دینی مدارس کا نظام و نصابِ تعلیم

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

مدارس کی خدمات مسلم، لیکن ان کے نظام، نصاب اور طریقہ تعلیم (درس نظامی) کو لے کر علماء کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ندوہ، اصلاح اور جامعۃالفلاح جیسے ادارے وجود میں آئے۔ سرکاری سرپرستی والے عالیہ مدارس ان سے الگ ہیں۔ بڑی تعداد میں مدارس کی موجود گی کے باوجود قوم کی تعلیمی حالت میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ پہلے خواندگی مسلمانوں کا مسئلہ تھا اب معیاری تعلیم۔ قوم کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنا تو دور، ان مدارس نے تعلیم کو ہی دین ودنیا کے خانوں میں بانٹ دیا۔ دینی تعلیم حاصل کرکے دنیا کمانے کی کوشش کی جائے تو یہ تعلیم دنیاوی ہی کہلائے گی اور اگر دنیا وی تعلیم حاصل کرنے والا دین سے غافل نہ ہوکر اپنے علم سے انسانوں کی خدمت کرتا ہے تو اس تعلیم کو دینی ہی کہا جائے گا؟ علم کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔

مدارس کی تحریک انگریزی نظام تعلیم کے ردعمل میں شروع ہوئی تھی۔ علماء کو خدشہ تھا کہ انگریزوں کے ذریعہ دی جانے والی تعلیم سے قوم بے دین ہو جائے گی۔ پھر مسلمانوں کے پاس وسائل کی بھی کمی تھی۔ ایسے میں قرآن و حدیث کی پڑھائی پر توجہ دے کر نئی نسل کو بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچانے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ہی انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی میں ان مدارس نے اہم کردار ادا کیا۔ 1857 میں انہی مدارس کے علماء اور طلبہ نے ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کی کوشش کی تھی۔ جسے پہلی جنگ آزادی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سر سید نے محسوس کیا کہ تعلیم کو قرآن و حدیث تک محدود کرنا علماء کی اجتہادی غلطی ہے۔ قوم کو مذہبی تعلیم کے ساتھ انگریزوں کے ذریعہ دی جانے والی تعلیم میں بھی آگے ہونا چاہئے۔ ان کا خیال تھا کہ ٹکراؤ سے قوم کے دکھ دور نہیں ہو سکتے۔ مروجہ تعلیم کے ذریعہ ہی اس کی تصویر بدل سکتی ہے۔ قرآن و سنت کی منشاء بھی اس کے عین مطابق ہے۔

دنیا کا کوئی بھی تعلیمی نظام ایسا نہیں ہے جس میں ضرورت زمانہ کے لحاظ سے تبدیلی کا عمل جاری نہ ہو۔ صرف بھارت کے دینی مدارس ہی ایسے ہیں جن میں تقریباََ 150 سال سے ایک ہی طرح کی تعلیم ہو رہی ہے۔ آج بھی مدارس میں غلاموں کی مثالیں دی جاتی ہیں جبکہ دنیا سے غلامی ختم ہوئے زمانہ ہو چکا۔ علماء ودانشور مدارس کے نصاب میں وقت کے مطابق تبدیلی کے بارے میں اپنی رائے دیتے رہے ہیں۔ مثلاً مولانا اشرف علی تھانوی کہتے ہیں کہ لوگ میری بات پر دھیان نہیں دیتے۔ میں کہتا ہوں کہ تعزیرات ہند کے قوانین اور ڈاک خانہ اور ریلوے کے قواعد بھی مدارس اسلامیہ کے درس میں داخل ہونے چاہئیں۔ علامہ شبلی کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کیلئے نہ صرف انگریزی مدرسوں کی تعلیم کافی ہے، نہ قدیم عربی مدرسوں کی۔ ہمارے دور کاعلاج معجون مرکب ہے جس کا ایک جز مشرقی ہے اور دوسرا مغربی۔ اسرار عالم صاحب کا خیال ہے کہ مدارس کے بچوں کو چودہ سال تک وہی تعلیم دی جائے جو عام بچوں کو دی جاتی ہے۔ تاکہ وہ اپنے بنیادی کاموں کیلئے دوسروں پر منحصر نہ رہیں۔ اس کے بعد بھلے ہی انہیں قرآن و حدیث کی تعلیم دی جائے یا سائنس، سوشل سائنس، ہیومانٹیز، طب یا انجینئرنگ کی۔

حکومت نے مدارس میں جدید مضامین کی تعلیم کیلئے’موڈرانائزیشن آف مدرسہ‘ اسکیم متعارف کرائی۔ اس کے تحت ہندی، انگریزی، ریاضی، سائنس، کمپیوٹر اور سوشل سائنس پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہ کے ساتھ ان مضامین کی کتابیں بھی سرکار مفت دستیاب کراتی ہے۔ اس اسکیم کو عام طور پر مدارس نے مسترد کر دیا کیونکہ اسکیم سے جڑنے کیلئے مدارس کو اپنے کوائف جمع کرنے تھے۔ جو مدارس کسی بھی صورت میں ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ مدرسہ نے منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سال در سال ان میں اضافہ کی وجہ بھی یہی ہے۔ دین کی تعلیم، غربا و مساکین کی پرورش اور خدمت دین کے نام پر ملک وبیرون ملک سے کروڑوں روپے جمع کئے جاتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق صرف چار فیصد بچے ہی ان مدارس میں پڑھتے ہیں لیکن سو فیصد زکوٰۃ و عطیات پر یہ ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ فطرہ و زکوٰۃ پر جن غریبوں و مسکینوں کا حق ہے، وہ منھ تاکتے رہ جاتے ہیں۔ رہا سوال مدرسہ میں پڑھنے والے بچوں پر خرچ کا تو اس کا اندازہ وہاں جانے پر ہوتا ہے۔ بچوں کے رہن سہن اور کھانے پینے پر بہت معمولی رقم خرچ کی جاتی ہے جبکہ مہتمم صاحب کے عیش وعشرت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مدارس کے ذمہ داران اپنی دولت اور جائیداد کو بچانے کیلئے سیاسی جماعتوں و نمائندوں کی مدد لیتے  ہیں۔ تو کئی اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ قوم میں اپنی عزت بنائے رکھنے کیلئے یہ دین کی خدمت کا دم بھرتے ہیں۔ یہ اکثر مدارس کی حقیقی صورتحال ہے، جس کا تذکرہ ابھی حال میں ہی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک مضمون میں کیا ہے، جس کا نچوڑ یاخلاصہ یہ ہے کہ ایسے مدارس ذمہ داروں کی اکثریت دین کے نام پر اپنا کاروبار چلارہی ہے۔

دبی زبان میں کئی علماء مدارس کے طلبہ کی تربیت اور پسماندہ علاقوں سے بچوں کو لانے کے طریقوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ دس مربع فٹ کے کمرے میں جہاں دو تین بچے بہ مشکل رہ سکتے ہیں، اس میں چھ سات طلبہ کو رکھا جاتا ہے۔ ایسے میں تربیت کے بجائے کئی طرح کی بیماریوں کے پیدا ہونے کا امکان رہتا ہے۔ گرمی میں کولر تو دور کئی مدرسوں میں پنکھے بھی مکمل نہیں ہوتے۔ بچے کھلے آسمان کے نیچے، مسجد کے فرش یا چھت کے اوپر سونے کو مجبور ہوتے ہیں۔ کئی طلبہ اساتذہ کی خدمت پرمامور رہتے ہیں۔ طلبہ سے خدمت لینے کا طریقہ مدارس میں بہت پرانا ہے۔ پچھلے دنوں بچوں کو لاتے ہوئے مولویوں کے پکڑے جانے کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ بچوں کے گھر والوں کو نہیں معلوم تھا کہ ان کے بچے کو کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ بچہ پڑھے گا اور ہر ماہ ان کو پیسے بھی بھیجے گا۔ مدرسہ کے کاروبار میں بچوں کو لانے پر خرچ کی گئی رقم اور ایک چہار دیواری کا خرچ سرمایہ کاری ہے باقی سب منافع۔

مدارس کے سیلاب سے کچھ لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اس سے قوم و ملک کا سراسر نقصان ہے۔ بڑی تعداد میں بچوں کا مستقبل برباد کیا جا رہا ہے۔ اوپر سے بیرون ملک چندہ کرتے ہوئے پکڑے جانے پر ملک کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔ بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ کے سوال پر مدارس کے ذمہ داران کہتے ہیں کہ مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ بے کار نہیں رہتے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ مسجد کی امامت کیا ایسا روزگار ہے جس سے وہ عزت کی زندگی گزار سکیں ؟ اگر یہ صحیح ہے تو پھر ائمہ مساجد کو جھاڑ پھونک، تعویز گنڈے کرنے، ٹیوشن پڑھانے یا سیاسی بیان بازی کی کیا ضرورت ہے۔

 جمیعۃ علماء، جمعیت اہلحدیث، جماعت اسلامی، جماعت اہلسنت اور بڑے اداروں کے ذمہ داروں کو غور وفکر کرکے ایک طرف نظام ونصاب تعلیم کو آج کے حالات کے مطابق از سر نو ترتیب دینا چاہئے۔ تاکہ یہاں سے نکلنے والے طلبہ ملک وقوم کی بہتر خدمت کر سکیں۔ دوسری طرف نئے مدارس کھولنے پر پابندی لگائی جائے۔ نئے ادارے بنانے سے بہتر ہے کہ جو ادارے موجود ہیں، ان سے معیاری تعلیم کا کام لیا جائے۔ علم کو خانوں میں باٹنے کے بجائے اسے مومن کی گم شدہ مطاع کے طور پر دیکھا جائے کہ وہ اسے جہاں پائے حاصل کرنے کی کوشش کرے اور یہ مدارس اس علم کی آبیاری کریں۔ اچھی فصل تبھی ممکن ہے جب اچھے بیج اور زمین کے ساتھ فصل اگانے والا اس فن کا ماہر ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔