے حوالے سے ابھی تک کوئی واضح نقشہ سامنے نہیں آیا سعودی عرب سے کارکنوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جو ملک میں بے روزگاری میں اضافے کا باعث ہے وزیراعظم کو ہنگامی طور پر دیگر عرب ممالک سے رابطہ کرکے اپنے ذاتی اثرورسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے افرادی قوت  کی برآمد کے حوالے سے یہ اقدامات کرنے چاہئیں اگر اس طرف فوری توجہ نہ دی گئی تو ملک کی معاشی صورتحال مزید ابتر ہوسکتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بلی کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھنے کے بجائے اپنے لوگوں اور خاص طور پر اپنے ہنر مند افراد کی فلاح وبہبود کے لئے میدان عمل میں آئے اور بیرونی دنیا سے ایسے لوگوں کی فلاح و بہبود کی بات کرئے تاکہ وطن عزیز کے ان لوگوں کے روزگار کو محفوظ بنایا جا سکے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔