قربانی، تفریح یا عبادت: چند حقایق اور غور طلب باتیں

پروفیسرعرفان شاہد

قربانی در اصل قربان سے بنا ہواہے ۔ قربان کے بنیادی معنیٰ ہے کسی کے اوپر فدا یا نثار ہونے کے ہیں ۔ لفظ قربانی عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں مستعمل ہے ۔ اصطلاح میں قربانی کے معنی عید الاضحی کے دن اللہ کے رضا کی خاطر بکرہ یا دنبہ وغیرہ ذبح کرنا ہے۔ لفظ قربانی معنوی اور اصطلاحی طور پرایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔ قرآن و حدیث کے زبان میں قربانی کو’’اُضیحۃ‘‘ کہتے ہیں بڑے بڑے محدثین نے بھی قربانی کے لئے اسی لفظ کو استعمال کیا ہے ۔بڑے ہی قابل مبارک باد ہیں وہ لوگ جنہوں نے لفظ اضحیۃ کا ترجمہ قربانی سے کیا ہے۔

بلاشبہ یہ قربانی ہمارے پیغمبر حضرت ابراھیم علیہ السلام ،ابو الانبیاء کی ایک عظیم یادگار ہے جو آج کے مسلمانوں کے لئے بس سیر و تفریح کی چیز سی بن کر رہ گئی ہے۔ آج مسلمانوں کی دو تہائی آبادی کی سوچ قربانی کے متعلق ایسے ہی ہے جیسے کچھ عیسائی لوگ اتوار کے دن کو تصور کر تے ہیں ۔کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی کی معنی نیا کپڑا خریدکر پہن لینا اور اس کے ساتھ بکرے وغیرہ ذبح کرکے کچھ گوشت لوگوں کے درمیان تقسیم کردینا اور کچھ گوشت اپنے مصرف میں لے آنا ۔آجکل کچھ چاند وتارے والے بکرے بھی دیونار مارکیٹ میں نمودار ہوئے ہیں ۔ لوگ اسے تبرک سمجھ کر خرید تے ہیں اور اس پر بے انتہاء پیسہ خرچ کرتے ہیں ۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ چاندو تارے والے بکرے کی قربانی سے انسان کا مرتبہ بڑھ جا تا ہے اور اس کے اگلے پچھلے سا رے گناہ معاف ہوجا تے ہیں اور وہ لوگ بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہو جائینگے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی کے بکرے میں کو ئی عیب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات بالکل درست ہیکہ قربانی کا جانور عیب سے پاک ہولیکن وہیں پر ایک بہت بڑ ی بات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے وہ انسان کے رزق سے تعلق رکھتا ہے۔ جس طرح سے نماز پڑھنے کے لیے انسان کا پاک ہونا ضروری ہے ٹھیک اسی طرح سے انسان کا مال بھی پاک ہونا چاہیے۔کیو ں کہ جس طرح نماز کے لیے جسم کی طہارت ضروری ہے ٹھیک اس طرح سے قربانی کے جانور کو خریدنے کے لیے انسان کا رزق حلال ہونا چاہیے۔اسکی عدم موجودگی میں قربانی تو ہو جائیگی لیکن جس ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے اس سے وہ انسان محروم رہ جائے گا۔

افسوس! لوگ دن بدن قربانی کے معنی اور مفہوم سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں ۔اسلام عورتوں کو بغیر محرم کے گھر سے با ہر جانے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی ایسے لباس پہننے کی تعلیم دیتا جس کو پہننے کے بعد بھی انسان ننگالگے ۔ لیکن پھر بھی اس کے باوجود غیر تعلیم یا فتہ لوگوں کے گھروں سے لیکر علماء اور ادباء کے گھر اس شیطانی عمل سے محفوظ نہیں ۔ بہت کم ہی لوگ ہیں جو ان تمام چیزوں کا خیال رکھتے ہیں اور اس سے بچنے کی کو شش کرتے ہیں ۔مسلمانوں کی اسّی فیصد عورتیں عیدالفطرو عید الاضحی سے قبل والی رات کو اسقدر شا پنگ کرتی ہیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دنیا میں صرف شاپنگ کرنے کیلئے پیدا کیا ہے۔ ویسے اس کے علاوہ بھی بہت سا رے مسلم مرد اور عورتیں بے شمار جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں جسکو اس مو ضوع کے منا سبت سے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ سمجھدار کے لئے اشارہ کافی ہے۔

اسطرح سے قربانی کی اسقدر دھجیاں اڑائی جاتی ہیں کہ شاید دنیا میں کسی اور مذہبی تیوھار کا مذاق اڑایا جا تا ہو جسکا تعلق رضائے الہٰی کے حصول سے ہو ۔ گزشتہ دہایوں میں کئی ایسے واقعے ہوئے ہیں جس میں ایک مسلمان بھائی نے اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو اس بات پر قتل کردیا کہ پہلے کون قربانی کرے۔اگر یہ قربانی خوف خدا اوررضائے الہٰی کے حصول کی خاطر ہوتی تو یہ جرائم ہرگز صادر نہ ہوتے لیکن افسوس صد افسوس اب تو قربانی محض ریا اورنمو دکی چیزبن کر رہ گئی ہے۔

ہمارے اس ملک میں ہمارے ساتھ کچھ برادران وطن بھی رہتے ہیں جن کو خون اور گوست سے ڈر لگتا ہے یا جو لوگ گوست نہیں کھاتے ہیں ۔ ہمیں قربانی کے دوران اس بات کا خیال کرنا چاہے لیکن ہم اس بات کا خیال نہیں کرپارہے ہیں ۔ان برادران وطن میں سے کچھ لوگ اسلام اور انسانیت کے متعلق اپنے دل میں بہت نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ ہمیں ان کے جذبات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ یہ مستقبل میں اسلام کے قریب آسکتے ہیں ۔اسکے علاوہ انکی ایک اچھی خاصی تعداد ہے جو ہندوستان کی عدالتوں سے لیکر پولیس اسٹیشنوں تک ہمارے حق کے لیے لڑتے ہیں ۔ہمارے جارحانہ عمل سے اگر وہ متنفر ہوتے ہیں تو ہم بھی ان کے اس تنفر میں ساجھی دار ہونگے۔

ہمارے سماج میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو بظاہر دیکھنے میں سفید پوس لگتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ضرورتمند ہوتے ہیں ، انکی غیرت اورحمیت انکو سوال کرنے نہیں دیتی ہے۔ایسے لوگ ہماری مدد کے زیادہ مستحق ہیں ۔ اسلام نے انہی لوگوں کو اصل مستحق قرار دیا ہے لیکن ٓاج لوگ مستحق اسی کو سمجھتے جو چرب زبانی اور بے حیائی سے اپنے آپ کو غریب ثابت کردے۔ خاموش طبع انسان اپنی غیرت کی وجہ سے اپنی زبان نہیں کھول پاتا اور اپنی ضرورت کو اپنے سینے میں لیکر مر جاتا ہے لیکن سؤاتفاق ہماری نظر اس طرف نہیں جاپارہی ہے۔ اور جائے بھی کیسے، کیو نکہ قربانی کے پیچھے ہمارا مطمع نظر عبادت نہیں ہے۔ ہم قربانی محض تفریح کے لیے کرتے ہیں ۔ ہم قربانی کرکے سارا اچھا گوشت فریز میں بھر دیتے ہیں ، اور اگر تقسیم کرنے کی نوبت آجائے تو ہم معیار کے اعتبار سے جو سب سے کم درجے کا ہو اسے غریبوں اور مسکینوں کے درمیان تقسیم کرتے ہیں ۔ اسلام اسکی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ہمیں اس قبیح عمل سے بچناچاہیے اور دوسروں کو بھی اس پر آمادہ کرنا چاہیے۔ آجکل بہت سے بے ضمیر لوگ مسلمانوں کا لباس (برقعہ اور کرتا) پہن کے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں ۔صدقہ وخیرات بڑی اچھی بات ہے لیکن تھوڑی تحقیق اور تفکر کی محتاج ہے۔

قربانی ہمارے لئے ایک عظیم یادگار جسکی مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ آپ تھوڑی دیر کے لئے یہ تصور کیجئے کہ ماں باپ سمیت دنیا کے سارے لوگ آپ کے دشمن ہوگئے ہوں ۔ اور آپ کی زندگی عمر کے آخری دہلیز پر ہو اور آپ کے پاس کوئی بچہ بھی نہ ہو اور آپ کافی بوڑھے بھی ہوگئے ہوں ۔ یکایک اللہ رب العزت آپ کو ایک نر ینہ بچہ عطا فرما دے ۔ آپ کا یہ نرینہ بچہ آپ کی اطاعت بھی نہ کرتا ہو اور ہمیشہ آوارگی میں مبتلا رہتا ہو اور آپ کو تکلیف بھی پہنچاتا ہو۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ اگر آپ سے یہ مطالبہ کرے کہ آپ اپنے بچے کی ایک ٹانگ کا ٹ کر اللہ کے راستے میں قربان کردیں ۔ تو آپ میں سے کیاکوئی والدین اتنی بڑی قربانی دینے کیلئے تیار ہوگا؟ ہرگز ہرگز کوئی تیار نہ ہوگا۔ آجکل لوگ مسجد میں بیٹھ کر دس مرتبہ درود پڑھ لینے کو جہاد اور حج سے بھی افضل تصور کر لیتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی والدین اپنے نا فرمان بیٹے کی ایک ٹانک کو اللہ کے راستے میں قربان کر سکے ۔

اب آپ ہی سوچئے کہ ہمارے ابو الانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام سے (اللہ تعالیٰ کے علاوہ) پوری دنیا نا راض ہوگئی تھی۔ اور آپ بہت زیادہ ضعیف بھی ہوگئے تھے ۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے ایک ولد صالح (شریف بچہ) کے لئے دُعا کی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ مراد پوری کردی اور آپ کو نرینہ بچہ عطا فرمایا۔ یہ نر نیہ بچہ بھی کوئی عام بچے کی طرح نہیں تھا بلکہ اپنے پروردگار اور اپنے والدین کا اسقدر مطیع و فرمانبردار تھا کہ اسکی کوئی نظیر دنیاء عام میں نہیں ملتی ہے۔ ایسے میں ابوالپیغمبرحضرت ابراھیم علیہ السلام سے خواب میں بچے کی قربانی مانگی جا تی ہے اور آپ خواب کو حقیقت میں پورا کر کے دکھا دیتے ہیں قرآن نے اس واقعہ کوبیان کرنے کے لئے صدقت الرویا‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچالیتے ہیں اور انکے بدلے میں ایک دنبہ قربانی کے لئے پیش کیا جا تا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کا مسلمان ہر گز اس امتحان میں کامیاب نہ ہوتا ااور اس تیوھار کوبڑی آسانی سے بھول جا تے۔ جس طرح ہم بہت سارے اسلام کے فرائض کو بھول گؤ ہیں۔

آج پوری دنیا مسلمانوں کے لئے تنگ ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ ایک زمانہ تھا کی مسلم قوم دنیا کے لئے ایک نمونہ تھی ۔ غیر مسلم حضرات اپنے معاملات بھی مسلمانوں کے پاس لایا کرتے تھے اور یہ تصور کرتے تھے یہ ہمارے درمیان انصاف کا پہلو قائم رکھیں گے لیکن آج دنیا میں مسلمانوں کی اہمیت نہیں رہ گئی۔ علامہ اقبال نے اس جذ بے کی ترجمانی کی ہے۔

وضع میں تم ہو نصاری توتمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

ٓآج بنگلادیش سے لیکر مصر اور سیریا تک مسلمانوں کو کاٹا جارہا ہے، پورے دینا کے مسلمان خاموش تماشائی کی طرح یہ سارا ظلم دیکھ رہے ہیں ۔ہماری عید مکمل نہیں ہوگی اگر ہم نے ان کے غم و مصیبت میں حصہ نہیں لیا۔ اسلام، ایمان کی علامت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر مشرق میں رہنے والے کسی مسلمان بھایی کو تکلیف ہو تو اسکا احساس مغرب میں رہنے والے مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے۔اگر ہم کچھ نہیں کرسکتے تو کم سے کم نمازوں میں ان ظالم اور جابر وں کے خلاف قنوظ نازلہ پڑھ سکتے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہوپارہا ہے تو ہمیں اپنے ایمان کا جا ئزہ لینا ہوگا ۔ اور جب ایمان نہیں ہوگا تو ہمارا یہ عمل دنیا میں ہی رہ جائے گا اور آخرت میں اسکا کوئی اجر نہیں ہوگا ۔

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ

آج ہماری یہ دنیا ظلم وستم سے کراہ رہی ہے۔بلاشبہ اس کے ذمہ دار خود مسلمان ہی ہیں ۔ دنیا کو پھر براہیمی نظر کی تلاش ہے اگر آپ کے اندریہ براہیمی نظرپیدا ہو جائے تو پھر آپ کے ہاتھ میں دنیا کا زمام کا ر آجا ئے گا۔ لیکن براہیم نظر پیدا کرنے کے لئے آپ کو اس شعر کا مصداق بنانا ہوگا۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

تبصرے بند ہیں۔