دین خطرے میں ہے؟

مدثر احمد

مشہور سائنسدان و محقق آئساق نیوٹان نے پچھلی صدی میں ایک ضابطہ پیش کیا تھا کہ جسے ہم نیوٹن تھرڈ لا ء کے نام سے جانتے ہیں، اس ضابطے میں نیوٹائون نے کہا تھا کہ ’’ہر عمل کا رد عمل یکساں اور اسکے برعکس ہوتا ہے‘‘۔ نیوٹن نے یہ ضابطہ ہمارے سامنے پچھلی صدی میں پیش کیا تھا لیکن اس سے 14؍ سو سال قبل ہمارے دین نے ہمارے سامنے یہ نظریہ رکھ دیاہے کہ ہر عمل کا بدلہ اسکے برابر دیا جائیگا، یعنی کہ ہم اچھائی کرتے ہیں تو اسکا بدلہ اچھائی میں ہوگا اور اگر ہم برائیاں کرتے ہیں اس کا بد لہ برائی کی شکل میں ہوگا۔ آج جو حالات ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہی نیوٹن تھیوری کے مطابق ہمارے سامنے ہیں خصوصَاً طلاق، خلع اور حلالہ جیسے معاملات کو لیکر ہندوستان میں بحث و مباحثے جاری ہیں اور حکومتیں ان تینوں شرعی امور کو لیکر جس قدر پریشان ہے وہ ہماری ہی وجہ سے ہے۔

اسلام نے نکاح، ازدواجی زندگی، طلاق، حلالہ اور خلع کو ایک منظم اور بہتر طریقے سے پیش کیاہے۔ لیکن ہم نے ان تمام باتوں کو اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق استعمال کرنا شروع کردیاہے۔ نکاح جسے آسان اور سادہ بتایا گیا ہے وہی نکاح ہمارے سامنے پیچیدہ، اسراف اور بیہودہ ہوچکاہے اور ہم نے نکاح کی تقریب کو میلے کی طرح منعقد کرنا شروع کردیا ہے۔ ہمارے پاس نکاح کو دمدار اور شاندار طریقے سے بنانے کیلئے جتنے بہانے ہیں اتنے بہانے اور طریقے شاید ہی دین کے کسی اور کام کو انجام دینے کے لئے نہیں ملتے۔ کوئی کہتاہے کہ ہمارے پہلے بیٹے کا نکاح ہے تو کسی کے اکلوتے بیٹے کا نکاح ہے، کوئی اپنی بیٹی کی شادی کو یادگار بنانا چاہتاہے تو کوئی اپنی بہن کی شادی کو نمونہ بنانا چاہتاہے۔ اس دوڑ میں یہ بھول گئے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں دین نے نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیاہے۔

 ہم نبیﷺ کے دین پر جان نچھاور کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن اسی نبی ﷺ کی ایک سنت کو ادا کرنے کے لئے سینکڑوں حرام و مکروہ کام کررہے ہیں۔ ایسی شادیاں جس کی بنیاد ہی حرام سے ہو تو بھلا ان شادیوں کے جوڑوں سے ہم کیسے نیک و صالح اولاد کی امید کرینگے ؟۔ کیسے انکی ازدواجی زندگی کو مثال بنائینگے۔ نکاح میں تو قاضی صاحب کی دعا ہوتی ہے کہ زوجین میں حضرت محمد ﷺ اور حضرت عائشہ ؓ جیسی محبت پیدا کر، علیؓ و فاطمہ جیسا جوڑا بنا، یوسف و زلیخا جیسی محبت پیدا کر، مگر جس نکاح میں اللہ کے احکامات، اللہ کے رسول ؓ اور خلفاء راشدین کے طرز نکاح کو پامال کیا جائے اس شادی سے کیسی نیک توقع کی جائے۔ دوسری جانب طلاق و خلع جیسے دین کا سخت ترین اور اللہ کا ناپسندید ہ عمل کہا گیاہے وہ نکاح سے آسان ہوچکے ہیں اور پہلے کے مقابلے میں آج کل نکاح کم ہورہے ہیں اور طلاق و خلع زیادہ ہونے لگے ہیں۔

اسکی وجوہات کا جائزہ لیا جائے توہم اس نتیجے پر آسکتے ہیں کہ ہم نے زندگی کو مذاق بنا رکھا ہے اور اپنی انانیت و خود غرضی کی وجہ سے نکاح کو اللہ کی نعمت نہ سمجھتے ہوئے زندگی کو کھیل بنا لیاہے۔ جتنے بھی طلاق و خلع کے معاملات ہورہے ہیں ان میں سب سے بڑا طبقہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں تعلیم تو حاصل کرلی ہے لیکن انہوں نے تربیت حاصل نہیں کی۔ دین، شریعت، حدیث اور زندگی کو نہیں سمجھا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ و متوسط گھرانوں کے لوگ ہی طلاق و خلع کا کثر ت سے شکار ہورہے ہیں۔ اگر چہ کہ ان پڑھ و غریب گھرانوں میں اس بات کا رحجان نہایت کم ہے کیونکہ یہ طبقہ زندگی کو بہت قریب سے دیکھتاہے، مفلسی اور لاچاری انہیں یہ سبق تو دے دیتی ہے کہ ہرچیز کو اللہ کی نعمت جانیں اور اسکی حفاظت کریں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ مڈل و ہائی پروفائل فیملس ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے۔

ان حالات کو سدھارنے کی ذمہ داری دانشوران، اہل علم، مذہبی و سماجی تنظیموں کے ذمہ داروں کی تھی انہوں نے بھی ان معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے جس کا خمیازہ ساری قوم کو اٹھانا پڑرہاہے۔ طلاق خلع اور نکاح کے معاملات کو ہمارے اہل علم حضرات نے بھی جس طرح سے پیش کیا ہے اور قول و فعل میں فرق رکھاہے۔ نکاح میں ہونے والے خرافات کو روکنے کے لئے ہم نے کبھی آواز نہیں اٹھائی، خلع و طلاق کے حقیقی نقشے کو کبھی ہم نے مسلمانوں کے سامنے پیش نہیں کیا۔ کئی مقامات پر ادارۂ شرعیہ پولیس تھانوں سے بد تر بے ایمانی کے اڈے بن گئے، کچھ مفتیوں  و قاضیوں نے ان فیصلوں کو انجام دیتے وقت جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی طرح فیصلے دینے لگے۔ طلاق دلواکر کئی جگہوں پر فوری دوسری جگہوں پر نکاح کروائے۔ خلع لینی والی خواتین کو ہرجانہ یا مینٹینس کے طورپر لڑکوں کی جانب سے دلوائے جانے لگے۔

ہم نے یہاں تک سنا ہے کہ حلالہ کے لئے جو نکاح کیا جاتاہے اسکے لئے خود فیصلے کرنے والوں نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ حال ہی میں بریلی کی ایک عورت نے یہاں تک الزام لگایا کہ حلالہ کے لئے جو نکاح کرنا تھا وہ نکاح اسکا سسر ہی کرنا چاہ رہاتھا۔ سوال یہ ہوتاہے کہ جب ہم بازار میں معمولی کپڑا خریدتے ہیں تو کپڑے کی کوالیٹی، قیمت کے تعلق سے پوچھ تاچھ کرتے ہیں وہیں جب نکاح و طلاق جیسے معاملات کو انجام دینے والے اہل علم حضرات معاملات کی باریکیوں تک کیوں نہیں جاتے ؟

آج مسلم پرسنل لاء بورڈ ہر علاقے میں دارالقضاء کا قیام کرنا چاہ رہاہے، اگر دارالقضاء کا قیام کرنا ہی ہے تو سب سے پہلے موجودہ دارالقضاء کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے، وہاں کے ذمہ داران اور مفتیان کو موجودہ حالات، ہندوستانی قانون اور شرعیہ قانون کے تعلق سے باخبر کروانے کی ضرورت ہے۔ جن دارالقضاء پر دبنگوں اور جاہلوں کی سرپرستی ہے ان دارالقضاء کو ان سے پاک کرتے ہوئے خالص دین کے دائرے میں چلانے پر زور دینے کی ضرورت ہے۔

 آج ہمارے درمیان کئی ایسے دارالقضاء بھی ہیں جہاں پر اسلام کا کھلا مذاق اڑایا جارہاہے ان پر لگام کسنے کی ضرورت ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ واقعی میں شریعت کے تحفظ کیلئے بنا ہواہے تو وہ تمام قاضیوں کو ہدایت جاری کرے کہ جس شادی میں خرافات ہوں، ناچ گانا ہو، شریعت کو پامال کرنے والے رسم و رواج ہوں ان شادیوں میں ہر گز بھی شرکت کرنے سے گریز کیا جائے۔ صرف نکاح کی تقریب میں ہی نہیں بلکہ نکاح سے اول اور نکاح کے بعد میں بھی ایسی فحاشی دیکھی جائے تو اعلان کیا جائے کہ ان شادیوں میں شرکت نہیں ہوگی نہ ہی نکاح پڑھایا جائیگا۔ جب نکاح حلال طریقے سے ہوگا تو زندگیاں بھی حلال ہونگی اور خدانخواستہ ناگریز حالات میں طلاق یا خلع ہونے کا معاملہ آئے تو وہ بھی شریعت اور حلال طریقے سے ختم ہو۔ ساتھ ہی ساتھ مسلم وکلاء جن میں سے بیشتر تو آئی پی سی اور ڈی وی ایکٹ کے ایکسپرٹس ہیں ان کے لئے بھی کارگاہوں کا انعقاد کیا جائے کہ وہ صرف شرعی قوانین کے حساب سے طلاق و خلع کی وکالت عدالتوں میں کرے۔ ویسے بھی ہندوستانی آئین میں محمڈن لاء ہے اسی محمڈن لاء کا استعمال کرنے کیلئے ترغیب دی جائے۔

 اکثر ہم نے یہ بھی دیکھاہے کہ بعض وکلاء دارالقضاء میں ہونے والے فیصلوں کو جان بوجھ کر عدالتوں میں کھینچ لے جاتے ہیں تاکہ اپنے موکل سے اچھا خاصہ معاوضہ لیاجائے۔ چھوٹامنہ بڑی بات۔ لیکن جو ہم دیکھ رہے ہیں اور محسوس کررہے ہیں وہی حالات ہم بیان کررہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دین مزید بدنام نہ ہو۔ ہمارے علماء پر سوالیہ انگلیاں نہ اٹھائی جائیں، ہمارے دارالقضاء و دارالافتاء کو مشکوک نہ سمجھا جائے۔ اور میڈیا میں بے عزتی نہ ہو، اور بحث و مباحثوں میں علماء پر خواتین ہاتھ نہ اٹھائیں۔ یقینا دین خطرے میں ہے اور دین کو خطرے میں لانے والے ہم خود ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔