رام رحیم نہیں ہوسکتے اور نہ ر حیم رام

حفیظ نعمانی

بابا گرمیت رام رحیم کہے جانے والے کو اُن کے ڈیرہ سچا سودا میں 15  برس پہلے کے ایک جرم میں سی بی آئی نے ملوث پایا اور خصوصی عدالت نے دفعہ 376  کا ملزم مان لیا جس کی سزا 28  اگست کو سنائی جائے گی۔

بابا سے اندھی عقیدت رکھنے والوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ 25  اگست کو جو فیصلہ ہوگا اس میں بابا بے قصور ثابت نہیں ہوں گے۔ وہ رفتہ رفتہ 22  اگست سے ڈیرہ کے علاقہ میں جمع ہورہے تھے اور ہریانہ حکومت دیکھ رہی تھی اور سمجھ رہی تھی کہ اگر بابا کو سزا ہوگئی تو بابا کے ماننے والے کیا کریں گے؟ لیکن ہریانہ میں وزیراعلیٰ وہ ہیں جو وزیراعظم کے چہیتے ہیں اور جاٹوں کی ریزرویشن تحریک میں آخری درجہ کے نااہل ثابت ہوچکے ہیں۔ اور حکومت سنبھالنے کے بعد بار بار بابا کی قدم بوسی کرچکے ہیں اور ایک باخبر سیاست داں کے کہنے کے مطابق اسی 15  اگست کو بابا کے جنم دن پر اُن کو 51  لاکھ روپئے بھیج چکے ہیں ان کی کیا ہمت تھی کہ وہ بابا کے ماننے والوں کو جمع ہونے سے روکتے اور جو آگئے تھے ان کو طاقت سے منتشر کرتے؟

25 اگست کی صبح سے چپہ چپہ پر پولیس اور نیم فوجی دستے تھے لیکن وزیر اعلیٰ نے دفعہ 144  بھی نہیں لگائی اور بابا کے ماننے والے بھی برابر بڑھتے رہے۔ اور جب بابا کا قافلہ روانہ ہوا ہے تو کیا وزیراعظم اور کیا امریکی صدر سب مات تھے۔ وہ کالے شیشوں والی کالی بڑی گاڑی میں تھے اور سیکڑوں کاریں اُن کے پیچھے چل رہی تھیں جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ صرف 20  گاڑیوں کو اُن کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے گی۔ اور تین بجے خبر آگئی کہ عدالت میں صرف سات آدمی ہیں اور بابا کو عدالت نے مجرم مان لیا ہے اور سزا 28  کو سنائی جائے گی بابا کے ماننے والوں کو اس کا انتظار تھا اور وہ آپے سے باہر ہوگئے۔

فوج کو نیم فوجی دستوں کو اور پولیس کو یہ حکم نہیں تھا کہ غنڈہ گردی کو طاقت سے روکے بلکہ آنسو گیس سے زیادہ کی شاید اجازت نہیں تھی اسی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے وہی کیا جو جاٹوں نے کیا تھا اور یہ بھی ہوا کہ بابا کے نہتے چیلے مسلح پولیس کو دوڑا رہے تھے اور پولیس ڈرکر بھاگ رہی تھی اور زخمی ہورہی تھی۔ لیکن اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنی حفاظت میں بھی گولی چلادے۔ اسے معلوم تھا کہ ملک کے ہندوئوں پر گولی نہیں چلائی جاتی۔ بابا کے ماننے والوں نے ہر اس چیز کو جلا دیا اور برباد کردیا جو سامنے آئی اور ان کا سب سے خاص نشانہ الیکٹرانک میڈیا تھا انہوں نے پترکاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈکر مارا اور کیمرے توڑے تاکہ فوٹو نہ لے سکیں ۔ اور وہ اس لئے کامیاب ہوئے کہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ بار بار کہہ رہے تھے کہ سرکار کی طرف سے ہر نقصان کی بھرپائی کی جائے گی جبکہ ہائی کورٹ وہ رویہ اپنائے ہوئے تھے جو حکومت کا ہونا چاہئے تھا کہ سختی کی جائے۔

پورا ملک جانتا تھا کہ وزیراعظم اور ہر ریاست کا وزیر اعلیٰ اور ہر پارٹی کا لیڈر بابا کے دربار میں دُم ہلاتا ہوا آتا ہے اور بابا اس سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ بابا کا دربار وہ ہے جہاں پرکاش سنگھ بادل بھی ہاتھ جوڑے کھڑے نظر آتے ہیں اور کیپٹن امریندر سنگھ بھی اور ہریانہ کے اوم پرکاش چوٹالہ نے تو جب وہ وزیر اعلیٰ تھے سی بی آئی سے اس معاملہ میں انکوائری کی مخالفت کی تھی۔

بابا کے خلاف جو الزام تھے وہ سورج اور چاند سے زیادہ سچے تھے 15  برس میں اس فیصلہ تک آنے میں سی بی آئی نے نہ جانے کتنا پسینہ بہایا ہوگا؟ اسے معلوم تھا کہ فیصلہ سنانے کے بعد کیا ہوگا؟ لیکن ان کے سامنے شکایت کرنے والی نے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ بابا گرمیت رام رحیم کے ماننے والوں میں جو پڑھے لکھے ہیں ہم ان سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ایک آدمی کا نام رام رحیم کیسے ہوسکتا ہے؟ رام چندر جی کے ماننے والے تو 33  کروڑ دیوی دیوتا کو مانتے ہیں اور رحیم کو ماننے والے اگر ان کے علاوہ کسی ایک کو بھی اور مان لیں تو وہ مشرک ہوجاتے ہیں مسلمان نہیں رہتے۔ سناتن دھرم جسے ہندو مانتے ہیں اس میں توحید نہیں ہے اور اسلام میں پہلا سبق ہی لاالہ سے شروع ہوتا ہے اور الااللہ پر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر بابا کا نام گرمیت رام ہے تو ٹھیک ہے آگے رحیم کی گنجائش کہاں ہے؟ رحیم تو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک نام ہے رحیم ہے رحمن ہے کریم ہے سلام ہے قادر ہے قدیر ہے یہ وہ نام ہیں جن میں سے جسے چاہے پکارے مراد وہی ایک ذات ہوگی۔ ہم نے اپنے بزرگوں کو دیکھا ہے کہ اگر مرض کی تکلیف زیادہ ہوئی تو کسی کے منھ پر یا کریم کسی کی زبان پر یا رحیم اور کسی کو یا سلام کا ورد کرتے دیکھا۔ نام الگ الگ ضرور ہیں لیکن وہ صرف اللہ سے تکلیف کم کرنے کی فریاد ہے۔

ہم برسوں سے بابا گرمیت رام کو دیکھ رہے ہیں انہیں ہر طرح کی پوشاک میں بھی دیکھا اور ہر طرح کا روپ بھرے ہوئے بھی دیکھا لیکن کبھی یاد نہیں کہ اس رنگ میں دیکھا ہو کہ وہ اپنے ماننے والوں کو انسانیت اور اخلاق کا سبق پڑھا رہے ہوں ؟ اور جب وہ بار بار کہہ چکے تھے کہ میں قانون کا احترام کروں گا اور جو اس کا فیصلہ ہوگا اسے مانوں گا تو انہوں نے کیوں اپنے چاروں طرف بھیڑ اکٹھی ہونے دی؟ اور کیوں ان کے لئے لنگر کھول دیا کہ کھائو پیو اور پڑے رہو۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ جج صاحبان اپنا فیصلہ کسی کو بتا دیتے ہیں ۔ لیکن سی بی آئی کو اندازہ تھا کہ فیصلہ کیا ہوگا۔ اس لئے کہ اس نے ہی کیس تیار کیا تھا۔ اور حکومت کے ذمہ دار بھی سمجھ گئے تھے کہ کیا ہونے والا ہے؟ لیکن نااہل حکومتوں نے صرف یہ کوشش کی کہ ان کی تیاری کو دیکھ کر سب ڈرجائیں اور ان احمقوں نے یہ نہیں سوچا کہ جاٹوں نے تو پورے ہریانہ کو جلاکر خاک کردیا تھا اور اس سے زیادہ پولیس تھی لیکن گولی ایک نہیں چلی کیونکہ ہندوستان میں ہندو پر ہندو کی گولی نہیں چل سکتی۔ ہریانہ ہریانہ ہے کشمیر نہیں ہے۔ ہریانہ میں پتھر بازوں نے بتا دیا کہ پتھر بازی کیسے ہوتی ہے اور کشمیر کے لڑکوں کو دکھا دیا کہ پتھر بازی کیسے کی جاتی ہے؟ اور یہ آخری درجہ کی بات ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے ہریانہ سے رپورٹ مانگی ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ بھی بابا گرمیت سے ڈرتے ہیں ۔

اور ایک دوسرے بابا ساکشی مہاراج تو کھل کر بابا گرمیت رام کے ساتھ کھڑے ہوگئے کہ ایک لڑکی کی بات مان لی اور کروڑوں کی بات نہیں مانی۔ وہ بی جے پی کے ایم پی ہیں انہیں یہ کہتے شرم بھی نہیں آئی کہ جس ڈیرہ کو عیاشی اور مافیا کا اڈہ ثابت کیا گیا ہے اسے مندر مانا جائے۔ ساکشی کو کیا نہیں معلوم کہ کتنے بابا ہیں جن پر 376  دفعہ کے تحت مقدمے چل رہے ہیں اور کتنے جیل میں ہیں ۔ ساکشی مہاراج کو ہم نے جب دیکھا ایک ہی رنگ میں دیکھا اندر کا حال وہ جانیں لیکن بابا گرمیت تو ہر دن ایک نئے رنگ میں نظر آتے ہیں اور ڈیرے کے اندر کا حال اس خط میں لکھا ہے جو اٹل جی اور ہائی کورٹ کے ججوں کو لکھا گیا اور جواب بھی ہے اور اس کی لکھنے والی بھی ہے چٹان کی طرح کھڑی ہے اگر ہمت ہے تو ساکشی مہاراج بابا کی طرف سے پیروی کرکے دیکھ لیں ۔ رہی بات رام اور رحیم کی تو ہماری سمجھ میں تو یہ بھی نہیں آیا کہ ڈیرہ سچا سودا کا کیا مطلب ہے؟ ہوسکتا ہے کہ یہ ان کی سمجھ میں آگیا ہو جو حکومت کررہے ہیں اور ووٹوں کے لئے اس بابا کے دربار میں دُم ہلاتے ہوئے جاتے ہیں اور ان میں امت شاہ بھی ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔