راج سنگھاسن ڈانوا ڈول

حفیظ نعمانی

وزیراعظم اپنے ساتھی اور دوست امت شاہ کے لئے کہاں تک جاسکتے ہیں اس کا اندازہ   اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ جو اب تک ہر کسی کا آخری سہارا تھا وہ بھی پھٹتا نظر آرہا ہے ۔ سپریم کورٹ کی زندگی میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ چار محترم سینئر جج اندرونی طور پر اپنی سی کوششوں کو ناکام دیکھ کر عوام کی عدالت میں آگئے۔ اور وہ سب کہہ دیا جس کے بعد اچھا تو یہ تھا کہ چیف جسٹس دیپک مشراجی استعفیٰ دے کر باہر آجاتے یا اسی کانفرنس میں آکر معذرت کرلیتے۔

گجرات کا سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس سی بی آئی دیکھ رہی تھی اس وقت امت شاہ گجرات کے وزیر داخلہ تھے سی بی آئی کی تحقیق کے مطابق اس کی سازش امت شاہ نے ہی کی تھی جس کی پاداش میں وزیر داخلہ ہوتے ہوئے انہیں گرفتار کیا اور جیل میں ڈال دیا۔ مودی جی وزیر اعلیٰ تھے اس کے باوجود گجرات میں ان کی ضمانت نہ ہوسکی تو سپریم کورٹ سے ضمانت کرائی مگر شرط یہ لگائی کہ وہ گجرات نہیں جائیں گے۔ مودی جی نے اس سے بھی نجات دلائی تب وہ گجرات آئے۔

سہراب الدین انکاؤنٹر کا مقدمہ مہاراشٹر میں چلتا رہا 2014 ء میں جب مودی جی بھاری اکثریت سے جیت کر آئے تو انہوں نے بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ کو صدارت سے ہٹاکر وزارت میں لینا چاہا راج ناتھ سنگھ اس کے لئے تیار نہیں تھے مگر فیصلہ مودی جی کو ہی کرنا تھا۔ انہوں نے انہیں وزیر داخلہ بنا دیا اور امت شاہ کو صدر بنا دیا۔ امت شاہ کو صدر اس تقریر کے بعد بنایا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں جتنے داغی ممبر ہیں وہ سب ایک سال کے اندر جیل میں ہوں گے۔ اور جو آج بھی سینہ تانے کرسیوں پر بیٹھے ہیں ۔ امت شاہ جن کے خلاف فرضی انکاؤنٹر کی سازش کا مقدمہ چل رہا تھا مودی جی کے نزدیک داغی نہیں تھے۔ بات صرف یہ تھی کہ مودی جی امت شاہ کو مقدمہ کی پیشیوں سے بچانا چاہتے تھے۔ جسٹس بی ایچ لویا کی عدالت میں سماعت ہورہی تھی اور امت شاہ چونکہ حکمراں پارٹی کے صدر تھے اس لئے وہ کسی تاریخ پر نہیں آتے تھے۔

جسٹس لویا نے بار بار سی بی آئی سے کہا کہ امت شاہ پیشی کی تاریخ میں اگر ممبئی میں ہوتے بھی ہیں تب بھی نہیں آتے یہ جسٹس لویا کی موت کے بعد سننے میں آیا تھا کہ ان کو ممبئی میں ان کی پسند کا ایک مکان اور کئی کروڑ روپئے کی پیشکش امت شاہ نے کرائی تھی بشرطیکہ وہ انہیں باعزت بری کردیں ۔ بعد کی کہانی بہت لمبی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ وہ ایک شادی کی تقریب میں گئے تھے اور جس گیسٹ ہائوس میں ان کا قیام تھا وہ وہاں صبح کو مردہ پائے گئے۔

ان کی موت کے بعد امت شاہ کے لئے ایک کے بعد ایک جج کا انتظام کیا گیا اور آخر ایک جج نے ان کو بری کردیا اس وقت جسٹس لویا کی اس ا تفاقی موت کا راز جاننے کے لئے مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے۔ محترم سینئر ججوں کا کہنا ہے کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے انتقال کو بھی دو سال کے قریب ہوگئے ہیں یہ کسی بہت تجربہ کار جج کو دینا چاہئے جبکہ چیف جسٹس نے اسے ایک بہت جونیئر جج کو دے دیا جن کی بی جے پی سے وابستگی بہت مشہور ہے۔ اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہی مقدمہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا بن گیا۔ اس سے پہلے اور بھی معاملات تھے جن پر اختلاف ہوچکا تھا اور ان سب کی بناء پر یہ نوبت آئی۔

اس معاملہ پر حکومت نے فی الحال تو یہ کہہ دیا کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کو اپنے اشاروں پر چلانا چاہتی ہے اور چلا رہی ہے۔ ان باتوں کی وجہ سے ہی پچھلے سال ایک چیف جسٹس وہ بھی رہے ہیں جن کی وزیراعظم سے بات چیت بھی نہیں ہوتی تھی حالانکہ دونوں برابر بیٹھے ہوتے تھے۔

مودی جی نے سپریم کورٹ کے دبائو کی وجہ سے اعلان کردیا تھا کہ وہ بارہ عدالتیں قائم کررہے ہیں جو صرف داغی پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبروں کے مقدمات کی مسلسل سماعت کریں گی لیکن سماعت تو دور اُترپردیش میں بی جے پی کے تمام داغی ممبروں کے مقدمے واپس لئے جارہے ہیں جن میں انتہائی سنگین مقدمات بھی ہیں ۔ اس کی صرف وجہ یہ ہے کہ مودی جی کو الیکشن سے فرصت نہیں ۔ ہماچل اور گجرات سے وہ فارغ ہوگئے اب کرناٹک سامنے ہے۔ وہاں بھی وکاس وکاس کہتے ہوئے جائیں گے اور اصلی ہندو نقلی ہندو اور ہندو ہی ہندو کا دشمن کے موضوع پر تقریریں کریں گے اور ماحول کو جتنا ممکن ہوگا خراب کریں گے اس لئے کہ وہاں کانگریس کی حکومت ہے۔

اور اس کے بعد مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھوٹی چھوٹی کئی ریاستوں کے الیکشن ہیں ۔ وہ جو بارہ عدالتوں کا خواب دکھایا تھا وہ خواب ہی رہے گا اور وہ اس طرح پورے ملک پر بھگوا جھنڈا  لہرانے کے لئے جھوٹے وعدے کرتے رہیں گے ان کی بلا سے جو ٹوٹتا ہے وہ ٹوٹ جائے جو بگڑتا ہے وہ بگڑ جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔