دیدار

سالک جمیل براڑ

رات کا تقریباً ایک بج رہاتھا۔ پورا شہر سناٹے میں ڈوباتھا۔ ایسے میں شہرسے باہر بائی پاس پردوتین چائے کی دوکانیں کھلیں تھیں۔ انہی دوکانوں میں سے ایک دوکان بنسی چائے والے کی تھی۔ بنسی کی یہ دوکان نام کی ہی چائے کی دوکان تھی۔ ورنہ یہ تو بھنگی، شرابی، کبابی، افیمچی اور چرسیوں کا اڈّہ تھا۔ بنسی خودبھی اسی قماش کا آدمی تھا۔ شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے پچھلے کچھ دنوں سے روزانہ بائی پاس پرپولیس کی ریڈ پڑ رہی تھی۔ اسی لیے آج سبھی دوکانوں پر اکّا دکّا آدمی ہی بیٹھے تھے۔ بنسی کی دوکان کے آگے پڑے بینچوں پر چار بیکارآدمی بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔

’’یارگامے!…………آج جیرونہیں آیا‘‘ظفر ے نے بیڑی کا ایک لمباکش لیتے ہوئے پوچھا۔

’’ابے سالے!………تجھے نہیں معلوم‘‘ظفرے کے سامنے پڑے بینچ پر بیٹھے گامے نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا۔

’’اسے توخودکاہوش نہیں رہتا………رات کوزیادہ پی لیتاہے……پھر سارا دن کسی نالے میں پڑارہتا ہے‘‘ظفرے کے ساتھ ہی بینچ پربیٹھے کالو نے طنزکیا۔

’’اوئے کالو!……سالے زبان سنبھال کر بات کر………ورنہ‘‘ظفرے کی آنکھوں میں خو ن اترآیا۔

’’ورنہ……توکیاکرلے گا‘‘کالوبھی مرنے مارنے پراترآیا۔

’’سالے!………کتّوں نے بھونک بھونک کرسارانشہ ہی اتاردیا‘‘سیلونے سر کھجاتے ہوئے خاموشی توڑی۔ اس نے آدھاگھنٹہ پہلے افیم کھائی تھی۔

چندلمحوں کی خاموشی کے بعد ظفرے نے دوبارہ گامے سے پوچھا۔

’’گامے!………چل بتاجیروکیوں نہیں آیا۔ ‘‘

’’حد ہے یار………تمہیں نہیں معلوم………اس کی ماں کا ٹکٹ لگ گیا ہے۔ ‘‘ گامے نے افسوس بھرے لہجے میں اسے بتایا۔

’’بس کریارگامے!……تجھے گولے ہانکنے کے سواکوئی اورکام نہیں ……

’’اوئے کالو!………ادھرکوہٹ جا……کہیں گولوں کے نیچے نہ آجانا۔ ‘‘

ظفرے کو گامے کی بات پریقین نہ آیا۔

’’اچھّا……اگرمیں جھوٹ بولوں ……توتم مرجاؤ‘‘گامے نے جواب دیا۔

’’ہاں ……گاماٹھیک کہہ رہاہے۔ ……ہم لوگ ابھی ابھی قبرستان سے واپس آئے ہیں ……چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ مجھے توبہت ڈرلگ رہاتھا۔ ‘‘کالونے گامے کی تائیدکرتے ہوئے کہا۔

’’ تم تو………دنیاکے سب سے بڑے ڈرپوک ہو‘‘ظفرے نے ایک اور بیڑی سلگاتے ہوئے کہا۔

’’اچھّا………تم توبہت بہادرہو……تبھی توروزبیوی سے مارکھاتے ہو… …باتیں یوں کرتے ہو جیسے سکندرہو……اگردم ہے تواکیلے قبرستان میں جاکردکھا۔ ‘‘ کالو نے ظفرے کوچیلنج کیا۔

’’شرط لگا……اگر میں چلاگیا۔ ‘‘ظفرے نے شرط لگانے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔

’’ٹھیک ہے………لگی پانچ پانچ سوروپے…………تم کل رات کو بارہ بجے کے بعداکیلے قبرستان جاؤگے‘‘کالونے ظفرے سے ہاتھ ملاکر شرط پکی کرلی۔

’’نہیں یار…………ساری قبروں پرکھیررکھ کر آنی پڑے گی‘‘گامے نے شرط میں اضافہ کیا۔

’’مجھے ہر طرح کی شرط منظور ہے۔ ‘‘ظفرے نے اکڑتے ہوئے کہا۔

’’ٹھیک ہے………دونوں میرے پاس شرط کے روپے جمع کروادو…… …جوشرط جیتے گا……وہ رقم لے لے گا۔ ‘‘گامے نے کہا۔

اگلی رات کے تقریباً بارہ بج رہے تھے۔ پورا قبرستان اندھیرے میں ڈوباہواتھا۔ ہر طرف سناٹاچھایاہواتھا۔ سائیں سائیں کی دھیمی دھیمی آواز یں آرہی تھیں۔ پورے قبرستان میں صرف دوبلب روشن تھے۔ ظفر بے خوف ہوکراطمینان سے قبروں کے پاس کھیررکھ رہا تھا۔ وہ اکثر قبرستان میں آتاتھا۔ کیونکہ وہ قبرستان سے سوکھا۱؎ مل کر بیچنے کاکام کرتاتھا۔ اور خودبھی سگرٹوں میں بھرکر پیتا تھا۔ ظفرے نے چندہی منٹو ں میں آدھی سے زیادہ قبروں کے پاس چمچ چمچ کھیررکھ دی۔

’’کالو، گامااورسیلوقبرستان کے باہرکھڑے تھے۔

’’یارگامے………ظفرے نے توآدھاکام کردیاہے………اگرتم دونوں مجھے یہ شرط جیتوادوتو………تومیں تم دونوں کوایک ایک بوتل دوں گا………وہ بھی انگریزی۔ کالو نے لالچ دی۔

’’کالو………بس تم شرط جیت گئے۔ ‘‘گامے نے بوتل کے نام پر ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔

’’وہ کیسے؟‘‘سیلونے سوالیہ اندازمیں پوچھا۔

’’بس……تم دیکھتے جاؤ……باقی کاکام میراہے……آؤ میرے ساتھ ‘‘یہ کہتے ہوئے گاماان کے آگے چل پڑا اور وہ دونوں اس کے پیچھے پیچھے۔ اب وہ تینوں قبرستان کے اندرچلے گئے تھے۔ قبرستان میں ایک بہت بڑا برگد کا پیڑ تھا۔ گامے نے کالو اور سیلوکوپیپل کے پیچھے چھپ کرتماشہ دیکھنے کے لیے کہاا ورخودظفرے کی طرف چل پڑا۔

گامے نے اپناقمیض اتاردیا اور مونہہ پرمٹی پوت لی۔ جسم تواس کا پہلے ہی کالاتھا۔ وہ ایک دبی ہوئی قبر میں جاکربیٹھ گیا۔ چندلمحوں کے بعد ظفرا وہاں آیا اور قبرکے پاس کھیررکھ کر جیسے ہی  آگے بڑھا۔ اسے یہ الفاظ سنائی دئیے اور ایک ہاتھ قبرسے باہرنکلا۔

’’بیٹا ظفرے………مجھے بھی کھیردے جاؤ‘‘

ظفرے کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ وہ وہیں بت بن گیا۔ تبھی قبرستان کے

۱؎  ’’سوکھا‘‘ایک جنگلی پوداہے جس کے پتّوں کورگڑکرسگرٹوں میں بھرکر پیتے ہیں۔

سناٹے بھرے ماحول کو چیرتی ہوئی ایک چیخ نمودارہوئی۔ جس قبر میں گاماکھڑاتھا۔ اس قبرمیں سانپ تھا۔ جس نے گامے کو ڈس لیاتھا۔

ظفرے نے جیسے ہی یہ چیخ سنی اس نے فوراً پیچھے مڑکردیکھا۔ کہ ایک قبر میں کوئی بھوت کھڑا ہے۔ اس کا بدن سیاہ ہے۔ اوراس کے مونہہ سے ہری ہری جھاگ نکل رہی ہے۔ اوراس کی آنکھیں باہرکونکلی ہیں۔ وہ اس طرح ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔ جیسے وہ ظفرے کواپنی بانہوں میں بھر لے گا۔ ظفرے کے دل کی دھڑکن تیز ہوگی۔ اور پھردیکھتے ہی دیکھتے اسے ہارٹ اٹیک ہوگیا۔ اوروہ زمین پر ڈھیرہوگیا۔

کالو اور سیلوبھاگتے ہوئے ان کے پاس پہنچے۔ لیکن وہ دونوں تومرچکے تھے۔ انہوں نے دونوں کو بہت ہلایاجلایا۔ مگر افسوس وہ کامیاب نہیں ہوئے۔

’’اوئے سیلو!………چل بھاگ یہاں سے………نہیں توان کا خون ہمارے گلے پڑ جائے گا‘‘کالو نے سیلوکو بازوسے پکڑکرکھینچتے ہوئے کہا۔

اب کالواورسیلو قبرستان سے بہت دورآچکے تھے۔

’’یار………بہت برُاہوا……مذاق مذاق میں دونوں بے موت مارے گئے۔ ‘‘ کالوکی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔

’’ہاں یار!……واقعی بہت برُاہواہے……کاش تم شرط جیت جاتے… … …توآج ہم بھی انگریزی بوتل کا دیدار کرلیتے۔ ‘‘سیلونے افسوس بھرے لہجے میں جواب دیا۔

تبصرے بند ہیں۔