دینی مدارس کا مدافعانہ مزاج

برصغیرہندوپاک میں دینی مدارس اپنے موجودہ نصاب ونظام ِتعلیم کے اعتبارسے ڈیڑھ پونے دوسوسال پرانے ہیں۔ مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد ‘دینی تعلیم’ کے ذریعہ مسلمانوں کی مذہبی شناخت اور دینی کردار کو باقی رکھنے کے لئے  ان اداروں کا قیام عمل میں آیا۔  اس سلسلے میں اہل مدارس کا خوداپنے متعلق کیا خیال ہےوہ مدارس کے لئے مستعمل ایک تشبیہ سے بخوبی سمجھ میں آتاہے۔ دینی مدارس کو اکثر  اسلام کے ‘قلعہ’ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ حقیقتِ واقعہ کی ترجمانی بھی ہے اور مدارس کے نفسیات کی عکاسی بھی۔

آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ چند باتوں کی طرف اشارہ کردیا جائے۔ پہلی بات یہ کہ ان مدارس کا قیام، جیسا کہ پہلے گزرا، مسلمانوں کے سیاسی زوال کے زمانہ میں ہوا  ۔دوسری بات یہ کہ سیاسی زوال کے ساتھ ساتھ علماء کی حکومتی  سرپرستی بھی ختم ہوگئی۔ مگر بات صرف عدم تحفظ کی نہیں تھی ۔بااقتدار قوم علوم و فنون اور ادب و تہذیب کے جس لاؤ لشکر کے ساتھ یہاں نمودارہوئی  اس نے علماء کی سماجی حیثیت کو بھی متاثر کیا ۔ تیسری بات یہ کہ طبقہء علماء نے بحیثیت مجموعی، انگریزوں کو ہمیشہ ناپسند کیا  اورانہیں غاصب سمجھا  ۔حالات کے اعتبار سے انگریزوں کے متعلق ان کی پالیسی تبدیل ہوتی رہی مگر ان کی ناپسندیدگی میں کبھی کمی نہیں آئی ۔ انگریزوں کی مکاری اور ظلم و نا انصافی کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا غم و غصہ جائز تھا۔ مگر اس کا منفی  نتیجہ یہ نکلا کہ  انگریزوں کی لائی ہوئی تازہ دم تہذیب کی ہر بات ان کی نظروںمیں مشکوک یا کم ازکم درجہء ثقاہت سے گرگئی۔

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ دینی مدارس کس طرح مدافعانہ ذہنیت کی تشکیل کرتے ہیں اور اہل مدارس بدلتے ہوئے حالات میں لیک سے ہٹ کر کوئی  بات تب تک نہیں اپناتے ہیں جب تک کہ خود حالات کا جبر انہیں ایسا کرنے کے لئے مجبور نہ کردے۔

1۔ انگریزی زبان بحیثیت مضمون 

انگریزی دور حکومت میں جب مدارس ومکاتب کا قیام بکثرت ہونے لگا تو ایک پیچیدہ مسئلہ انگریزی زبان کو نصاب میں شامل کرنے کا تھا۔ گو اس بات کی حقیقت افواہ یا بدظنی سے زیادہ نہیں کہ علماء انگریزی تعلیم اور زبان کے  کلیتہً خلاف تھے کیونکہ تاریخی حقائق اور دستاویزی ثبوت اس کی تردید کرتے ہیں  ۔جدید تعلیم اور اس کے ذریعہء تعلیم – انگریزی زبان – سے ا ن کے انقباض کا سبب اس کے ساتھ در آنے والی وہ تہذیب تھی جسے وہ مسلمانوں کے دین و اخلاق کے لئے سم قاتل سمجھتے تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ اس معاملہ کا ایک اور رخ بھی ہے جس کا اعتراف کرنے میں اکثر قباحت محسوس ہوتی ہے ۔علماء کی انگریز دشمنی کے رویہ اور ان کی جانب سے آنے والی تعلیمی، فکری،اور تہذیبی درآمدات کے متعلق بے زاری و لا تعلقی اور مخالفت کی روش نے علماء کے حلقہ میں انگریزی زبان کی تعلیم و تدریس کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔جب کہ اس زبان کے حصول سے اگر اندیشے وابستہ تھے تو کسی منصف مزاج کا  اس کے فوائد سے صرف نظر کرنا بھی ممکن نہیں۔  اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ علماء کو اس بات کا اندیشہ رہا ہو کہ انگریزی زبان سیکھ کر مدارس کے فضلاء کے لئے معاش کے امکانات وسیع تر ہو جائیں گے  اور وہ اپنے اصل مشن سے غافل ہوجائیں گے ۔

اب صورت حال یہ ہے کہ انگریزی کی حیثیت عالمی زبان کی ہوگئی ہے ۔خود ہمارے ملک میں اس کے اثرو نفوذ کا یہ عالم ہے کہ اس کے سامنے قومی زبان  ہندی کا رنگ پھیکا پڑ چکا ہے ۔ گھر، اسکول، ٹی وی، بازار، دفتر، سفر، سیر وتفریح، غرض زندگی کا کوئی شعبہ اب ایسا نہیں ہے جہاں اس زبان سے ہمارا سابقہ نہ پڑتا ہو ۔ اسی اہمیت اور اثر ونفوذ کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ مدارس اور علماء نے بھی اس کی اہمیت اور حیثیت کو عملاًتسلیم کرتے ہوئے اپنے اپنے دائرے اور نہج پر اس کی تعلیم و تدریس کی طرف توجہ دینا شروع کردیا ہے۔ ایسے مدارس کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے جن میں انگریزی ایک مضمون کی حیثیت سے داخل نصاب ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں مدارس کے حلقے میں ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ فارغین مدارس کو دعوت یا تصنیف و تالیف کی خصوصی تربیت کے لئے مختصر مدتی کورسز کااہتمام مختلف مکاتب فکر کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ اس کے نصاب میں بھی سماجی علوم کے مبادیات کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کی تدریس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

2۔ قومی شناخت کا احساس

بیسویں صدی کی آخری دہائی میں سویت یونین کے انتشار کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ میں اور پھر دھیرے دھیرے عالمی ذرائع ابلاغ میں اسلام ایک موضوع بحث بن گیا ۔ 11 ستمبر 2001 کے بعد تو گویا ہر مسلمان شک کے دائرے میں آگیا۔ہندوستان میں بھی این ڈی  اے (اول )کے دور میں مدارس کو نشانہ بنایا گیااور انہیں دہشت گردی کا اڈہ قراردینے کی مہم چھیڑ ی گئی۔ ا س کے بعد دنیا کے متعدد علاقوں اور خود ہندوستان کے متعدد اہم شہروں میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے سبب ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کی ہمدردیاں ملک کے دشمنوں کے ساتھ ہیں۔

ان حالات میں مدارس کا رد عمل بڑا دلچسپ تھا۔ ماضی قریب تک مدارس میں ، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، عمومی طور پر یوم آزادی اور یوم جمہوریہ ، وغیر کے موقعوں پر وہ جوش و خروش اور اہتمام نظر نہیں آتا تھا جو سرکاری اداروں ، دفاتر، اور کالجوں میں دکھائی دیتا ہے۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اس دور کے علماء کو اپنے وطن سے محبت و تعلق نہیں تھا ۔ بلکہ ان اداروں کی عمومی مذہبی فضا غالباً اس قسم کے اجتماعی جوش و خروش اور جشن کی متحمل نہیں تھی۔وجہ جو بھی رہی ہو، مگراب حالات بدل چکے ہیں۔ اب انہیں مدارس میں بڑے اہتمام کے ساتھ ان مواقع پر ترنگا لہرایا جاتا ہے اور مجاہدین آزادی کو یاد کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا اور اخبارات میں مبارکبادیاں بھی دی جاتی ہیں اور پرچم کشائی کی تصاویر بھی شئیر کی جاتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ حالات کے جبر نے اہل مدارس کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنی حب الوطنی کا ثبوت  ان اجتماعی قومی تہواروں کو مناکر دیں ۔ اس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں کہ اس سلسلے میں مدافعانہ لہجہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمانوں کو ، بشمول طبقہء علماء کے، اس مٹی سے اتنا ہی لگاؤ ہے جتنا کسی اور کو ۔ مگر ہمارے مذہبی طبقہ نے اس طرف کبھی توجہ نہیں دی کہ  اس ملک کی زبان و مذہب، اور سماج  کو ہمدردانہ اور غیر متعصبانہ رویے کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہندومت اور ہندو ؤں کے مذہبی و سماجی رسوم و رواج پر تضحیک آمیز مضامین تو بہت مل جاتے ہیں مگر مدارس کے حلقے میں وطن عزیز میں رہنے بسنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کی تاریخ، مذہب، مزاج، اور مسائل کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی ہے۔ یہ بات عجیب لگتی ہے کہ دعوت و تبلیغ کی بات کرنے والے لوگ مدعو سے اتنے بے خبر ہیں!

 3۔ فارغین ِ مدارس کا عصری تعلیمی اداروں میں آنا 

حالات کے جبر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی ایک اہم مثال اہل مدارس کا وہ رویہ ہے جو انہوں نے اپنے ان  فارغین کے تئیں اپنا رکھا ہے جو فراغت کے بعد کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے کر مزید تعلیم کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اہل مدارس ایسے طلبہ کو ‘اچھی’ نظروں سے نہیں دیکھتے ہیں  اوران کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ کچھ مدارس کے طلبہ ہر دور میں عصری تعلیم گاہوں کا رخ کرتے رہے ہیں ۔اور ابت توایسے طلبہ کی تعداد روز افزوں ہے۔ وہ مدارس جو عام طور پر طلبہ کو اس قسم کی ‘بے راہ روی’ سے بچا کر رکھتے تھے اب ان کی دیواروں میں بھی دراریں پڑنے لگی ہیں ۔ ان طلبہ سے اہل مدارس کی ایک عام شکایت یہ ہے کہ وہ ‘بدل’ جاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مدارس میں قیام کے دوران وہ جس حلیہ بشرہ اور وضع قطع میں ہوتے ہیں اس میں تبدیلی آجاتی ہے ۔ اس تبدیلی کا اہم ترین اعلان داڑھی کی تراش و خراش یا طول و عرض  میں تبدیلی ہے۔ لباس کی تبدیلی اب اتنی اہم نہیں رہی۔ مگر یہ صورت حال  خود اہل مدارس کے لئے لمحہء فکریہ ہے۔ ان کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ برسوں کی تعلیم و تربیت کے باوجود آخر ان کے فیض یافتہ طلبہ کیوں ان سے اتنا الگ نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ موضوع ایک الگ اور مستقل مضمون کا متقاضی ہے۔ اس لئے یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اہل مدارس کی ناراضی اور حوصلہ شکنی کے باوجود ہر مکتب فکر اور مسلک کے مدارس کے فارغین جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جواہرلال نہرو یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد، لکھنؤ یونیورسٹی ، وغیرہ کا رخ کررہے ہیں ۔ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد سے اب اہل مدارس کے رویے میں بھی مثبت تبدیلی آرہی ہے ۔ مثلاً، ایک مرکزی مدرسہ کے فارغین نے جنہوں نے یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کی ہے  ابناء قدیم کی ایک انجمن بنائی ہے او راس کی سرپرستی متعلقہ مدرسہ کے ذمہ داران کر رہے ہیں۔عام حالات میں یہ کوئی خبر نہیں ہے ، مگر جو لوگ مدارس میں تبدیلی کی رفتار سے باخبر ہیں  وہ اس کی علامتی  اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔

4۔ مسلکی اختلافات میں کمی

مسلمانوں کو جنتا نقصان مسلکی تنازعات سے پہنچا ہے شاید ہی کسی اور چیز سے پہنچا ہو  ۔یہ اختلافات دین کے بنیادی مصادر – قرآن و سنت – میں نہیں بلکہ ان سے مستنبط جزئی احکامات یعنی فروع میں ہیں۔ اس کا آغاز بھی خود دور نبوی ﷺ میں ہوگیا تھا  ۔ ان نام نہاد اختلافات نے دھیرے دھیرے اتنی اہمیت اختیار کرلی کہ فروعات پر اصل کا گمان ہونے لگا۔ بالعموم مدارس نے بھی ان اختلافات کو ان کے صحیح پس منظر میں رکھ کر ان کی علمی و تحقیقی رخ کو واضح کرنے کے بجائے مسلکی تشدد اور تعصب کا راستہ اختیار کیا۔ ان کے فضلاء کے ذریعہ عوام کی مذہبی تربیت بھی انہیں خطوط پر ہوئی اور وہ بھی چھلکے کو گودا سمجھنے لگے۔ حالیہ برسوں میں جب عالمی سطح پر مسلمانوں کی شبیہ دہشت گرد، لڑاکو، جاہل اور غیر مہذب کی بنادی گئی اور دنیا کے مختلف علاقوں میں ان کو تعذیب کا نشانہ بنایا گیا تو اب یہ احساس عام ہونے لگا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے  باہمی جوتم پیزار نے ہی دشمنوں کے لئے لقمہء تر بنا یاہے۔ ان حالات کے پس منظر میں   مسلکی اختلافات کے متعلق بھی  اہل مدارس کے نقطہء نظر میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ مناظرانہ طرز گفتگو کا بھونڈاپن  سب پر عیاں ہوچکا ہے۔ لاطائل فقہی اور کلامی مباحث کا زور بھی ٹوٹ چکا ہے۔ صدیوں پرانے مسلکی اختلافات کو بھلا کراب ‘باہمی دلچسپی کے امور’ پر تعاون کی باتیں عام ہوتی جارہی ہیں۔لیکن یہاں بھی مدافعانہ ذہنیت ہر جگہ صاف نظر آتی ہے۔ ایک جانب قرآن و سنت کی مزاج شناسی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود ملی اتحاد اور بین مسلکی مفاہمت کی کوششوں کا فقدان تھاتواب دوسری جانب وقتی خارجی عوامل ہیں جن کے سامنے ہمارا مذہبی طبقہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔

خاتمہ

یہ چند مثالیں مشتے نمونہ از خروارے کی قبیل سے ہیں۔ یہاں ہمارا مقصود ایسی تمام مثالوں کا استقصاء نہیں ہے بلکہ اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ مدارس کا عمومی فکری ماحول اقدام اور خطر پسندی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے۔ اس کی کئی وجہ ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں میرا ذہن سب سے پہلے اس بات کی طرف جاتا ہے کہ مدارس کے حلقوں میں زمانہ شناسی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ میری ناقص رائے میں نصاب و نظام ِ تعلیم پر غور و فکر کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی بحث ہونی چاہئے کہ اہل مدارس جن اصطلاحات کے ذریعہ اپنا مقصد ظاہرکرتے ہیں جیسے، خدمت دین، عصر حاضر، جدید تعلیم یافتہ طبقہ، جدید تعلیم، وغیرہ، ان سے ان کی مراد کیا ہو تی ہے؟ہر لحظہ دگرگوں کائنات میں اسلام جیسے آفاقی مذہب کی نمائندگی کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک ہم ‘عصر حاضر’ جیسی اصطلاحوں کو زیب داستاں کے لئے استعمال کرنے کے بجائے انہیں سمجھنے کی سنجیدہ اور علمی کوشش نہ کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔