دینی مدارس – محب ِ وطن ادارے اور امن ومحبت کے گہوارے

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

    دینی مدارس کی ایک روشن اور تابناک تاریخ ہے۔ برصغیر میں اسلام کی حفاظت اور ملک وملت کی صیانت میں مدارس نے ایک ناقابل ِ فراموش کردار ادا کیا ہے۔ مدارس اپنے روز ِ قیام ہی سے اپنے اہداف اور مقاصد میں کامیاب رہے ہیں اور آج بھی پوری کامیابی کے ساتھ نہ صرف عظیم دینی خدمات انجام دے رہے ہیں بلکہ مدارس ہی کا فیضا ن ہے کہ ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا ہے۔ یہ ایک سچی حقیقت ہے کہ اہل ِ مدارس نے جس قدر اپنے وطن سے محبت کی ہے اور اس کی حفاظت کے لئے جان وتن کو لٹایا ہے وہ ایک عظیم کارنامہ ہے۔ 1857؁ء کی ناکامی کے بعد وطن عزیز کی حفاظت اور دین اسلام کے تحفظ کے لئے جو اقدامات کئے گئے ان میںسے ایک مدارس ِ اسلامیہ کا قیام ہے۔ چناں چہ 1866؁ء میں دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی، اور اسی کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں دینی مدارس کا باضابطہ سلسلہ شروع ہوا، دینی مدارس کے قیام کا پس ِ منظر جہاں اسلامی تشخص کی حفاظت اور دینی شعائر کی بقا تھا وہیں ملک و وطن کی آزادی کے لئے جوانمردوں اور جیالوں کو تیار کرنا تھا، ایسے افراد کو فراہم کرنا جو بے لوث اپنے ملک اور ملت کے لئے خدمت کرنے والے ہوں، اپنی صلاحیتوں کو لگاکر اس گلشن کی آبیاری کرنے والے ہوں، دشمن کے ناپاک قدموں سے اسے آزادی دلانے والے ہوں اور اس ملک کی تہذیبی ورثہ، آپسی بھائی چارگی اور محبت ومودت کی فضاؤں کوبچانے والے ہوں۔

    ان مدارس کا رشتہ صفہ ٔ نبوی ؐ سے ملتا ہے، جہاں پر معلم ِانسانیت، محسن ِکائنات سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے تعلیم دے کر ہیروں کو تراشا تھا اور دنیا کے سامنے امن ومحبت کے خوگر اور الفت و وفا کے شیدائیوں کو پیش کیا تھا، جن کی تمام تر تعلیمات انسانیت کی بھلائی اور خیر پر مشتمل ہیں اور جو ساری انسانیت کے ہمدرد و غم خوار بن کر تشریف لائے اور قدم قدم پر محبتوں کی تعلیمات عطافرمائی، ایثار و ہمدردی کا سبق پڑھااور دلوں سے نفرتوں کو نکال کر محبتوں کو پیوست کیا۔ دنیا میں آباد تمام مدارس کا رابطہ اسی صفہ نبوی ؐ سے ہے، لہذا اس کے اثرات اور برکات بھی مدارس میں برابر ظاہر ہیں۔

    دینی مدارس نے شروع ہی سے محبتوں اور الفتوں کا پیغام دیا ہے، ان کی فضا میں ہی ایثار وقربانی رچی بسی ہوئی ہے، یہاں کا ذرہ ذرہ اہل ِوفا کی عظمتوں کے گن گاتا ہے، مدارس کے درو دیوار گواہی دیتے ہیں کہ اس کی چہار دیواری میں پل بڑھ کر انسانیت کے خادم اور محسن تیار ہوتے ہیں، امن و سلامتی کے علمبرارجنم لیتے ہیں، ساری انسانیت کا دکھ درد اپنے سینے میں رکھنے والے بے لوث افراد نکلتے ہیں۔ مدارس کی اسی عظیم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں:میں مدرسہ کو نائبین رسول وخلافت ِ الہی کافرض انجام دینے والے اور انسانیت کو ہدایت کا پیغام دینے والے اور انسانیت کو اپنا تحفظ و بقا کا راستہ دکھانے والے افراد تیار کرنے والوں کا ایک مرکز سمجھتا ہوں، میں مدرسہ کو آدم گری اور مردم سازی کا ایک کارخانہ سمجھتا ہوں۔ ۔ ۔ جب دنیا میں ہر حقیقت کا انکا رکیا جارہا ہو اور یہ کہا جارہا ہوکہ سوائے طاقت کے کوئی حقیقت ہے ہی نہیں، جب دنیا میں ڈنکے کی چوٹ پر کہا جارہا ہو کہ دنیا میں صر ف ایک حقیقت زندہ ہے اور سب حقیقتیں مرچکیں، اخلاقیات مرچکے، صداقت مرچکی، عزت مرچکی، غیرت مرچکی، شرافت مرچکی، خودداری مرچکی، انسانیت مرچکی، صرف ایک حقیقت باقی ہے اور وہ نفع اٹھاناہے اور اپنا کام نکالنا ہے۔ وہ ہر قیمت پر عزت بیچ کر، شرافت بیچ کر، ضمیر بیچ کر، اصول بیچ کر، خودداری بیچ کر صرف چڑھتے سورج کا پجاری بننا ہے، اس وقت مدرسہ اٹھتا ہے اور اعلان کرتا ہے انسانیت مری نہیں ہے، اس وقت مدرسہ اعلان کرتا ہے کہ نقصان میں نفع ہے، ہارجانے میں جیت ہے، بھوک میں وہ لذت ہے جو کھانے میں نہیں، اس وقت مدرسہ یہ اعلان کرتا ہے کہ ذلت بعض مرتبہ وہ عزت ہے جو بڑی سے بڑی عزت میں نہیں، اس وقت مدرسہ اعلان کرتا ہے کہ سب سے بڑی طاقت خدا کی طاقت ہے، سب سے بڑی صداقت حق کی صداقت ہے۔ ( مدرسہ کیا ہے؟18)

    ہندوستا ن میں اگر دینی مدارس کی بے لوث خدمات اور وطن کے لئے پیار ومحبت دیکھنا ہوتو پھر اس کے لئے کم از کم ایک مرتبہ تحریک ِ آزادی پر نظر ڈالنا ہی پڑے گا، وطن ِ عزیز کی آزادی کی تاریخ اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک کہ اہل ِ مدارس کے جیالوں کے کارناموں کو نہ پڑھا جائے، ان کی قربانیوں کو نہ دیکھا جائے، اور ملک وطن کے لئے ان کے جذبہ ٔ ووفا کا مطالعہ نہ کیا جائے۔ ہندوستان سے محبت کرنے کا سلیقہ ان مدرسے والوں نے سکھایا ہے، ہندوستان کو امن کا گہواہ بنائے رکھنے میں ان مدرسے والوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

           ؎  اس بزم ِ جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تک      ہیں عام ہمارے افسانے دیوارِ چمن سے زنداں تک

           سو بار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو        یہ اہل ِجنوں بتلائیں گے کیاہم نے دیا ہے عالم  کو

     انگریزوں کے خلاف آواز لگانے والے، اور آزادی کے نعرے بلند کرنے والے پہلے علماء اور اہل مدارس ہی تھے، جو کسی قیمت پر ملک اور ملت اور یہاں کے بسنے والے لوگوں کو غلامی کی طوق میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ چھوٹی، بڑی تحریکوں کے ذریعہ، زبان وقلم اور فکر وتڑپ کے ساتھ تحریک ِا ٓزادی میں آگے بڑھنے والے یہی بوریہ نشین تھے، اور بطور خاص علمائے دیوبند نے اس جنگ میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا۔ تاریخ ِدیوبند کے مؤرخ سید محبوب رضوی لکھتے ہیں کہ:علمائے دیوبند ہمیشہ اولوالعزمی اور توکل علی اللہ کے ساتھ نہ صرف ہندوستان کی تحریک ِآزادی کی جد وجہد کرنے والوں کی صف ِاول میں رہے، بلکہ اکثر اوقات انھوں نے تحریک آزادی کی قیادت کی ہے اور زیادہ غور سے دیکھا جائے اور انصاف سے کام لیا جائے تو اول اول یہ خیال انھوں نے ہی دیا، آزادی کے جذبے میں جو حرارت، طاقت اور عمومیت پیدا ہوئی وہ انھیں کی رہیں منت تھی، ان میں متعدد حضرات نے انگریزی حکومت کے خلاف علم جہاد بلند کیا، انگریزی فوجوں سے دوبدو جنگ کی، متعدد افراد ایسے تھے جنھوں نے اپنی زندگی کا خاصہ حصہ جیلوں میں گزارا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ علما اور دینی شخصیتوں کی تاریخ اس ساتھ اس طرح گھل مل گئی ہے کہ ایک کو دوسرے سے جدا کرنا بہت مشکل ہے۔ ۔ ۔ ۔ دار العلوم سے آزادی کے مجاہدوں اور قوم کے خدمت گزاروں کی ایک ایسی جماعت پیدا ہوئی جس سے ملت کی پیشانی کو تابندگی ملی، انھوں نے ملک کو محکومی اور غلامی کی زندگی سے نکال کر دنیا کی آزاد قوموں میں حصہ دلانے کے لئے عظیم قربانیاں دیں۔ ( تاریخ دارالعلوم دیوبند:1/501)

       شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒجو تحریک آزادی کے ایک بڑے مجاہد اور قوم وملت کے بہت ہی غم گسار بن تھے اور جو اسی آرزو میں قید وبند میں مبتلابھی رہے اور اذیتوں کو بھی جھیلا۔ جنھوں نے 1913؁ء میں انگریزوں کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی اسکیم تیار کی جسے رولٹ کمیٹی کی رپورٹ میں ’’ریشمی خطوط‘‘ کے نام سے تعبیر کیا گیا۔ خان عبد الغفارخان نے اپنے دورہ ہند کے موقع پر دارالعلوم میں خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ:حضرت شیخ الہند مولانامحمود حسن صاحب جب حیات تھے اس وقت سے میرا تعلق دیوبند سے ہے، ہم یہاں بیٹھ کر آزادی کی تحریک کے پلان تیار کیا کرتے تھے کہ کس طرح انگریزوں کو اس ملک سے نکال باہر کریں اور کس طرح ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا دلاکر آزاد کرائیں۔ (تاریخ دارالعلوم دیوبند:1/512)

     انہیں مدارس کے پرعزم جیالوں نے 1919؁ء میں جمعیۃ علما ء ہند کا قیام عمل میں لایا۔ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب ؒفرماتے ہیںکہ:چناں چہ آزادی کی تحریکات شروع ہوتے ہی یہ مدارس کی بے شمار جماعتیں رسمی طور پر بھی منظم ہوگئیں۔ اور انہوں نے جمعیۃ العلماء کے نام سے جنگ آزادی میں حصہ لے کر ملک کی جو شاندار سیاسی خدمات انجام دیں اور جوبے نظیر قربانیاں پیش کیں تاریخ اس سے انکار نہیں کرسکتی۔ جمعیۃ العلماء کے افراد پر شخصی حیثیت سے نکتہ چینی ہر وقت ممکن ہے، لیکن اس کے اصول و مقاصد اور اس کے تحت مجموعی حیثیت سے اس تنظیم مدار س کی لائن سے میدان میں نہ آتی تو عوام کا اس طرح آوازہ ٔ آزادی کا خیر مقدم کرنا عادۃ مشکل تھا۔ ( خطبات حکیم الاسلام :9/257)

      دینی مدارس میں صبح و شام قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، اور قرآن وسنت کی تعلیمات کے زمزمے گونجتے ہیں، اگر ہم دیکھیں تو قرآن نے امن ومحبت کی بھر پور تعلیم دی ہے، اور نبی کریمﷺ نے احترام ِ انسانیت کی تلقین فرمائی، اور انسانوں کو محبتوں کا خوگر بنایا۔ قرآن وحدیث سے بڑھ کر کہیں امن و محبت کی تعلیم نہیں ملے گی، جس قرآن میںکسی فرد کو ناحق قتل کرنے کو تمام انسانوں کو قتل کرنے کے مترادف قراردیا گیا ہے ؛ ارشاد ہے :ومن قتل نفسا بغیر نفس اور فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا  ومن احیاھا فکانما احیاالناس جمیعا۔ ( المائدۃ :32)’’جو کوئی کسی کو قتل کرے، جب کہ یہ قتل نہ کسی جان کابدلہ لینے کے لئے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانو ں کو قتل کردیا، اور جوشخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ ‘‘اور جس نبی ﷺ کی عظیم تعلیمات میں سے یہ ہے کہ:المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، وفی روایۃ من سلم الناس۔ ( بخاری :حدیث نمبر ؛9۔ نسائی : حدیث نمبر؛4935)مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ جس سے لوگ سالم و محفوظ رہیں۔ ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:المؤمن من امنہ الناس علی دماء ھم واموالھم۔ (ترمذی: حدیث نمبر؛2570)مومن وہ ہے جس سے دوسروں کی جانیں اور مال محفوظ رہیں۔ مسلمان اور مومن کے معنی ہی امن پسند کے ہیں، جو امن دینے والا بھی ہوتا ہے اور اپنی ذات کے اعتبار سے پُر امن بھی ہوتا ہے۔

    جن اداروں میں صبح و شام یہ تعلیمات دی جاتی ہوں اور جہاں پڑھانے والے اساتذہ اور پڑھنے والے طلباء مسلسل اس بات کی کوشش میں لگے رہتے ہوں کہ سیرت ِ نبوی کی جھلک زندگیوں میں آجائے، اور ایک مسلمان واقعی اسوہ ٔ رسول ؐ کاثبوت پیش کرنے والا بن جائے، جس نبی کریم ﷺ کی پوری سیرت رحم وکرم، امن وسلامتی، محبت و الفت سے بھری ہوئی ہے، جس نبی ﷺ نے اپنے ہر عمل سے اور قول سے امن و محبت کی تعلیمات دی ہیں، اور جو نبی ساری انسانیت کے لئے امن و محبت کی تعلیمات لے کر آیا ہے، کیا بھلا ان اداروں میں غیر امن چیزوں کی توقع بھی کی جاسکتی ہے؟دینی اداروں کی کامیابی یہ سمجھی جاتی ہے کہ یہاں سے ایک اچھا انسان بن کر طالب علم دنیا میں جائے، جو اپنے دین میں کامل، اپنے اخلاق میںمکمل، اور اپنے ملک کا وفادار ہو۔ اس کے لئے محنتیں کی جاتی ہیں، طلباء کو الفت و محبت کا درس دیا جاتا ہے، نبی ٔ رحمت کی تعلیمات سے آگاہ کیا جاتا ہے اور کامیابی کی معراج قراردی جاتی ہے کہ زندگی اسوہ نبوی کے سانچے میں ڈھل جائے اور اداادا سے سیرت رسول کی روشنی، اخلاق نبوی کے کرنیں پھوٹنی لگیں۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ مدارس کے فارغین اپنی بساط کے مطابق ہمیشہ ملک کی خیر خواہی میں ہی لگے رہے اور انہوں نے انسانوں کو اخلا ق وشرافت کا سبق پڑھا کر ایک اچھا انسا ن بننے کی کامیاب کوشش کی ہے، اور آج بھی معاشرہ کو نیک اور پاک بنانے کی تمام تر فکریں اوڑھے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں، شرابیوں کو شراب کی لعنت سے بچانے، سود خوروں کو سود سے محفوظ رکھنے، ظلم و زیادتی کرنے والوں کو روکنے، لوٹ کھسوٹ سے منع کرنے، خاندانی حقوق، معاشرتی حقوق، علاقائی حقوق، ملکی حقوق کو اداکرنے کی تعلیم دینے والے یہی مدارس کے فضلاء اور فارغین ہوتے ہیں۔ جو معمولی تنخواہوں کے باوجود ایک اچھے معاشرہ کی تعمیر میں اپنی زندگیوں کو ختم کردیتے ہیں۔

     جس ملک کے لئے اہل ِ مدارس نے اپنا سب کچھ قربان کیا، اپنی تمناؤں کو مٹاکر ملک وملت کی حفاظت کے کئے جانیں دیں، آج اسی ملک میں ان مدارس کو اور اہل ِ مدارس کو شک بھری نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے، مدرسہ میں پڑھنے والے طلباء پر دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں، امن ومحبت کے گہواروں کو دہشت گردی کے اڈے قراردینے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔ دریدہ دہن، اور تعصب پسند و فرقہ پرست افرادمسلمانوں اور مداراس کے خلاف زہر اگلتے ہیں، اور من مانی باتیں بے دریغ اور بے خوف وخطر کہہ کر الفت ومحبت کے ماحول کو اور بھائی چارگی کی فضاء کو مکدر کرنے پر ہیں۔ مدرسہ کے طلباء کو جگہ جگہ پکڑکر انہیں ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، ٹرینوں میں اور سفر کے دوران انہیں ہراساں کیا جارہاہے، ابھی چند دن قبل ورنگل ( ضلع تلنگانہ )تقریبا 27 طلباء اور چار مدرسین کو پکڑا گیا جو حیدرآباد میں تعلیم کے لئے بہار سے آرہے تھے، جمعیۃ علماء تلنگانہ کی کوشش اور مقامی جمعیۃ علماء کی جد وجہد سے ان کی رہائی ہوئی اور مقدمات سے بری کیا گیا، اسی طرح دارالعلوم دیوبند کے ایک مؤقر استاذ دیوبند ہی کے قریبی گاؤں سے واپس ہورہے تھے ان کی گاڑی پر پتھراؤ کیا گیا، اللہ تعالی نے حفاظت کی اور وہ سلامتی کے ساتھ وہاں سے نکل گئے، اسی طرح یوپی، گجرات وغیر ہ میں آئے دن طلبائے مدارس کے ساتھ ناروا سلوک کی خبریں اخبارات میں آتے رہتی ہیں۔ ہندوستان میں موجود فرقہ پرست اور تشدد پسند لوگ اور جماعتیں جہاں مسلم نو جوانوں کو پریشان کررہے ہیں، گاؤکشی کے نا م پر ظلم وستم ڈھارہے ہیں اور میڈیا بھر پور ان کا ساتھ دینے میں لگا ہوا ہے وہ جہاں چاہے مدارس اور علما ء کے خلاف بھی پروپیگنڈے کررہے ہیں۔ یقینا یہ سلوک ظالمانہ ہے اور ملک وملت کے محسنوں کے ساتھ انتہائی معاندانہ ہے۔

    ان حالات میں ہم مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ ہم مدارس کے کردار اور اہل ِ مدارس کی عظیم قربانیوں کو مختلف عنوانات کے تحت پیش کریں، برادران وطن کے سامنے ان کی محبتوں اور وفاؤں کے تذکرے کئے جائیں، ملک ملت کی سالمیت مدارس کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی جائے، اور ساتھ میں مسلمانوں کے خلاف چلائی جانے والی مہم اور منصوبہ بند ساز ش کے خلاف اتحاد کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کی جائے۔ یقینا ہر مدرسہ چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر کا ہو وہ ہمارا ہے، وہ طلبہ ملک و ملت کا سرمایہ ہیں، ان کی حفاظت کی فکر ہماری ذمہ داری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔