دیوانگی کے رنگ!

عطیہ عادل

اس روز مسز ارسلان کو میو ہسپتال کے لیبر روم کے باہر بیٹھا دیکھ کر میرے قدم خود بخود سست پڑنے لگے۔ وہ بے حد مضمحل اور اداس نظر آ رہی تھیں۔ جی چاہا کہاآگے بڑھ کر ان سے حال احوال دریافت کروں۔

”اب آ بھی جاؤ افشی کی بچی ! پہلے ہی دیر ہو رہی ہے۔ ”

سیما کی تیز آواز میری سماعت سے ٹکرائی تو میں گھبرا کر اس کی طرف دوڑی۔ معاملہ ہی کچھ ایسا تھا۔ پھپھو جان کے پّتے کا آپریشن ہونے میں آدھ گھنٹہ رہ گیا تھا۔ میں اور سیما بمشکل دوائییں اور ڈرپ وغیرہ کا بندوبست کر کے بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے تھے۔سیما میری پھپھو ذاد تھی اور تقریباً میری ہی ھم عمر بھی۔ ھم دونوں بی اے کا امتحان دے کر فارغ ہوئیے تو سیما نے ایک پرائییوٹ سکول میں بطور ٹیچر ملازمت اختیار کر لی۔ جبکہ مجھے اس نے کراچی سے لگاتار فون کالز کر کے لاہور بلا لیا۔ اچھا بھلا وقت ہنستے کھیلتے گزر رہا تھا کہ اچانک پھپھو جان درد سے بے حال ہو کر بے ہوش ہو گئییں۔

اس وقت رات کا کوئی ایک بجا تھا۔ گھر میں کو ئی مرد بھی نہ تھا۔ پھپھپا جان کا تو برسوں پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ پھپھو جان کے دو ہی بچے تھے، جنید اور سیما۔ جنید بسلسلہ روزگار کینڈا میں مقیم تھے۔ وہ تو خدا کا شکر تھاکہ سیما نے بھلے وقتوں میں جنید سے گاڑی چلانا سیکھ لی تھی۔ ہم دونوں نے جیسے تیسے پھپھو جان کو گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال پہنچا دیا۔ ایمبولینس نہ بلا نے پر بعد میں جنید سے خوب ڈانٹ پڑی۔

ڈاکڑوں نے فوری طور پر پتّے کو نکالنا تجویز کیا۔ سیما بیچاری بوکھلا کر رہ گئی۔ فوری طور پر جنید کو کال ملا کر اطلاع دی گئی۔ بہرحال انہوں نے ہمیں تاکید کی کہ آپریشن کرانے میں تاخیر نہ ہو۔ ان کے تسلّی کے دو بولوں نے ہماری ہمت بندھادی۔ خدا خدا کر کے پھپھو آپریشن سے فارغ ہو کر گھر واپس آئییں۔ ملنے جلنے والوں کا تانتا سا بندھ گیا۔

ایک شام کال بیل بجی۔ میں نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے تو سامنے مسز ارسلان کو کھڑے پایا۔ بےحدنکھری نکھری اور تروتازہ لگ رہی تھیں۔ آگے بڑھ کرانہوں نے میرا ماتھا چوم لیا۔

”کیسی ہے میری پیاری بیٹی ؟ تمہیں دیکھنے کو تو آنکھیں ترس گئی تھیں۔ دراصل میں سیلکوٹ گئی ہوئی تھی۔ واپس آکر پتا چلا کہ تمہاری پھو پھو کی طبیت خراب ہے۔ اب کیا حال ہے؟ “

اور میں دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ ابھی کچھ دن پہلے میں نے انہیں ہسپتال میں دیکھا تھا۔ یہ سیالکوٹ کب گئیٰیں ؟ مسز ارسلان میرا ہاتھ پیار سے تھامے اندر چلی آئییں۔ انہں پھو پھو کے پاس بٹھا کر میں باورچی خانے میں چلی گئی۔ وہ جب بھی ملتیں بطور خاص مجھ پر شفقت کے پھول نچھاور کرتیں۔ کو ئی ایک ماہ پہلے پھو پھو کے گھر سے دو ایک بنگلےچھوڑ کر آباد ہوئی تھیں۔ پھو پھو ان کے بارے میں کچھ زیادہ نہ جانتی تھیں۔

چائیے کی ٹرالی گھسیٹتی میں پھو پھو کے بیڈ روم کے پاس پہنچی۔ اندر مسز ارسلان نہایت دھیمے لہجے میں باتیں کر رہی تھیں۔

” اسد تو خیر سے کیپٹن ہو گیا ہے۔ شاید میں نے پہلے آپ کو بتایا تھا کہ اب میں اس کے لیئیےپیاری سے دلہن کی تلاش ہے۔ آ پ کی بھتیجی افشاں کی بات کہیں ٹھہری ہوئی ہے؟ “

ان کی بات سن کر میں دروازے کے پاس کھڑی شرما کر رہ گئی۔ وہ اپنے بیٹے اسد کا تواتر سے ذکر کیا کرتی تھیں۔ اس کی عادات اور شرارتوں کا ذکر کرنا ان کا دلپسند موضوع تھا۔ یہی وہ خاکہ تھا جو میں نے اپنے سپنوں میں سجایا ہوا تھا۔ ہنستا

مسکراتا، پاک فوج کا سجیلا جوان۔۔ پھر ان کا بار بار میری تعریف کرنا اور ساتھ ہی اسد کا معنئی خیز انداز میں ذکر کرنا، میرے اندر کے خوابیدہ جذبے جگا چکا تھا۔ کچی عمر کی پہلی بارش دل کی آنگن میں پھول کھلا دیتی ہے۔ میں ایک ان دیکھے مسافر کی سنگت کے خواب دیکھنے لگی تھی۔

” شہزادی صاحبہ ! کیا کن سوئییاں لی رہی ہو ؟ “

اپنے خیالوں سے میں اس وقت چونکی جب سیما نے پیچھے سے آکر میری چٹیا کھینچ ڈالی۔ میں اس پر ایک قہر آلودہ نگاہ ڈال کر چائیے کی ٹرالی اندر لے گئی۔ مسز ارسلان پھو پھو سے کہہ رہی تھیں۔

” اب تو میری بھی صحت ٹھیک نہیں رہتی۔ “

اچانک ہی مجھے کچھ یاد آ گیا اور میں جلدی سے بول پڑی۔

” آنٹی جس روز پھو پھو کا آپریشن ہونا تھا، میں نے آپ کو ہسپتال میں دیکھا تھا۔

آپ بہت کمزور دکھائی دے رہی تھیں۔ طبیت تو ٹھیک تھی نا ؟ “

ان کے چہرے پر ایک سایا سا لہرا گیا۔ تھوڑی دیر بعد سنھبل کر سپاٹ لہجے میں بولیں۔

” مگر میں تو ہسپتال گئی ہی نہیں! “

” ارے آپ کو یاد نہں آ رہا آنٹی !! ہفتہ بھر پہلے کی تو بات ہے !! “

” اب چھوڑو بھی افشی !! ہو سکتا ہے تم نے مسز ارسلان سے ملتی جلتی کسی خاتون کو دیکھا ہو۔ “

پھو پھو میری بات کاٹ کر بیزاری سے بولیں۔ شاید وہ مسز ارسلان کو ذیادہ پسند نہیں کرتی تھیں۔ یا پھر وہ اب آرام کرنا چاہ رہی ہوں۔ ادھر میں عجیب شش و پنچ میں مبتلا ہو گئی۔ اس روز ہسپتال میں یقیناً مسز ارسلان ہی تھیں۔ میرا دل پورے وثوق سے مجھے یقین دلانے میں لگا ہوا تھا۔ لیکن میں نے اپنے خیالات کو جھٹک دیا۔ بعض اوقات نظریں دھوکا بھی تو کھا جاتی ہیں۔

جس واقعے کو اس روز میں نےمیں نے غیر ضروری قرار دے دیا تھا، وہی بعد میں دور رس نتائیج کا حامل ثابت ہوا۔ مگر پوری بات بتانے سے پہلے ضروری ہے اس کہانی میں جنید کا ذکر بھی تفصیل سے کر دیا جائیے۔

جنید کے بارے میں جیسا کہ آپ جان چکے ہیں کہ وہ میری پھو پھو کے بیٹے ہیں۔ پھو پھو اور سیما کی ھمیشہ سے ہی یہ خواہش رہی کہ میں جنید کے ساتھ منسوب کر دی جاؤں۔ میرے اپنے اندازے بھی یہی کہہ رہے تھے امّی اور ابّو کو بھی اس رشتے پر قطعی اعتراض نہ تھا۔ شاید وہ بھی جنید کی پاکستان آمد کے منتظر تھے، تا کہ ہم دونوں کو شادی کے بندھن میں باندھا جا سکے۔ ان تمام باتوں کے باوجود میں اس دل کا چاہ میں گرفتار ہو چکا تھا۔ اسد کی شخصّیت کا جو خاکہ مسز ارسلان نے کھینچھا تھا جو ہو بہو میرے آئییڈل کے مطابق تھا۔ بے حد شوخ، لاابالی پن، اور اپنے جذبوں کا بلا جھجھک اظہار کرنا، یہ وہ تمام خصوصیات تھیں جو میں اپنے ہونے والے جیون ساتھی میں دیکھنا تھی۔ جبکہ جنید تو ہمیشہ سے نہایت سنجیدہ اور چپ چاب رہتے ہیں۔

پھو پھو اب اپنے پرانے معمول کے مطابق گھر کی ذمہ داریاں سنھبالنے لگیں۔ ادھر سیما نے کئیی بار مجھ سے جنید اور میری شادی کے بارے میں رائیے پوچھی۔ لیکن میری خاموشی نے اسے سب کچھ سمجھا دیا تھا۔ لگتا تھا کہ پھو پھو بھی کچھ ناراض سی ہیں۔ تبھی تو مجھ سے کم کم بات کرتی تھیں۔ میں اپنی جگہ شرمندہ ہونے لگی۔ جی چاہا اڑ کر کراچی واپس اپنے گھر پہنچ جاؤں۔

سیما سے گھر کے لیئیے اپنی اداسی کا ذکر کیا تو وہ بولی۔

” پلیز افشی ایک دہ ہفتے اور رک جاؤ۔ جنید بھائی کے لیئیے لڑکی تلاش کرنی ہے۔ امّی نے تو ساری امیدیں تم سے وابستہ کی ہوئی تھیں۔ انہیں تمہارے سوا کوئی لڑکی چجچتی ہی نہیں۔ اب وہ کہہ رہی ہیں کہ افشی کے ساتھ مل کر اپنی بھابھی خود ہی ڈھونڈو۔ “

یہ سب کچھ اس نےاتنی لجاجت سے کہا میں انکار نہ کر سکی۔ سیما کی بھابھی کی تلاش کرنے کی مہم زور و شور سےجاری تھی اور میں اس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ ادھر مسز ارسلان جب بھی پھو پھو سے ملنے آتیں تو اپنے بیٹے کے لیئیے

میرے رشتے کا تقاضا کرنے لگتیں۔ پھو پھو نے تمام صورت حال ابّو کے گوش گزار کر دی۔ ابّو نے جواب میں کہا کہ وہ چند دن میں لاہور پہنچنے والے ہیں، اور پھر ہی اس سلسلے میں کوئی بات کر سکیں گے۔

پھر ایک روز سیما بے حد گھبرائیی ہوئیی اسکول سے واپس آئی۔ کھانے کے چند ہی نوالے اس نے بمشکل حلق سے نیچے اتارے اور مجھ سے فٹافٹ تیار ہونے کا تقاضاکرنےلگی۔

” آخر کہاں جانا ہے؟ کچھ پتا بھی تو چلے۔ “

میں نے سیما سے پوچھا۔

” مسز ارسلان کی بہن کے ہاں ! “

” وہ تمہیں کہاں ملیں ؟ “

” بھئی ابھی کچھ دن پہلے مسز رضیہ شکور ہمارے اسکول میں نئی ٹیچر بن کر آئی ہیں۔ آج ہی باتوں میں پتا چلا کہ وہ مسز ارسلان کی بہن بھی ہیں۔ میں نے ان سے تمہارا ذکر کیا اور بتایا کہ مسز ارسلان اپنے بیٹے سے تمہاری شادی کرناچاہتی ہیں، اور یہ کہ تم بھی رضامند ہو۔ بس پھر کیا تھا، وہ تو میرے پیچھے پڑ گئییں کہ آج ہی میں تمہیں لے کر ان کے گھر پہنچوں۔

سیما کی بات سن کر مین تھوڑی دیر کے لیئیے دم بخود رہ گئی۔ بہر حال ہم مطلوبہ پتہ لیے مسز رضیہ شکور کے گھر پہنچ گئیے۔ وہ بہت تپاک سے ملیں اور ہمیں اپنے ڈرائینگ روم میں بٹھا دیا۔ کچھ توقف کے بعد وہ مسز ارسلان کے بارے میں بتانے لگیں۔

”جب باجی اور ارسلان بھائی کی شادی ہوئی تو شروع کے چند سال تو بے حد خوش و خرم گزرے۔ بعد میں انہیں اپنے آنگن میں کھلنے والوں پھولوں کی کمی کا احساس ہونے لگا۔ خیر بڑی منتوں مرادوں اور علاج معالجوں کے بعد باجی کا پاؤں بھاری ہوا۔ دونوں میاں بیوی کی خوشی دیدنی تھی۔ بچے کہ پیدائیش میو ہسپتال میں ہوئی۔ اس وقت میں اور میری امّی بھی باجی کے پاس تھے۔ اللّہ تعالٰے نے انہیں ایک خوب صورت بیٹے سے نوازا۔ باجی نے اس کا نام اسد پہلے ہی سوچ رکھا تھا۔

لیکن نجانے ننھے اسد کو کس کی نظر لگ گئی۔ پیدائیش کے چند گھنٹوں بعد ہی اس کی سانس اکھڑ گئی اور اس نے باجی کی گود میں ہی دم دے دیا۔ اس موقع پر میں نے اور سیما نے ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور دوبارہ مسز شکور کی طرف متوجہ ہوئیے۔

” بیٹا تو اللّہ تعالٰے نے باجی سے چھین ہی لیا تھا لیکن اس کی یاد ان کے دل پر نقش ہو کر رہ گئی۔ دیکھنے میں وہ بالکل نارمل نظر آتی ہیں۔ بہت ملنسار اور شفیق بھی ہیں۔ لیکن اکژ انہیں دورے پڑتے رہتے ہیں۔ پھر تو جیسے وہ حواس کی دنیا میں نہیں رہتیں۔ انہوں نے ایک فرضی دنیا بنا رکھی ہے۔ جہاں ان کا اسد ایک گھبرو جوان بن چکا ہے اور فوج میں ایک بڑا افسر ہے۔ اگر طبیت زیادہ خراب ہو تو کسی کو بتائیے بغیر میو ہسپتال پہنچ جاتی ہیں جہاں ان کا اسد ہمیشہ کے لیے روٹھ گیا تھا۔ وہاں کسی کونے میں بیٹھ کر روتی رہتی ہیں۔ گھر والے پریشان ہو کر انہیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ زیادہ تر یہ اس لیے بھی ہوتا ہے جب وہ اپنی داو نہ لینے پر ضد کرتی ہیں۔“

”ان کے اور بچے نہیں ہیں؟“ سیما نے پوچھا۔

” اسی پاگل پن جیسی حالت میں ان کی ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی پر وہ اسد کو کھونے کا غم نہیں بھلا سکی۔ ان کی ذندگی اسی ہسپتال میں رک گئی ہے۔ “

یہ تمام باتیں سن کر ہم ہکّا بکّا رہ گئیے۔ ہم کچھ دیر وہاں بیٹھے اور حیران پریشان گھر لوٹے۔ آخر میں آپ کو بتاتی چلوں اس واقعے کو اب کئی سال گزر چکے ہیں۔ میں اب مسز جنید بن کر یہاں کینڈا میں مقیم ہوں۔ جب بھی دیار وطن کی یاد آتی ہے تو بہت سے اپنوں کے ساتھ مسز ارسلان کی شبہیہ بھی میری آنکھوں میں پھر جاتی ہے۔ دل سے دعا نکلتی ہے کہ خدا ان کی مامتا کے زخم مندمل کر دے اور وہ پرسکون زندگی گزار سکیں۔ مامتا کیا چیز ہے یہ میں اچھی طرح جان چکی ہوں۔ یہ انوکھا جذبہ ایک عورت کو خالق کائینات کا قرب عطا کرتا ہے۔ میں بھی اس جذبے میں پور پور بھیگی ہوں۔ خدا میرے تینوں بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔