دیوالی اور شمشان گھاٹ کی سیاست

مودی جی لاکھ ترقی اور فلاح کی باتیں کریں مگر ان کی فرقہ پرستانہ ذہنیت ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی   ؎ چھٹتی نہیں ہے کافر منہ کی لگی ہوئی  ۔ اسی فرقہ پرستانہ ذہنیت کا ہی کرشمہ ہے کہ آج وہ وزیر اعظم ہیں ۔ گجرات میں انھوں نے ہندو اور مسلمان کی ایسی تفریق کی کہ ہندو فرقہ پرستوں کے چمپئن ہوگئے ہیں ۔ آر ایس ایس کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ وہ وزیر اعظم کے عہدہ کیلئے بھاجپا کی طرف سے نامزد امیدوار ہوگئے۔ 24/25 فیصد پہلے ہی سے فرقہ پرستی کو دل سے پسند کرنے والے ووٹرس تھے۔ 5/6 فیصد ووٹروں کی تعداد نریندر مودی نے اپنی شاطرانہ ذہنیت سے بڑھالی ۔ نعرہ دیا ’’سب کا ساتھ سب کا ویکاس‘ ، ’اچھے دن آئیں گے‘‘ 5/6فیصد ووٹرس اس جھانسے میں آگئے اور 31فیصد ووٹروں نے ان کے حق میں ووٹ دے کر انھیں وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دیا۔

 مودی جی گجرات میں جس طرح فرقہ پرستی کی اور فرقہ وارانہ فساد برپا کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ جگ ظاہر ہے۔ اب وہ پورے ہندستان کو گجرات کے راستہ پر ڈالنا چاہتے ہیں ۔ فرقہ پرستی کی فصل اگاکر کاٹنا چاہتے ہیں ۔ فتح پور ضلع کے ایک انتخابی جلسے میں انھوں نے کہاکہ جب ہر گاؤں میں قبرستان ہے تو ہر گاؤں میں شمشان بھی ہونا چاہئے۔ رمضان میں جس طرح بجلی دی جاتی ہے، دیوالی میں دی جانی چاہئے۔ قبرستان، شمشان گھاٹ ، رمضان اور دیوالی کا نام لے کر حقیقت میں ہندو مسلم کا نام لینا ہوا اور سامعین کو بتانا یہ تھا کہ اکھلیش کی حکومت قبرستان والوں کا خیال کرتی ہے، شمشان گھاٹ والوں کو نظر انداز کرتی ہے۔ رمضان میں بجلی زیادہ سپلائی کرتی ہے جبکہ دیوالی میں ایسا نہیں کرتی۔ قبرستان اور شمشان، رمضان اور دیوالی کا نام لے کر ووٹر کو پولرائز (Polarize) کرنے کی ایک کوشش ہے۔ مودی جی نے شاید بھانپ لیا ہے کہ سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے اتحاد سے ان کا مقابلہ ہے مگر اتحاد بھاجپا سے آگے جارہا ہے، لہٰذا اب ہندو کارڈ کھیلے بغیر اتحاد کو پیچھے کرنا مشکل ہے۔

 نریندر مودی کو بہار اسمبلی الیکشن کا رزلٹ نظر آنے لگا ہے۔ اب وہ وکاس (ترقی) کی بات بھول گئے ہیں مندر کا مدعا بھی کام نہیں آرہا ہے۔ اب سیدھے سیدھے اپنی پارٹی کو ہندوؤں کی پارٹی بتانے پر مصر ہیں اور سماج وادی پارٹی اور کانگریس غیر ہندوؤں اور مسلمانوں کی پارٹی بتانے میں اپنی پارٹی کا انھیں بھلا نظر آرہا ہیْ سپریم کورٹ نے ہدایت جاری کی ہے کہ مذہب کے نام پر پارٹیاں الیکشن نہیں لڑسکتی ہیں یعنی الیکشن کے موقع پر منافرت پھیلاکر الیکشن لڑنا غیر قانونی ہوگا۔ نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم ہیں ۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہے ہیں ۔ اپوزیشن پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ الیکشن کمیشن کو انتخابی کوڈ کی خلاف ورزی پر متوجہ کرے اور وزیر اعظم کے خلاف ایف آئی آر دائر کرے۔ انتخاب کے قاعدے اور قانون کو جو پارٹی یا لیڈر پامال کر رہاہے، اسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے۔ اگر ایسی کارروائی کمیشن کی طرح سے نہیں ہوتی تو پھر حالات خراب ہوسکتے ہیں اور انتخابی سیاست و جمہوریت بے معنی ثابت ہوسکتی ہے ۔ ایک سیاسی تجزیہ نگار نے نریندر مودی کے فرقہ پرستانہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ملک کو تقسیم کی طرف دھکیل رہے ہیں جس کے نتیجہ میں خون خرابہ ہوسکتا ہے اور ملک کو زبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

مودی جی 2014ء کا انتخابی ہوا اتر پردیش میں پیدا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے مگر دو تین مرحلے کے الیکشن سے مودی جی کو خبر مل گئی ہے کہ مودی لہر جیسی کوئی چیز اتر پردیش میں نہیں ہے۔ مودی جی کی مایوسی بڑھ گئی ہے جس کے نتیجہ میں وہ اول فول بک رہے ہیں ۔ کبھی سماج وادی، اکھلیش، کانگریس اور مایا وتی کے ناموں سے اسکیم (Scam) کی بات کر رہے ہیں ۔ کبھی بہوجن سماج پارٹی کو بہن جی سمپتی پارٹی بتا رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا میں اکثریتی طبقہ کی جانب سے نریندر مودی کے فرقہ وارانہ بیان پر زبردست مذمت ہوئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح نوٹ بندی کا منصوبہ مودی کیلئے الٹا ثابت ہوا تھا، یہ دیوالی اور شمشان گھاٹ والا بیان بھی ان کیلئے الٹا ثابت ہوگا۔

مودی کی ساری تدبیریں الٹی ثابت ہورہی ہیں ۔ ان کا بیان اور بھاشن (تقریر)  ووٹروں کو بہلانے پھسلانے میں ناکام ثابت ہورہا ہے۔ اتر پردیش میں بھاجپا کا چہرہ مودی کے سوا کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ چیز بھی بھاجپا کے ریاستی لیڈروں کو کھل رہی ہے جس کی وجہ سے آپس میں بھی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں ۔ غرض مودی جی اندر اور باہر کے حالات سے مایوس ہوگئے ہیں اور اب وہ مذہب کا کارڈ کھیلنے پر مجبور نظر آرہے ہیں ۔ اگر ان کو معلوم ہوا کہ یہ چیز بھی کام نہیں کر رہی ہے تو پھر کچھ اور ہی کھیل کھیل سکتے ہیں ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔