عدالت اور حکومت کے اقدامات اور فیصلے!

عالم نقوی

حالیہ دنوں سے لے کر پچھلے تین برسوں میں جو کچھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے، خواہ وہ عمل ہو  خواہ رد عمل، وہ گزشتہ ستر پچھتر برسوں سے لے کر ڈیڑھ دو سو برسوں کے  واقعات  اور نتائج ہی کا تسلسل ہے۔

اِن حالات میں آج ہم اپنی طرف سے کچھ کہنے  اورعدالت و حکومت کے حالیہ  فیصلوں اور اقدامات پر براہ راست کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے مولانا مودودی کی ایک تحریر نقل کرنے پر اکتفا کریں گے لیکن اس سے پہلے اتنا کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت (اُسوہ حسنہ رسولﷺ)ناقابل تبدل ہے۔ دنیا کے تمام  فرعون، نمرود، ہامان، قارون شدَّاد اور یزید، اُن کے سامنے ’ہیچ‘ سے بھی کمتر، بے حیثیت اور بے معنی ہیں۔

 سورہ حٰم سجدہ کی اکتالیسویں آیت کے تفسیری نوٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ :’’شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح، ایک ہی مرتبہ سہی، (حق پر قائم رہتے ہوئے ) حق کے لیے لڑنے والوں، اور خصوصاً اُن کے سر بر آوردہ لوگوں، اور سب سے بڑھ کر ان کے رہنما (یا لیڈروں )سے کوئی ایسی غلطی ( یا غلطیاں ) کرادے جس کی بنا پر عامۃ ا لناس سے یہ کہا جا سکے کہ  دیکھیے صاحب ! برائی صرف ایک ہی طرف تھوڑی ہے، اگر ایک طرف سے گھٹیا حرکتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اونچے درجے کے انسان نہیں ہیں، فلاں رَکیک حرکت تو انہوں نے بھی کی ہے۔ (کیونکہ ) عام لوگوں میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ  وہ ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسری طرف کی جوابی کارروائی کے درمیان (حقیقت پسندانہ ) موازنہ کر سکیں۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہر طرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راست بازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے، اُس وقت تک وہ اُن کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں۔

لیکن اگر کہیں (خدانخواستہ ) ان کی طرف سے کوئی بے جا حرکت، یا ان کے مرتبے سے گری ہوئی حرکت سر زد ہو جائے، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی (ظلم یا فساد) کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو، تو، وہ دونوں اُن کی نگاہ میں برابر ہو جاتے ہیں۔ اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانہ مل جاتا ہے۔ اِسی بنا پر ارشاد ہوا کہ۔ ۔’’اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو۔ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ‘‘۔۔شیطان کے فریب سے چوکنّے رہو۔ وہ بڑا دَرد مَند اور خیر خواہ بن کر تمہیں اِشتعال دلائے گا کہ فلاں زیادتی تو ہرگز برداشت نہ کی جانا چاہیے اور فلاں بات(فیصلے اور حکم ) کا تو منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیے اور اس حملے (اور فیصلے ) کے جواب میں تو لڑ جانا چاہیے ورنہ تمہیں بزدل سمجھا جائے گا اور  تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی (جب کہ ہماری ہوا اکھڑنے کا جو اصل سبب ہے وہ تو قرآن پہلے ہی بتا چکا ہے مگر ہم اس پر غور ہی نہیں کرتے، اور غلبہ و تمکن کے حصول  (و اَنتُمُ ا لاَ علَونَ اِن کُنتُم مؤمنین )اور مؤثر دفاع کے لیے ہمیں کیسا ہونا چاہیے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے، یہ بھی بیان فرما چکا ہے(سورہ انفال۔ 60) اور کون اور کون ہمارے ازلی اور دائمی اور عمودی دشمن ہیں، بہ صراحت و وضاحت  اس کی بھی نشان دہی کر چکا ہے۔سورہ مائدہ۔ 84 )تو ایسے ہر موقع پر جب ہمیں اپنے اندر کسی بھی طرح کا کوئی نا مناسب اشتعال محسوس ہو تو خبر دار ہو جائیں کہ یہ شیطان کی اُکساہَٹ ہے جو غصہ دلاکر ہم  سے کوئی (بڑی )غلطی ( یا غلطیاں ) کرانا چاہتا ہے۔ اور خبر دار ہو جانے کے بعد اِس زَعم میں بھی  مُبتِلا نہ ہو جائیں  ہم تو اپنے مزاج پر بڑا قابو رکھتے ہیں، شیطان ہم  سے کوئی غلطی کرا ہی نہیں سکتا۔ اگر ایسا کیا تو یہ اپنی قوت فیصلہ اور قوت ارادی کا زَعم، شیطان کا دوسرا اور زیادہ خطر ناک فریب ہو گا۔ اس کے بجائے ہمیں اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ بس وہی  ہمیں توفیق دے اور ہماری حفاظت کرے تو ہم غلطیوں سے بچ سکتے ہیں ورنہ نہیں۔

’’وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے (حٰم سجدہ )‘‘

مخالفتوں کے طوفان میں اللہ کی پناہ مانگ لینے کے بعد جو چیز مؤمن کے دل میں صبر و سکون اور ٹھنڈک پیدا کرتی ہے وہ یہی یقین ہے کہ اللہ  بے خبر نہیں ہے (اور نہ وہ وعدہ خلافی کرتا ہے۔ ۔اِنک لا تُخلِفُ ا لمیعاد) جو کچھ ہم کر رہے ہیں اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ہمارے ساتھ کیا جارہا ہے اُس سے بھی وہ بہ خوبی واقف ہے۔ہماری اور ہمارے مخالفین کی (ہمارے کھلے اور چھپے دشمنوں کی) ساری باتیں وہ سن رہا ہے (اور اُن کی تمام سازشوں کو وہ جانتا ہے لیکن۔ ۔مکرُو و مکرَ ا للہ و ا للہُ خیرُ ا لما کرین۔۔اللہ سے بہتر منصوبہ ساز تو کوئی بھی نہیں ہے) اور ہم سب کا طرز عمل جیسا کچھ بھی ہے وہ دیکھ رہا ہے۔ اسی اعتماد پر بندہ مؤمن اپنا اور دشمنان ِدین و ایمان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے، پوری طرح مطمئن ہو جاتا ہے۔

اقبال نے کہا تھا :

ہو  بندہ  آزاد  اگر  صاحب ِ اِلہام

ہے اُس کی نگہ فکرو عمل کے لیے مہمیز

 لیکن۔ ۔

 محکوم کے اِلہام سے اللہ بچائے

غارت گرِ اَقوام ہے وہ صورت ِچنگیز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔