اُمت مسلمہ کی معاشی ابتری کا ازالہ (آخری قسط)

دینی اقدار اور معاشی جدوجہد: امت مسلمہ اگر اس معاشی جد وجہد میں اپنی اقدار اور اصول کو خیر باد کہہ کر کود پڑتی ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ اپنی معاش کو معیاری بنالے، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مسابقت کی اس دوڑ میں بہتوں کو پیچھے چھوڑ دے، لیکن اس بے اصولی شرکت کے کچھ نتائج ایسے ہوں گے جو بحیثیت مجموعی ملت کو شدید ضرر پہنچا سکتے ہیں اور اس ملک کے عمومی فساد میں اضافہ کرسکتے ہیں ۔

 پہلا فساد یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت اپنی فطرت کے اعتبار سے نا انصافی اور ناہمواری کو فروغ دیتا ہے۔ اس لئے اس دوڑ میں شرکت سے ملت کا ایک محدود حصہ مستفید ہوسکتا ہے۔ اس کی عظیم اکثریت کی غربت اور افلاس میں کوئی قابل اعتبار کمی واقع نہیں ہوسکتی۔ اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ ملت اسلامیہ ہند میں غریب اور امیر کا فرق نسبتاً ملک کی دوسری اکائیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا قوی امکان ہے کہ عصری طریقوں کو اختیار کرکے اس فرق میں اور بھی اضافہ ہوجائے۔

 کاروبار سے متعلق اسلامی ترجیحات:  دوسرا فساد یہ ہوگا کہ اگر ملت اسلامیہ نے اپنی قدروں اور اصولوں کو نظر انداز کرکے ہر طرح کے کاروبار میں ورکروں کے ساتھ حصہ لیا تو وہ اس ملک کے ظالموں کے ساتھ ظالم، چوروں کے ساتھ چور، اسمگلروں کے ساتھ اسمگلر اور دولت کے دیوانوں کے ساتھ دیوانوں کی ایک نئی فوج فراہم کر دے گی، جس سے ملک کو بھی نقصان پہنچے گا۔ ملت بھی اپنی امتیازی حیثیت کھودے گی۔ بدقسمتی سے اس وقت ملت کے نوجوانوں میں یہی رجحان پرورش پارہا ہے۔ کاروبار اور پیشہ کے انتخاب میں وہ اسلامی قدروں کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔ مثال کے طور پر وہ بھی دوسروں کی طرح فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ملازمت اختیار کر رہے ہیں ، جہاں شراب مینو کا جزو ہے۔ سٹہ بازار میں خیانت کے کاروبار میں شریک ہونے کو عصری تقاضہ سمجھتے ہیں ۔ اسمگلنگ میں ملوث ہوجانا معیوب نہیں سمجھتے، جرائم کے مافیا گروہوں کے ایجنٹ بن جاتے ہیں ، بلڈری کی غلط کاریوں اور استحصال کے عمل میں اسی طرح حصہ لیتے جس طرح دوسرے بلڈرس، پگڑی کا کاروبار کرتے ہیں اور اس کا شرعی جواز بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ مسلمان لڑکیاں اب بار ٹینڈر (شراب کی دکانوں ) میں (شراب فراہم کرنے والی) بن رہی ہیں ۔ ماڈلنگ کا کاروبار بھی اختیار کرنے میں ان کی ہچکچاہٹ دور ہورہی ہے۔

 جہاں تک سودی معاملات کا تعلق ہے تو اس میں بیشتر مسلمان کاروباری اب پوری طرح ملوث ہیں ۔ ایسے تاجر شاذ و نادر ملتے ہیں جو اس حرام سے بچنے کی کوشش کرتے ہوں ۔ اب تک وہ سود صرف ادا کرتے تھے مگر اب بعض سودی بینک بھی مسلمانوں کی طرف سے قائم کئے جارہے ہیں جن کا ادعا یہ ہے کہ وہ مسلمانوں میں سرمایہ کی فراہمی کا ’’مبارک‘‘ کاروبار کر رہے ہیں ۔ قرض اور سرمایہ کاری کی ایسی تنظیمیں بھی قائم ہورہی ہیں جو سود پر مبنی ہیں ، ان کے کار پرداز اب اس کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ اس کے جواز کی فکر کریں ۔ اب مسلمان ایسے اموال کی تجارت کرنے میں بھی عار نہیں محسوس کرتے جو اسلامی اقدار اور اصول سے صریح تجاوز ہیں ۔ انمیں سے بعض فحش کاروبار کی تعریف میں بھی آتے ہیں ۔ وہ ایسے رسالت نکالتے ہیں جو فلم کا کلچرل فروغ دیتے ہیں ، وہ عریاں اور غیر شائستہ فلم بھی بناتے ہیں ۔

اس وقت ملک میں صاف ستھرے اور دیانت دار تاجروں کی شدید کمی ہے ۔ ایسے صنعت کاروں کا قحط ہے جو لاگت اور نفع کے حساب میں عام سماج کے نفع اور ضرر کا لحاظ کرتے ہوں ۔ ان کی جسمانی اور اخلاقی صحت کو مضرت سے بچانے کو اپنے مالی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں ۔ اگر مسلمان اپنی معاشی جدوجہد میں ان قدروں کا لحاظ کریں ۔ دیانت داری کا طریقہ اختیار کریں ۔ اپنے مالی مفادات پر ملک و ملت کی فلاح کو ترجیح دیں ۔ پیشہ اور اموال تجارت کے انتخاب میں اسلام کے ابدی اصولوں کو برتیں تو وہ ملک میں ایک ایسا گروہ بن کر ابھرسکتے ہیں جو عمومی خیر و فلاح کا حامل ہوگا اور ساتھ ہی ملک و ملت دونوں کی معاشی ترقی اور استحکام میں وہ ایسا رول ادا کرسکیں گے جو خیر امت کے شایان شان ہوگا۔

 اس راہ پر چلنا آسان نہیں ہے،اس راہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس پر چلنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی نصرت حاصل ہوگی۔ قرآن کریم اس ارشاد: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰی وَ یُربِیْ الصَّدَقَات کا حقیقی مدول یہی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بموجب صادق اور امین تاجر، یوم قیامت اسی طرح سرخرو ہوگا جس طرح کہ شہداء اور انبیاء التاجر الصدوق الامین مع النّبیین والصدیقین والشہداء (ترمذی)۔ سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والا، امانت دار تاجر (یوم قیامت) نبیوں ، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا)۔ مزید برآں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:

 ’’جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم اپنی راہ ان کو دکھاتے ہیں ‘‘ (العنکبوت:69)۔

 اگر کسب معاش حلال ذرائع سے کی جائے اور اپنی دولت و ثروت میں اللہ کے بندوں کا حق ادا کیا جائے۔ ان اخلاقی قدروں کا اصول اور لحاظ کیا جائے جو دین حق کی اساس ہیں تو معاشی جدوجہد بھی اللہ کی راہ میں جہاد بن جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکمت کے تحت یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اگر مومن اپنی بیوی اور بچوں کے حلق میں حلال لقمہ ڈالتا ہے تو یہ صدقہ کے مترادف ہے۔

 آپؐ کا ارشاد ہے : ’’جب آدمی اپنے گھر والوں پر آخرت میں اجر پانے کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو یہ اس کیلئے صدقہ بنتا ہے‘‘ (متفق علیہ)۔

 اس طرح آپؐ کا دوسرا ارشاد بھی نہایت معنی خیز ہے: ’’وہ دینار افضل ہے جسے آدمی اپنے بال بچوں پر صرف کرتا ہے پھر وہ جسے انسان جہاد فی سبیل اللہ کیلئے سواری پر خرچ کرتا ہے پھر جسے وہ جہاد فی سبیل اللہ میں اپنے ساتھیوں پر صرف کرتا ہے‘‘ (مسلم)۔

 دوسری بات یہ ہے کہ اگر غور و فکر اور تجزیہ سے کام لیا جائے تو اس معاشی نظام میں بھی بہت سے ایسے اور پیشے ہیں جو ایک مسلمان اپنے دین کی اقدار اور اصولوں کا لحاظ کرکے اختیار کرسکتا ہے۔ مثلاً ڈاکٹری، انجینئرنگ، درس و تدریس، نرسنگ وغیرہ، وہ اموال تجارت کے انتخاب میں حلال و حرام کو ملحوظ رکھ سکتا ہے اور اس مقصد اور نظریہ کے پیش نظر ایک نظام ترجیحات مرتب کرسکتا ہے، تاکہ وہ معاش بھی حاصل کرے اور انسانیت عامہ کے جسمانی اور اخلاقی فلاح وبہبود میں موثر رول بھی ادا کرسکے۔

 سب سے مشکل مسئلہ سودی نظام کا ہے جو عصری نظام اقتصاد کے رگ و ریشے میں پیوست ہے، اس سے یکسر احتراز نہایت دشوار گزار عمل ہے، مگر امت مسلمہ اگر سود کی قباحتوں سے اسی طرح باخبر ہو جس طرح وہ زناکاری اور بددیانتی سے واقف ہے تو یہ امت رفتہ رفتہ اس سے بھی محفوظ ہوسکتی ہے، اس کیلئے عزم و ارادہ اور حکیمانہ تدبیر کی ضرورت ہے، مگر افسوس ہے کہ ایک طرف تو ملت کے سرمایہ کار اس کیلئے خود کو تیار کرنے کیلئے ابتدائی قدم بھی نہیں اٹھاتے۔ دوسری طرف بعض علماء کبھی دارالحرب کا حیلہ اختیار کرکے اور کبھی اضطرار کا عذر تلاش کرکے، ان کے عزم و ارادہ کو میٹھی نیند سلادیتے ہیں ۔

 سودی نظام کی شناعت سے اس وقت ماہرین معاشیات خوب اچھی طرح واقف ہیں مگر ان بے چاروں کی نظر میں راہ مسدود ہے اور متبادل ناقابل تصور یا ناقابل عمل ہے۔ تاجر اور صنعت کار اور عامۃ الناس سودی نظام کے جبر و استحصال سے دکھی ہیں ۔ اگر ملت کے علماء اور اس کے صنعت کاروں میں بعض جاں باز، اس نظام سے نجات دلانے کی کوششوں کا آغاز کریں تو ان کا ساتھ دینے والے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی ہوں گے، مگر افسوس یہ ہے کہ ہم ابتدائی قدم اٹھانے کو بھی تیار نہیں ہیں ۔ ہمارے علماء اور مصلحین کا حال تو یہ ہے کہ گنجائشیں نکالنے اور رخصت کی راہ نکالنے میں مصروف ہیں ۔

اسی طرح اگر اس کے صنعت کار اور سرمایہ کار اور دوسرے باصلاحیت تاجر اپنی جدوجہد میں ملت کے پچھڑے ہوئے افراد اور وسائل سے محروم نوجوانوں کو اپنے ساتھ اونچا اٹھانے کا منصوبہ بنائیں اور ساتھ ہی عدل و احسان کی روش اختیار کریں ۔ تو یہ طرز عمل ملت کے متعدد مسائل کا حل بھی فراہم کرے گا اور ایک ایسا سماج بھی وجود پذیر ہوگا جو انسانی اور اخلاقی قدروں پر استوار کیا جائے گا۔ اس کے اثرات ملک کے عام سماج پر بھی پڑیں گے۔ روزی کمانے اور معاشی ترقی حاصل کرنے کے ایسے عمل کے دوران جو خالص مادی اغراض کیلئے انجام دیا جاتا ہے۔ براہ راست اور بالواسطہ شہادتِ حق کا نہایت موثر ذریعہ بن جائے گا۔

اس مقصد کا حصول ممکن بنانے کیلئے مسلمانانِ ہند کے مخلص دانشور، علماء اور ماہرین کو باہمی مشورہ سے ترجیحات متعین کرنے کے علاوہ تعلیم، تفہیم اور اشاعت فکر کا ایک جامع منصوبہ تیار کرنا ہوگا۔ مغربی کلچر، سرمایہ دار نظام معیشت کی چکاچوند سے مرعوب ہوئے بغیر نئے حقیقت پسند اور بنیادی نقشہ کار تجویز کرنا ملت اسلامیہ کی خصوصی ذمہ داری ہے، مگر یہ دعوت الی الخیر ہے۔ احسان اور عدل کی ایسی پکار ہے جو عام افراد کی مادی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ ان کو روحانی اور اخلاقی سکون سے بھی ہمکنار کرسکتی ہے۔

تحریر: ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی … ترتیب: عبدالعزیز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔