دیکھو ذرا جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو!

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

گذشتہ سنیچر 19؍اگسٹ کومظفرنگرمیں پیش آئے دردناک ٹرین حادثہ نے سارے ملک کوغم واندوہ کی تصویر بنادیا،سوشل میڈیا پر گشت کرتی خوفناک تصویریں دیکھ کر اپنے پہلو میں دردمند دل رکھنے والا ہرشخص مضطرب اور بے چین ہوگیا اورکیوں نہ ہو جب کہ اس اندوہ ناک واقعےنےسب کےسامنے قیامت کانقشہ کھینچ کررکھ دیا،ایک دوسرے پر چڑھی ہوئی بوگیاں، ان میں پھنسے ہوئے مسافرین، آہ وزاری کرتی خواتین، روتے بلبلاتے بچے،زخموں سےچورحیراں وسرگرداں لوگ مختصر یہ کہ حادثہ کے بعد متأثرین ایسی بدحالی کا شکار تھے کہ ہر کوئی حواس باختہ نظر آرہا تھا۔

مظفر نگر میں اتکل ایکسپریس کےاس حادثہ کے بعدریلوے محکموں میں ایک دوسرےپر الزامات کا سلسلہ شرو ع ہوگیا اورکسی نے بھی اقبال جرم نہیں کیا؛جس کے نتیجےمیں ایسی متضاد تحقیقات سامنے آئیں کہ ہرکوئی اس بات پر دم بخود ہے کہ خطا وار کون ہے؟؟ مقامی لوگوں کی اطلاع کے مطابق، ٹریک پر مرمت کا کام چل رہاتھا،ٹرین آنے سے پہلے مرمت کرنےوالے کام ناقص چھوڑ کر الگ ہٹ گئے ؛جس کی بناءپر ٹرین حادثے کا شکارہوئی،اس کے برعکس کھتولی اسٹیشن کے سپرنٹنڈنٹ راجندر سنگھ نے کہا کہ ہمیں کسی بھی ٹریک کی مرمت کے بارے میں معلومات نہیں تھی، اگر کوئی مرمت کا کام تھا وہ تو انجینئرنگ محکمہ کومعلوم ہوگا، ہمیں نہیں پتہ، ہماری جانب سے کوئی غلطی نہیں ہوئی اور نہ کوئی سگنل غلط دیاگیا ۔وہیں مظفرنگر انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ یقینی طور پر ٹریک پر مرمت کا چل رہا تھا اور اسٹیشن کو بتایا گیا کہ ٹریک غیر محفوظ ہے، بلیو جوائنٹ کی پلیٹ کریک تھی،جس کی درستگی کےلیے وہاں سے 20؍ منٹ کے لئے کسی بھی ٹرین کو نہ گذارنے کا آرڈر تھا، علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ریلوے اہلکار کی ایک آڈیو کے مطابق حادثہ کی اصل وجہ ریلوے ملازمین کی غفلت اور کام نہ کرنے کی عادت ہے؛جس کے سبب درجنوں لوگ ہلاک اور سیکڑوں لوگ زخمی ہوئے ۔ ۔۔ الغرض:اس سلسلہ میں پولیس نے کہا ہے کہ ساری صوتحال تحقیقات کے بعدہی واضح ہوگی اور ایف آئی آر درج کی جائے گی؛جب کہ ریلوے وزیر سریش پر بھو نے واقعہ کی اعلیٰ تحقیقات کا حکم دےدیا ہے اوراس کے ساتھ انہوں نے اتوار کی شام تک واقعہ کے ذمہ دار افراد کی شناخت کو یقینی بنانے کی بھی تاکید کی ہے۔

یوں توملک میں ٹرین حادثات کوئی نئی اورانوکھی بات نہیں ؛مگر پچھلے چند سالوں سےپے درپےرونماہونے والے ٹرین حادثات پر حکومت  کی خاموش مزاجی نہ صرف انتہائی شرم ناک ؛بل کہ”سب کا ساتھ سب کا وکاس”کے خوش نما نعرےپر بدنما داغ ہے۔

معتبرذرائع کے مطابق اتکل ایکسپریس کو یہاں سے100؍ سے زائد رفتارکےساتھ گذراگیا اور اچانگ ٹرین کی14؍ بوگیاں پٹری سے اتر گئیں ،متعدد بوگیاں ایک دوسرے کے اوپر چڑھ گئیں ،جس کے بعد ٹرین میں سوار مسافرین میں چیخ و پکار مچ گئی ،اتنا ہی نہیں بلکہ آس پاس کے رہائشی علاقہ کے لوگ بھی اس ٹرین حادثہ کا شکار ہوگئے۔ حادثہ میں دودرجن لوگوں کی ہلاکتوں کی تصدیق ہوچکی ہے؛ جبکہ 100؍ زائد زخمیوں کا علاج قریبی اضلاع کے اسپتالوں میں جاری ہے،جہاں کئی کی حات نازک بنی ہوئی ہے۔

حادثہ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو کوچوں کے پرخچے اُڑ گئے، جن میں سیکڑوں مسافرین پھنس گئے، بعض ڈبے تو ایک دوسرے میں اس طرح گھس گئے کہ ان کی شناخت مشکل ہوگئی۔الحمدللہ الذی عافانامماابتلاھم بہ

کائنات ایک ایسی کتاب ہے جو ہمیشہ کھلی رہتی ہے؛مگر پڑھی بہت کم جاتی ہے، اسے بس کوئی خوش قسمت ،نصیبہ ور ہی پڑھتا ہےاور درس عبرت حاصل کرتاہے۔

آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہوگی؟ غالباً یہی کہ کتاب کھلی ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے جب تک کہ آنکھیں کھلی نہ ہو !

ہاں !قرآن نے اسی حقیقت کو واشگاف کرتےہوئے کہا :کیا یہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے اور کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں ؛مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ؟(الحج؛46)

کائنات کی کتاب پڑھنا ہر کسی کے بس میں نہیں ،اس کو اٹھتے بیٹھتے پڑھنا، کھڑے اور لیٹےپڑھناہر کسی کا کام نہیں ؛اس کے لئے قرآن نے ایک نہایت خوبصورت مگر کڑی شرط لگا دی ہے…. یہ ہوشمندی کی شرط ہے،جیساکہ ارشاد باری ہے:تخلیق ارض و سماء اور گردش لیل ونہارمیں ہوش مندوں کے لئے نشانیاں ہیں ” (آل عمران؛190)

پھر صرف پڑھ لینے کا عمل تو شاید بہت آسان ہو ؛مگر پڑھ کر عبرت حاصل کرنا اس سے کئی گنا زیادہ مشکل ہے ۔اگر پیش آمدہ واقعات اور امم سابقہ کے حالات میں سبق نہ ہوتا تو قرآن کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہمیں گزری قوموں کے احوال نہ سناتا۔

قرآن کا کمال یہی ہے کہ یہ اشیاءاور علوم کو اس حد تک آسان کر دیتا ہے جس کے بعد انسان ان کو سمجھنے لگے اور فطرت کی آنکھ سے حقائق کو درست طور پر خود دیکھنے کے قابل ہو۔ چنانچہ یہ اس بات کی گنجائش بھی ساتھ رکھتا ہے کہ انسان اپنی فکر واستنباط کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال بھی ضرور کرے اور اللہ نے اس کے اندر جو سوچنے سمجھنے کی خوبی اورواقعات سے نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت ودیعت کی ہے یہ اپنے آپ کو اس خوبی اور صلاحیت کے استعمال سے فارغ نہ سمجھ لے۔ یوں انسان کو اپنی عقل کی اہمیت اور حدود بھی قرآن ہی نے سمجھائی ہیں ، زندہ ضمیری اور قوتِ احساس کی عظمت سے بھی اسے قرآن ہی آگاہ کرتا ہے،اس طرح قرآن پر آکر ہی انسان اور کائنات کی فطرت یکجا ہوتی ہے۔

غرض اس طرح کے واقعات سے عبرت پکڑنےاورنصیحت حاصل کرنے کی ضرورت ہے؛جس کے لئے سب سے پہلے ہم عمر باقی کو غنیمت شمارکریں ! زندگی کے لمحات بیش بہا ،نہایت قیمتی اور قابل قدر ہیں ،اپنی عمر رواں کے بقیہ لمحات کو غنیمت جان کر،انہیں لایعنی افعال،بے فائدہ اعمال میں ہرگز صرف نہ کریں ؛بلکہ انہیں اللہ تعالی کی فرمانبرداری اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تابعداری میں گزاریں ،انسان کو اپنی حیات مستعار کے لمحات وساعات کی اس وقت قدر ہوگی جب وہ اس عالم سے کوچ کررہا ہوگا، لیکن اس وقت کا افسوس کرنا بے فائدہ ثابت ہوگاحضرت عمرو بن میمون اودی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :تم پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو! اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ، اپنی تندرستی کو بیماری سے پہلے ، اپنی تونگری کو محتاجی سے پہلے ، اپنی فرصت کو مصروفیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔(مشکوۃ)

دوسری بات یہ کہ موت کا ہر آن استحضار رکھیں !کیوں کہ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس کا دنیا کے کسی فرد بشر نے انکار نہیں کیا اور نہ کرسکتا ہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم دس آدمی جن میں سے ایک میں بھی  تھا  حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ایک انصاری صحابی ؓ نے حضور ؐ سے سوال کیا  کہ سب سے زیادہ سمجھدار اور سب سے زیادہ تجربہ کا رآدمی کون ہے ؟

 حضورﷺ نے ارشاد فرمایا جو آدمی مو ت کو سب سے زیادہ یاد کرتا ہو اور موت کے لئے سب سے زیادہ تیاری کرنے ولا ہو۔ ایسے لوگ ہی دنیاکی شرافت اور آخرت کے اعزاز کے مستحق ہیں  ۔

تیسری بات یہ کہ عافیت کی اس زندگی پرخدا کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں ایک اور موقع عطافرمایاہے؛کیوں کہ اس دنیا میں عافیت سے بڑھ کر انسان کو کوئی نعمت عطا نہیں دی گئی، عافیت ایک عظیم دائمی نعمت ہے اور کلمۂ اخلاص (لا الہ الا اللہ) کے بعد اس سے بہتر کوئی شے نہیں ۔حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا: میں نے حضرت ابوبکرؓ کو اس منبر رسولؐ پر فرماتے ہوئے سنا : میں نے پچھلے سال آج ہی کے دن رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا، پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ رُکے اور رونے لگے۔ پھر فرمایا: میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: نہیں عطا کی گئی کلمۂ اخلاص کے بعد کوئی شے جو عافیت کے مثل ہو۔ پس اللہ سے عافیت کا سوال کرو (احمد، ترمذی، ابن ماجہ )

یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی دعا افضل ہے تو آپؐ نے جواب دیا تھا کہ ’عافیت کی دعا‘۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسولؐ اللہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ کون سی دعا افضل ہے؟ فرمایا: اللہ سے دنیا اور آخرت کی عافیت کا سوال کرو۔ اگلے دن وہی آدمی پھر آیا اور اپنا سوال دہرایا: اے اللہ کے رسولؐ !کون سی دعا افضل ہے؟ فرمایا: وہی جو تجھے بتائی تھی۔ تیسرے دن وہ آدمی پھر آیا اور بولا: وہی دعا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: جس کو دنیا میں عافیت عطا کی گئی۔ اس کو نہیں عطا کیا جائے گا آخرت میں کچھ سواے فلاح کے۔ (ترمذی)

عافیت کی دعا کی وہ شان ہے کہ اس کا التزام نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کرتے تھے بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے۔

چوتھی اورآخری بات یہ کہ انسانی ہمدردی کے تئیں متاثرین کی خوب مددونصرت کریں ۔

کیوں کہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ شخص ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بھلائی واحسان کا معاملہ کرےنیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:تم زمین والوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرو ،آسمان والا تم پر رحم فر مائے گا۔(ابوداؤد)اور دوسری جگہ فرمایا کہ :اس شخص پر اللہ کی رحمت نہیں ہو تی ،جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا ۔(بخاری)

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔