دین میں عقیدۂ آخرت کا مقام

تحریر: علامہ حمید الدین فراہیؒ… ترتیب: عبدالعزیز

  آخرت پر ایمان کا مطلب اللہ تعالیٰ کی صفات عدل و حکمت، زحمت و ربوبیت اور اس کی قدرت کاملہ پر ایمان لانا ہے۔ یہ شریعت و طاعت اور عمل خیر پر قیام کی بنیاد ہے، نیز رسالت و نبوت کی اصل بھی یہی ہے، کیونکہ رسول کو رسول کہا اسی لئے گیا کہ وہ اس کا پیغام لے کر آئے اور نبی کا نام نبی اسی وجہ سے پڑا کہ انھوں نے اس نباء عظیم کی خبر دی۔ چنانچہ آخرت کا منکر ہر گز خدا اور اس کی صفات پر ایمان لانے والا نہیں ہوسکتا؛ چہ جائیکہ اس کے رسولوں پر اس کا ایمان ہو۔ خواہشاتِ نفس کی پیروی کے سوا نہ اس کا کوئی دین ہوسکتا ہے اورنہ شریعت اور نہ ہی نیکی اور تقویٰ کے کوئی معنی اس کے نزدیک ہوسکتے ہیں ، اس لئے ہدایت، نیکی اور بھلائی کے کاموں کی طرف رغبت بھی اس کے اندر نہیں ہوسکتی۔

  ایمان بالآخرۃ ہی نبوت کا نقطۂ آغاز ہے کیونکہ پیغمبر مبشر اور نذیر بناکر بھیجے گئے ہیں جو عبارت ہے آخرت کی خبر دینے سے۔ قرآن مجید میں بار بار اس امر کی صراحت کی گئی ہے؛ چنانچہ آغاز وحی میں فرمایا ہے:

  یَا أَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ ’’اے چادر لپیٹے رکھنے والے! اٹھ اور لوگوں کو ڈرا‘‘ (سورہ مدثر، آیت:2-1)۔

   نیز فرمایا: اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی۔ ’’بے شک تیرے خدا وند ہی کی طرف لوٹنا ہے‘‘ (سورہ علق، آیت:8)۔

  چونکہ آخرت پر ایمان تقویٰ کے مطالب اور مقتضیات میں سے ہے اس لئے اسے متقیوں کی پہچان بتایا ہے، جیسا کہ فرمایا:

  ’’(کتاب الٰہی) ہدایت ہے متقیوں کیلئے۔ ان لوگوں کیلئے جو غیب میں ایمان رکھتے ہیں ‘‘ (سورہ بقرہ، آیات:2-3)۔

 اور تقویٰ کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عدل و حکمت پر ایمان ہو۔ اس لئے جو آخرت کے منکر ہیں اور حق و عدالت اور جزا پر ایمان نہیں رکھتے وہ نہ خداسے ڈرتے ہیں اور نہ اس کے عدل کامل پر ان کا یقین ہوتا ہے۔ ان کی ساری کوششیں دنیا کیلئے ہوتی ہیں ، اسی کی محبت میں وہ ڈوبے رہتے ہیں ، ان پر انداز کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ اس کے وسائل انھوں نے آپ منقطع کر دیئے ہیں اور اس کے دروازے اپنے اوپر بند کر رکھے ہیں ۔ اسی لئے کہا گیا ہے:

 ’’جن لوگوں نے کفر کیا یکساں ہے ان کیلئے ڈراؤ یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان لانے والے نہیں ‘‘ (سورہ بقرہ، آیت6)۔

   یعنی جب تک وہ آخرت کے انکار پر قائم ہیں ان کیلئے ایمان کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت پر ایمان ہی اصل چیز ہے اور اسی پر دین کی بنیاد ہے۔ چنانچہ اس کا انکارِ خدا اور اس کے رسول کا انکار ہے۔ قبولِ ہدایت کیلئے یہی شرط ٹھہری ہے کیونکہ دنیائے فانی سے بے زاری اور لاتعلقی اس کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ اس لئے اس کا انکار قلب کیلئے سب سے بڑا حجاب اور رب سے غفلت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے اپنی تعلیم کی بنیاد اسی پر رکھی ہے اور اوائل وحی میں سب سے زیادہ اسی کی طرف دعوت دی ہے اور سارا زور اس پر صرف کیا ہے۔ یہاں تک کہ توحید کی تعلیم کے ساتھ اسے جوڑ دیا جس طرح نماز اور زکوٰۃ کو باہم مخلوط کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں توحید اور معاد کا بیان اکثر جگہوں پر آپ ساتھ ساتھ دیکھتے ہیں ۔

 اس میں نماز کا تعلق واضح طور پر توحید سے اور زکوٰۃ کا آخرت سے ہے۔ نماز ظاہر ہے کہ توحید کا مظہر یا خدا کی وحدانیت کے اقرار و اعتراف کی صورت ہے اور زکوٰۃ آخرت کی تصدیق ہے، جیسا کہ فرمایا:

  ’’سو جس نے سخاوت کی اور ڈر ڈر کر چلا اور اچھے انجام کو سچ مانا اس پر ہم آسان کر دیں گے راحت کی منزل‘‘ (سورہ لیل، آیات:5-7)۔

 نیز فرمایا: ’’اور وہ جن کے اموال میں ایک معین حق ہے سائلوں اور محروموں کا اور جو تصدیق کرتے ہیں جزا کے دن کی‘‘ (سورہ معارج، آیات:24 تا 26)۔

جیسا کہ فرمایا: ’’پس نہ سچ مانا نہ نماز پڑھی بلکہ جھٹلایا اور منہ موڑا‘‘ (سورہ قیامہ، آیات:31-32)۔

  نیز فرمایا: ’’اور جس نے بخالت کی اور بے پروائی کی اور اچھے انجام کو جھٹلایا اس پر ہم آسان کر دیں گے کٹھنائی کی منزل‘‘ (سورہ لیل، آیات: 8 تا 10)۔

   مزید فرمایا: کیوں تو نے دیکھا روز جزا کے جھٹلانے والے کو۔ یہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور فقیر کھلانے سے روکتا ہے‘‘(سورہ ماعون، آیات:1تا 3)۔

 اور جس طرح آخرت پر ایمان خدائے واحد پر ایمان کا لازمی نتیجہ ہے اسی طرح انفاق مال لازمۂ نماز ہے۔ نماز اصل ہے اور انفاق اس کا لازمی تقاضا۔ اکثر اصل کی صحت کا پتہ اس کے نتائج اور لوازم سے چلتا ہے۔ اس حقیقت کو سورہ ماعون کے آخر میں یوں بیان فرمایا:

  ’’تو برا ہو ان نمازیوں کا جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں ، جو ریاکاری کرتے ہیں اور ادنیٰ سی چیز مانگے نہیں دیتے‘‘ (سورہ ماعون، آیات:4تا 7)۔

  چنانچہ اگر اصل کا اعتبا کیا جائے تو دین نام ہے خدا کی بندگی اور اطاعت کا، اور نتیجہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دین نام ہے غریب کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کا۔ اور یہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو یا ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں کیونکہ جب تک دل سے مال کی محبت ختم نہیں ہوتی، جو زکوٰۃ کی اصل روح ہے، اس وقت تک خدا کی محبت دل میں داخل نہیں ہوتی جو کہ نماز کی حقیقت ہے؛ چنانچہ غریبوں پر مال خرچ کرنا اہل ایمان کا نہیں بلکہ کفار و مشرکین کا شیوہ ہے، جیسا کہ فرمایا:

  ’’اور ان مشرکوں کیلئے تباہی ہے جو انفاق نہیں کرتے اور آخرت کے تو اصل منکر وہی ہیں ؛ البتہ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل بھی کئے (یعنی انفاق سے کام لیا) ان کیلئے دائمی صلہ ہے‘‘ (سورہ حٰمٓ السجدہ، آیات:6 تا 8)۔

  نیز فرمایا: ’’جو اپنے مال لوگوں کو دکھانے کیلئے خرچ کرتے ہیں اور اللہ اور روزِآخرت پر ایمان نہیں رکھتے‘‘ (سورہ نساء، آیت:38)۔

  ’’اے ایمان والو! احسان جتا کر اور دل آزاری کرکے اپنی خیرات کو اکارت مت کرو اس شخص کی مانند جو اپنا مال دکھاوے کیلئے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا‘‘ (سورہ بقرہ، آیت:254)۔

  پس انفاق تمام اعمالِ صالحہ کی اصل ہے جس طرح نماز تمام عبادات کی جڑ ہے اور دونوں کا مدار عقیدۂ تو حید و آخرت پر ہے، جس طرح یہ دونوں ایک دوسرے پر مشتمل ہیں ویسے ہی وہ دونوں بھی ایک دوسرے پر مشتمل ہیں ۔

 معاد اور توحید میں ربط: قرآن مجید میں اس طرح کی بہت سی آیتیں آپ کو ملیں گی جیسی کہ سورہ روم کی یہ آیت:

 ’’اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے نہیں پیدا کیا مگر غایت و حکمت اور ایک مقررہ مدت کیلئے اور لوگوں میں بہت سے ایسے ہیں جو اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ‘‘ (آیت:8)۔

 اس سے مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ ذات خالق و حکیم نے ہر شے کو ایک خاص مقصد کیلئے پیدا کیا ہے اور جب وہ مقصد پورا ہوجاتا ہے تو اس کی مدت ختم ہوجاتی ہے اور یہ مقصد بھی کسی غرض کی تکمیل کیلئے ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے کرشموں کا تسلسل رک جاتا ہے، چنانچہ مخلوقات کی پیدائش کا نظام برابر نمو اور ترقی پذیر رہنے اور اللہ تعالیٰ کی طرف واپس ہوتے رہنے پر قائم ہے، جیسا کہ فرمایا:

 ’’کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم نے تم کو بے مقصد بنایا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤگے‘‘ (سورہ مومنون، آیت:115)۔

  یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں معاد کے ذکر کے بعد توحید کا بیان اور شرک کی برائی آپ کو اکثر جگہوں پر نظر آئے گی، جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کے بعد ہے:

   ’’بہت ہی بلند و برتر ہے ذات اللہ بادشاہ حقیقی کی۔ نہیں ہے کوئی معبود مگر وہ عرش کریم کا مالک‘‘ (سورہ مومنون، آیت:116)۔

  آسمان و زمین اور نفس کے اندر اور پھر آسمان و زمین کے مابین عجائب قدرت و خلقت کی جو عظیم الشان نشانیاں موجود ہیں اور ان کو دست غیب نے جس طرح ایک دوسرے کیلئے سازگار بنایا ہے اس سے خدا کی توحید اور اس کی پروردگاری کا نہایت کھلا ہوا ثبوت ملتا ہے۔ اس نظام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس پروردگار نے اس کو بنایا ہے وہ بادشاہت، قدرت، علم، حکمت اور عدل و رحمت کی تمام اچھی صفتوں سے کمال درجہ متصف ہے اور پھر اس سے لازمی نتیجہ کے طور پر یہ بھی نکلتا ہے کہ وہ جزا و سزا دینے والا بھی ہے۔ گویا استدلال کا پہلا زینہ یہ ہے کہ ہم خدا کی ان صفتوں تک پہنچتے ہیں جو توحید پر دلیل ہیں ۔ پھر اس سے جزا و سزا پر استدلال کرتے ہیں ۔

  اس ترتیب استدلال کی قرآن مجید نے متعدد مقامات پر وضاحت کی ہے۔ ان آیات میں پہلے عام طور پر خدا کی پروردگاری کے آثارِ رحمت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ پھر خاص طور پر جزا و سزا کے دلائل کی طرف توجہ دلائی۔ چنانچہ فرمایا ہے:

 ’’اور آسمان میں تمہاری روزی ہے اور وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے‘‘ (سورہ ذاریات، آیت:22)۔

 یعنی وہ پروردگار جو آسمان و زمین سے تمہارے لئے روزی فراہم کرتا ہے اس نے تم کو بے مقصد نہیں بنایا ہے اور وہ تم کو شتر بے مہار کی طرح یوں ہی چھوڑے نہیں رکھے گا۔ چنانچہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے:

  ’’کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم نے تم کو بے مقصد بنایا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤگے‘‘ (سورہ مومنون، آیت:115)۔

  یہ آسمان و زمین اپنے اندر بے شمار ایسی آفاقی و انفسی دلیلیں رکھتے ہیں جن سے ربوبیت اور جزا و سزا کی شہادت ملتی ہے۔ اس بات کو قرآن مجید نے نہایت واضح لفظوں میں یوں بیان کر دیا:

  ’’ہم عنقریب دکھائیں گے ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں اور خود ان کے اندر۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ شدنی ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز پر گواہ ہے۔ آگاہ! وہ شبہ میں مبتلا ہے اپنے رب سے ملنے کے باب میں ۔ آگاہ! وہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے‘‘ (سورہ حٰمٓ السجدہ، آیات:53-54)۔

جزا اور سزا: یعنی اللہ تعالیٰ اپنے علم و قدرت، اپنے تصرف و انتظام اور اپنی حکمت و رحمت سے تمام عالم کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے جس میں لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا و سزا ملے۔

  قرآن مجید میں یہ استدلال مختلف طریقوں سے بیان ہوا ہے لیکن اس کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس بات کو یاد رکھا جائے کہ خدا کی صفات میں ربوبیت اور عدل دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔ ربوبیت کا تصور عدل کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن مجید صاف لفظوں میں اعلان کرتا ہے کہ آسمان و زمین کا قیام عدل ہی سے ہے:

’’اگر حق ان کی خواہشوں کے تابع بن جاتا تو آسمان و زمین اور جو اِن کے اندر ہیں سب تباہ ہوجاتے‘‘ (سورۃ المومنون، آیت:71)۔

اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ حق سے مراد حکمت و عدل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی عدل اور حکمت بیان ہوئی ہے؛ چنانچہ کائنات میں جس قدر عجائب قدرت و صنعت آپ دیکھتے ہیں ان سب میں اس امر کی شہادت موجود ہے کہ وہ ایک حکیم مدبر کی تدبیر و حکمت سے وجود میں آئی ہیں اور یہ اس امر کی ناقابل انکار دلیل ہے کہ یہ عالم ایک غایت و مقصد کے ساتھ وجود میں آیا ہے اور یہ ایک ایسے انجام پر ختم ہوگا جو سراسر رحمت و حکمت ہے۔ پھر یہیں سے یہ بات بھی نکل آتی ہے کہ وہ ہر صاحب عمل کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دے اور برے اور بھلے میں امتیاز کرے۔ اس بات کو دوسرے مقامات میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے:

  ’’کیا ہم فرماں برداروں کو نافرمانوں کی طرح کر دیں گے۔ تم کو کیا ہوگیا ہے، کیسا فیصلہ کرتے ہو؟‘‘ (سورۃ القلم، آیات:35تا 36)۔

 دوسری جگہ فرمایا: ’’بے شک خلق کا آغاز وہی کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرے گا تاکہ ان لوگوں کو عدل کے ساتھ بدلہ دے جو ایمان لائے اور جنھوں نے بھلائیاں کیں ‘‘ (سورہ یونس، آیت:4)۔

 اسی طرح فرمایا ہے: ’’ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جو آخرت کے منکر ہیں ۔ ان کافروں کیلئے دوزخ کے سبب سے ہلاکی ہے۔ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنھوں نے بھلے کام کئے زمین میں فساد مچانے والوں کی طرح کر دیں گے؟ کیا ہم خدا سے ڈرنے والوں کو نافرمانوں کی طرح بنا دیں گے‘‘ (سورہ ص، آیات: 27تا 28)۔

  یہی بات قرآن مجید میں مختلف مقامات میں مختلف طریقوں سے بیان ہوئی ہے اور ہر جگہ مقصد ایک ہی ہے کہ خدا کی صفات حکمت، رحمت اور عدل کا لازمی تقاضا ہے کہ روزِ جزا کا ظہور ہے۔

 قیامت سے مقصود صالحین پر رحمت ہے۔ رہا عذاب کا معاملہ تو یہ ایک پہلو سے رحمت کے ساتھ عدل کا لازمی تقاضا ہے، جس میں مظلوموں کی طرف سے انتقام شامل ہے، اور دوسرے پہلو سے حق کو قائم اور برقرار رکھنے کی غرض سے ہے کیونکہ نیک اور بد دونوں کے ساتھ ایک جیسا معاملہ کرنا ایک لحاظ سے ظلم اور دوسرے اعتبار سے حقائق ثابتہ کو ٹھکرا دینے کے مترادف ہے۔ دلیل اس بات پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:

 ’’اس نے خود پر رحمت واجب کر رکھی ہے۔ وہ تم کو ضرور لے جائے جمع کرکے قیامت کے دن کی طرف جس میں ذرا شبہ نہیں ‘‘ (سورہ انعام، آیت:12)۔

اور یہ آیت بھی: ’’بے شک خلق کا آغاز وہی کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرے گا تاکہ ان لوگوں کو عدل کے ساتھ بدلہ دے جو ایمان لائے اور جنھوں نے بھلائیاں کیں اور جنھوں نے کفر کیا ان کیلئے ان کے کفر کی پاداش میں کھولتا پانی اور درد ناک عذاب ہے‘‘ (سورہ یونس، آیت:4)۔

 نیز فرمایا ہے: ’’کیا ہم فرماں برداروں کو نافرمانوں کی طرح کر دیں گے۔ تم کو کیا ہوگیا ہے، کیا فیصلہ کرتے ہو؟‘‘ (سورہ قلم، آیات:35-36)۔

تبصرے بند ہیں۔