رؤیت کے اختلاف کو امت کا اختلاف نہیں بنائیں

ڈاکٹر محی الدین غازی

فیس بک پر تبصروں کا سیلاب آیا ہوا ہے، ان سے لگتا ہے کہ رؤیت ہلال کمیٹیوں نے امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ کچھ لوگوں نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہیں رکھا تو گویا امت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی، یہ سب نہایت جذباتی تبصرے ہیں۔ اتحاد امت نہ تو یہ ہے کہ پوری امت عربی زبان بولے، اور نہ یہ ہے کہ پوری امت ایک ساتھ روزے رکھے۔ اتحاد امت یہ ہے کہ الگ الگ زبانیں بولتے ہوئے اور الگ الگ روزے رکھتے ہوئے بھی امت میں اتحاد باقی رہے۔

اللہ پاک نے چاند کے مہینوں سے فرض روزوں کو جوڑ دیا، چاند کے مہینوں کو انتیس اور تیس والا بنایا، سورج کے مہینوں کے برعکس چاند کے مہینوں کو ایسا بنایا کہ ان کے آغاز کا تعین پہلے سے نہیں ہوپاتا ہے، اور پھر چاند کے مطالع بھی الگ الگ بنائے، ساتھ ہی موسم بھی الگ الگ بنائے اور آنکھیں بھی ایک سی نہیں بنائیں، اور پھر انسانوں کی سوچ بھی جدا جدا رکھی۔

ان ساری ہی باتوں کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ چاند کہیں نظر آتا ہے اور کہیں نہیں نظر آتا ہے، کسی کو نظر آتا ہے اور کسی کو نظر نہیں آتا ہے، چاند دیکھنے کی خبر کسی کے نزدیک بھروسے کے قابل ہوتی ہے اور کسی کے نزدیک بھروسے کے قابل نہیں ہوتی ہے۔ چاند کے سلسلے میں جدید علم اور وسائل کا استعمال کسی کے نزدیک قابل اعتبار ہوسکتا ہے اور کسی کے نزدیک نہیں۔

غرض چاند کے سلسلے میں اختلاف رؤیت، اور رؤیت کے سلسلے میں اختلاف رائے کا پورا پورا امکان رہتا ہے۔ اس امکان کو چاند بنانے والے اور روزہ فرض کرنے والے نے رکھا ہے، اس لئے اسے کوئی ختم نہیں کرسکتا ہے۔

رؤیت ہلال کے مسئلے میں امت کے لئے یہ قیمتی سبق پوشیدہ ہے کہ چاند دیکھنے اور روزہ شروع کرنے اور عید کرنے میں الگ الگ فیصلے کے باوجود باہمی اتحاد واتفاق کے ساتھ کیسے رہا جائے۔

اتحاد کے جذبے سے بے قرار ہوکر، اور ماہرین فلکیات کی مہارت سے متاثر ہوکر ترکی میں علماء کی ایک بہت بڑی کمیٹی نے ایک ماہ پہلے ہی اعلان کیا کہ اس سال پوری دنیا میں روزہ بدھ کے دن ہو، مگر ایسا کچھ نہیں ہوسکا، دراصل رمضان کا آغاز واختتام اتحاد کا مسئلہ نہیں بلکہ اختلاف کے ساتھ اتحاد کا مسئلہ ہے۔

رؤیت میں اختلاف رہے گا، اور ہمیشہ رہے گا، اسے نہ ہلال کمیٹیاں ختم کرسکتی ہیں، اور نہ ماہرین فلکیات ختم کرسکتے ہیں، ہاں حکومتیں دبا سکتی ہیں، اور پرجوش اہل قلم اچھال سکتے ہیں۔ اگر اللہ کو یہ مطلوب ہوتا کہ رمضان اور عید امت کے اتحاد کی نشانی ہوں تو روزوں کو رؤیت سے جوڑا ہی نہ جاتا۔ ماہ رمضان میں ایک امتحان یہ بھی ہے کہ رؤیت میں اختلاف کے باوجود امت اتحاد واتفاق کے ساتھ کیسے رہتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔