وطن پرستی کا مہلک حصار

محمدصابرحسین ندوی

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اسلامی اتحاد واتفاق اوروحدت کے خلاف مغربی سازشوں کے درمیان مصری اقوام کا فراعنہ نسل پر غرور نے نیشنلزم اور وطن پرستی کو ہوا دی، جس نے عالم اسلام کو عالم عربی میں تبدیل کردیا، جبکہ یوروپ سالہا ساس سے اس مرض کا مریض ہے، ہولو کاسٹ اور بادشاہت کی کشمکش ؛جہاں عوام غلامی وبے بسی اور بے اختیاری پر مجبور ہوگئی تھی لیکن ’’ریفارمیشن کی تحریک‘‘ نے مذہبی تسلط کو نہ صرف کم کردیا بلکہ ان کی حیثیت بے گانے کی سی ہوگئی۔عوامی اعتماد کھوکر’’کیتھولک‘‘اپنے آپ میں محصور ہوگئے، اور رومن امپائر کے چھوٹے چھوٹےعلاقے قائم ہوگئےاور ایک قسم کی جاگیرداری اور بادشاہت نے نے جگہ بنالی ؛حتی کہ ’’صنعتی انقلاب ‘‘برپا ہوا، جس کے نتیجہ میں نئی نئی قومیں پنپنے لگیں، ابتدا میں قوم نہ رنگ، نسل یا جغرافیہ کا نام نہیں بلکہ بادشاہ کا نام تھا، جس کی حکومت کے تحت مختلف رنگ ونسل اور زبان کے لوگ زندگی بسر کرتے تھے، لیکن عوام کی طبقہ واریت اور گروہ بندیوں اور بادشاہوں کی پے بہ پے خوں آشام جنگوں سےیہ فلسفہ سامنے آیا کہ قوم بادشاہ کانام نہیں بلکہ عوام اور جمہور کانام ہے، چنانچہ حاکمیت قوم یا حاکمیت جمہور کا دور شروع ہوا، اس نئے دور کے آغاز ہونے کے بعدحکومت وملوکیت کی جنگ اعلی نسلوں اور اس کی انتہائی صورت فسطائی قوت کے درمیان رسہ کشی شروع ہوئی ؛ایسے میں قوم کے سرمایہ دارانہ طبقہ نے شہ نشیں پر دولت وثروت کی گرمجوشی کے ساتھ قبضہ کرنا چاہاجو بعد میں کمیونسٹ کہلائے، اور اب حکومت وسلطنت کی یہی صورتیں عموماً ممالک میں رائج ہیں، جن کی بنیاد وطن پرستی کے مہلک حصار وحد بندی پر قائم ہے۔(دیکھئے:ڈاکٹر حسن رضا:مسئلہ قومیت:حقیقت اور فسانہ)

دراصل قدرت الہی کی پیدا کردہ نعمتوں، پہاڑوں اور دریاؤں کی حد بندی کرلینا؛سیاسی مقاصد اور حکومت کی پالیسیوں کے تحت ایک خاص حصارقائم کرلینا اور انہیں دائروں میں سمٹ کر اپنے وجود کی تکمیل اور اس پر فخر و مباہات کے ساتھ اس سے تقدیس وتعبد کا رشتہ جوڑلینا ہی وطن پرستی کی حقیقت ہے، جس کے احاطہ میں زندگی کی بہاروں اور نیرنگیوں کا حق ہوتا ہے، وہی سب سے افضل، سب سے ذکی، سب سے فطین اور سب سے زیادہ طاقتور اورقیادت و سیادت بلکہ عالمی نمائندگی واستاذی اور اتالیقی کا حق رکھتے ہیں، حتی کہ ان کے دریاؤں کا پانی امرت اور اس کی مٹی سونااور اس کے پھول کانٹے ہوتے ہیں، اور یہ عقیدہ خاص ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ قوموں کا وجود كلا على الأرض(زمین پر بوجھ) کے مثل ہے؛ انہیں زندگی کا حق صرف اتنا ہے کہ وہ سانس لیں لیکن ان کی غلامی وماتحتی کا طوق وسلاسل(پھندااور بیڑیاں ) ان کے گلے میں ہو، ان کی محنتوں اور عرق ریزی کا ثمرہ پرانہیں کا حق قرار پائے، اور کسی قسم کی مصالحت و رواداری ان کے حق میں جرم کے مترادف ہو، ان کے ملکوں اور حکومت وسلطنت کی عزت وعظمت صرف اس بات پر پوشیدہ پوتی ہے کہ طاقت وقوت اور خونخوار پتھیاروں میں اس کا مقام ہے، اور اپنے مد مقابل اور حریف سے زندگی کا حق چھین لینے اور ان کے ساتھ ناانصافی وحق تلفی کرلینے میں وہ کس قدر بے باک ہے، اس راہ میں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ قومی اخلاقی، سیاسی اور انسانی شعور کتنی دور اور نسانیت کے احرام سے کس قدر بے گانی ہے، پروفیسر جوڈ نے صحیح لکھا ہے:۔

’’قومی عظمت کا مطلب صرف اتناہوتا ہے کہ قوم کے پاس ایسی طاقت ہو جس سے وہ بوقت ضرورت اپنی خواہش وارادہ کو دوسروں پر مسلط کرسکے، یہ قومی عظمت ان قوموں کے نزدیک آئیڈیل کا درج رکھتی ہے، اس کی نامعقولیت اسی سے ظاہر ہے کہ یہ معیار اخلاقی صفات کے بالکل ضد ہے، اگر کوئی ملک ایسا ہے جو سرف سچ ہی بولتا ہے وعدے وفا کرتا ہے، اور کمزوروں کے ساتھ نسانیت کا سلوک کرتا ہے، تو ان ومن کے نزدیک اس کی عزت کی سطح پست ہے، مسٹر بلڈون کے بقول: عزت نام ہے اس قوت کا جس سے قوم خص شرف وعزت کی مالک ہو اور نگاہوں کو اپنی طرف متوجہ کرے اور ظاہر ہے کہ ایسی قوت جس سے قوم کو ایسا اعزاز وامتیاز حصل ہو موقو ف ہے آتش فشاں گولوں اور بموں پر، ان نوجوانوں کی وفاداری اور وطن دوستی پر جن کا شہروں پر ان گولوں اور بموں کا پھینکنا مھوب مشغلہ ہے، پس جس عزت کیلئے سی قوم کی تعریف کی جاتی ہے وہ انمصفات واخلاق کی بلکل ضد واقع ہوئی ہے، جن کی بنیاد ہر فرد کی تعریف کی جاتی ہے، میرے نزدیک تو قوم کو اسی قدر وحشی اور غیر مہذب سجھمنا چاہئے جس دقدر وہ ایسی رزت کی مالک ہو، فریب دہی، دغابازی، اور ظلم سے عزت حصل کرنا کسی انسان اور قوم کیلئے قطعاًباعث عزت نہیں ‘‘۔(انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر:۵۱۔۲۵۰بحوالہ:GUIDE TO MODERN WCKEDNESS.pp.152.53)

حقیقت یہ ہے کہ ققومیت اور وطنیت کا نعرہ اور اس کی بقاکا دارومدار اس کے سوا کچھ نہیں *نفرت اور خوف* کا تخم (بیج)خوب برگ و بار لائے، جس کے لازمی نتیجہ میں (وہ قوم جو قوم پرستی پر ایمان رکھتی ہو)دست درازی کرنے، دوسروں کی تحقیر و تنقید اور تنقیص کرنے کو؛ اپنا قومی حق سمجھ بیٹھتی ہیں، یہی وہ دو (نفرت اور خوف) عناصر ہیں جس کے ذریعہ قوم پرستی کی رگ پھڑ پھڑاتی ہے، اس میں ہیجان واشتعال اور جوش و خروش پیدا ہوتا ہے، اور ہر ممکن یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس آگ کو بجھنے نہ دیا جائے، اگر اس کے آثار بھی ظاہر ہوتے ہیں تو برملا ایسے موضوعات کو نشانہ بنا کر بطور حریف کھڑا کر دیا جاتا ہے جو اس آگ میں گھی کا کام کرے، اور اس کی لپٹوں سے ان کے سینے جل اٹھے، اور حاکموں کی حکومت اور قیادت کی حفاظت ہوسکے، پروفیسر جوڈنے اس کی نفسیانہ تحلیل وتجزیہ اور توجیہ یوں بیان کی ہے:

’’وہ مشترک جذبات جن کو ؤسانی سے بر انگیختہ کیا جاسکتا ہے اور جو جمہور کی بڑی بڑی جماعتوں کو حرکت میں لا سکتے ہیں وہ رحم، فیاضی اور محبت کے جذبات نہیں بلکہ نفرت اور خوف کے جذبات ہیں، جو لوگ کسی قوم پر کسی مقصد کیلئے حکمرانی کرنا چاہتے ہیں وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک اس کیلئے کوئی ایسی چیز تلاش نہ کر لیں ج سے وہ نفرت کرے، اور اس کے لئے کوئی ایسی شخسیت یا قوم نہ پیدا کرلیں جس سے وہ درے، میں ہی اگر قوموں کو متحد کرنا چاہوں تو مجھے چاہئے کہ میں ان کیلئے کسی اور سیارہ پر کوئی دشمن ایجاد کردوں، مثلاً چاند پر جس سے یہ سب قومیں ڈریں، اس بات پر قطعاً حیرت کی بات نہیں کہ اس زمانے کی قومی حکومتیں اپنی ہمسایہ قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں نفرت اور خوف ہی کے جذبات کے زیر اثر ہیں، انہیں جذبات پر ن سلطنتوں پر حکمرانی کرنے والوں کی زندگی موقوف ہے، اور انہیں جذبات پر قومی اتحاد کی بنیاد ہے‘‘(انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر:45، 246۔بحوالہ:GUIDE TODERN WCKEDNESS.pp.150.51۔)

اسلام نے اپنی آنکھیں ایسے ہی وقت میں کھولی جب کہ پورا عالم مذہبی، اخلاقی، حکومتی اور اجتماعی انتشار وحاکموں کی جبری ھکومت اور بے جا خراج وٹیکسوں کے بار عظیم سے ان کے سر جھکے جاتے تھے، ایک دوسرے کو قتل کرنا اور نسلی وقبائلی اور علاقائی امتیازات کی جنگوں میں عمریں گنوادینا ہی ان کا شیوہ بن گیا تھا؛ایسے میں کوہ صفا کی چوٹی سے آفتاب رسالت طلوع ہوا آپﷺ نے لوگوں کو توحیدورسالت کی دعوت اور اسلامی عقیدہ و فکر کی بنیاد پر منتشر عرب قبائل کو ایک کر دیا، محض تئیس سال کے مختصر عرصہ میں آباء و اجداد پر فخر کرنے والے، نسلی و خاندانی عصبیت میں ڈوبے ہوئے اور آپس میں دست و گریباں عرب قبائل کو اسلام سے وابستہ کر کے وحدت کی لڑی میں پرو دیااور ایک تسبیح کے مانند ہوگئے، آپ ؐنے ہر ایک کے قلب وجگر میں یہ بات راسخ کردی کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد پر مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا اور سب کو متحد رہنے کا حکم فرمایا، اسلام کے علاوہ قبیلہ یا خاندان وغیرہ کی بنیاد پراجتماعیت کو افتراق اور اختلاف قرار دیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’تم سب مل کر اللہ کی رسیّ کو مضبوطی سے تھام لو اور الگ الگ نہ ہوجاؤ اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پرکئے، جب تم آپس میں دشمن تھے تو اس نے تمہارے درمیان الفت ڈال دیا پھر اس کی مہربانی سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے ‘‘(آل عمران ۱۰۳)، ایک اور مقام پرفرمایا:’’ تمام اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ‘‘ (حجرات ١٠)، سورہ نساء کی آیت ۷۵ میں ہر ایک مسلمان کو تلقین کی گئی کہ بلا تفریق وتمیز مشکل اوقات میں ایک دوسرے کی مدد کریں ﴿؛حتی کہ اہل ایمان کیلئے نرم پہلو ورافت کا ایقان اور کفار ومشرکین کیلئے سختی(قرآنی نقطہ نظر سے ) کاپہلو اپنانا ؛ایک مؤمن کی پہچان قرار پایا۔(دیکھئے:سورہ فتح ۲۹)

یہی وجہ ہے کہ سن ۱۰ھ ؁حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زیادہ صحا بہ کرام میدان عرفات میں موجود تھے، یہ سب ایک عقیدہ، ایک نظریہ اور ایک قیادت کے تحت جمع تھے، قوم، نسل، اور ملک کا معیار گمشدہ شئے ہوگئی تھی ہر ایک شانہ بشانہ کھڑے ہونے میں ہی فخرواعزاز سمجھتا تھا ؛ایسے موقعہ پر آپﷺ نے خطبۂ حج میں ارشاد فرمایا ’’ اے لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے، اور تمہارا باپ (آدم) ایک ہے، عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کے سبب سے‘‘ ( مسند احمد:۲۲۹۷۸، صححہ البانی:۶؍۱۹۹)، آپﷺ ہی کافرمان ہے:’’ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں (مستدرک حاکم:۴۷۵’’۲؍۸‘‘)، امام مسلم نے بھی یہ روایت نقل کی ہے کہ سیدی رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرمایا:’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے (صحیح مسلم جز ٤ حدیث ٢٥٦٤)، امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مؤمن کیلئے مؤمن کی مثال ایک عمارت کی ہے جس کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری حدیث ٢٤٤٦)، اسی طرح ایک اور مقام پرآپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کیساتھ محبت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کیلئے مددگار ہونے میں وہ ایک ہی جسم کی مثال کی سی حیثیت رکھتے ہیں ؛ کہ جسم کا ایک حصہ بیمار ہوجائے تو تمام جسم تکلیف اور بخار میں مبتلاء ہوجاتا ہے (صحیح مسلم حدیث ٢٥٨٦)۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں ہمیشہ کوشش کرتے کہ علاقائی عصبیت اور جاہلی نخوت ابھرنے نہ پائے جبکہ منافقین اور یہودی اسی تاک اور فراک میں رہتے کہ مسلمانوں بالخصوص اوس وخزرج کے درمیان جاہلیت کی ناچاقی اور دشمنی کی یاددہانی کراکر دست وگریباں کیا جائے اور اسلامی وحدت پر کاری ضرب لگائی جائے؛۔ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ اوس و خزرج کے کچھ لوگ ایک جگہ جمع تھے اور آپس میں بات چیت کر رہے تھے، ایک یہودی شخص وہاں سے گزر رہا تھا، اللہ کے دشمن کو ان کا آپس کا اتحاد بہت ناگوار ہوا، چنانچہ اس نے ایک یہودی کو اس مجلس میں بھیج دیا، اس نے اوس و خزرج کو پچھلے زمانہ کے واقعات یاد دلائے جب اوس و خزرج کے درمیان زبردست جنگ چلی تھی، اور خصوصاً جنگ بعاث کے واقعات یاد دلائے، وہاں بیٹھے ہوئے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اٹھے اور اپنی مدد کے لئے اپنے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو بلانے لگے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکال لیں، آپ ؐ کو خبر ملی توآپؐ فوراً تشریف لائے اور فرمایا:’’أبدعوی الجاہلیۃ و انا بین اظہرکم ‘‘(یہ کیا جاہلیت کی پکار ہے ؟جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں )اور پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداءً فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا۔ ۔۔’’ائے مسلمانو!تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور الگ الگ نہ ہوجاؤ، اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم سب آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اورتم سب اللہ کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے ‘‘۔(آل عمران ۱۰۳، دیکھئے:تفسیر ابن کثیر۲؍۹۰(

اسی طرح جب غزوۂ بنی المصطلق کا واقعہ پیش آیا اور جنگ کے بعد ابھی مسلمانوں کا لشکر ’’مریسیع‘‘ کے پانی پر جمع تھا کہ اچانک ایک ناگوار واقعہ پیش آگیا، ایک مہاجر اور ایک انصاری میں اسی پانی پر جھگڑا ہوگیا اور معاملہ سنگین رخ اختیار کر گیا، مہاجر نے اپنی مدد کے لئے مہاجرین کو پکارا اور انصاری نے انصار کو، رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ فوراً وہاں تشریف لے گئے اور شدید ناراضگی کے ساتھ فرمایا: ’’ ما بال دعوی الجاہلیۃ ‘‘( یہ جاہلیت کا نعرہ کیسا ہے؟) اور فرمایا:’’دعوہا فانہا منتنۃ‘ ‘(اس نعرہ کو چھوڑ دو کیونکہ یہ بدبودار نعرہ ہے )، (دیکھئے:سنن ترمذی:۳۳۱۵)، گویا آپ ﷺ نے اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر وحدت کی تاکید کی اور نسل پرستی کی پکار سے سختی سے روکا جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور انتشار پیدا کر تا ہے۔ سنن ابو داؤد میں حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’  لیس منا من دعا الی عصبیۃ و لیس منا من قاتل عصبیۃ و لیس منا من مات علی عصبیۃ ‘‘( وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کے لئے لڑے اور وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مر جائے)۔ (حدیث نمبر:۵۱۲۱)

اسلام کا یہ طرہ امتیاز عہد صحابہ اور تبع تابعین کے ادوار میں بھی قائم رہا، یہ ملت ہمیشہ متحد اور منسلک رہی، وطنیت، نسل پرستی اور علاقائیت کے جراثیم نےفساد مچانےکی گرچہ انتھک کوشش کی ؛لیکن سعی لاحاصل ثابت ہوئی، یہاں تک کہ اس کی وسعت افریقا، ایشیا اور یوروپ تک پہونچ گئی؛جن میں مختلف زبانیں، رنگ ونسل اور موسمی حالات اور علاقےکے لوگ زندگی بسر کرتے تھے، مگران کی حیثیت ایک امت مسلمہ کی تھی، ان کا محاذ متحدہ ہوتا تھا، حتی کہ اسلامی عناد ودشمنی کے پیکر یہود ونصاری اپنی سابقہ اور دیرینہ تمنا میں بامراد ہوجایا کرتے ؛احتی کہ انہوں نے اسلامی شیرازے کو بکھیرنے اور ان کے حصن حصین میں سیندھ کرنے کیلئےترکوں کو ترک آباء واجدا کے کارنامے یاد دلائے، عربوں کو عرب قومیت کا درس دیا، اور بقیہ خلیجی ممالک کو بھی نشنلزم وطنیت کے دام فریب میں پھنسایا گیا، اور انہیں سنہرے خواب دکھلائے گئے؛نوبت یہ آئی کہ وطن پرستی اسلامی ممالک میں پیوست ہوگئی؛جس کا نتیجہ تھا کہ خلافت عثمانیہ کے پرخچے اڑادئے گئے، مسلمانوں کو بکھیر کر رکھ دیا گیا، انہیں وطنیت کے جھنڈے تھمادئے گئے، قومی لباس، قومی دن اور قومی جشن منانے کا رواج عام ہوگیا، حب الوطنی کے ترانے، اوراسی کےلئے جان ومال نثار کرنے کا جذبہ پیدا کردیا گیا، مفتی شفیع احمد صاحب ؒ نے بجا فرمایا: ’’دشمن اسلام آج سے نہیں، بلکہ ہمیشہ سے مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرنے کے لئے یہی برادری اور وطنی قومیت کا حربہ استعمال کرتے ہیں، اور جس وقت موقع مل جاتا ہے اسی سے کام لے کر مسلمانوں میں تفرقہ ڈال دیتے ہیں ‘‘( معارف القرآن تفسیر سورۂ منافقون )۔

اس سلسلہ میں حب الوطنی کا راگ الاپنے والے اور قومیت کوا سلام سے جوڑ کر اس کی روح پر حملہ کرنے والے عموما یہ استدلال کرتے ہیں کہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرتے وقت بارہا پلٹ کر کعبہ مکرمہ کی طرف حسرت کی نگاہ کرتے اور فرماتے: ’’ اے مکہ اگر تیرے باشندے مجھے نکلنے پر مجبور نہ کرتے تو میں تجھے چھوڑ کر نہ جاتا‘‘، اس واقعہ پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ ؐ کی یہ کیفیت اپنے آبائی وطن اور مسکن کی جدائی اور اسی کے فراق میں تھی؛حالانکہ یہ آپؐ کی سیرت اور خصوصیات سے کہیں بالاتر ہے، مکہ مکرمہ سے انسیت ومحبت دراصل مرکز توحید اور جدامجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی للہیت کی صدائے بازگشت اور محور انسانیت کعبہ المعظمہ کے وجود کا تقاضہ تھا، اگر آپ ﷺ کو مکہ وطنیت کی بنیاد پر عزیز تر ہوتا تو فتح مکہ کے بعد آپؐ وہاں مقیم ہو جاتے لیکن آپ ؐنے مدینہ منورہ ہی میں اقامت کو ترجیح دی، جہاں آپ کو اوس و خزرج قبائل کی نصرت اور امداد حاصل ہوئی اور آپ ؐ نے اسلامی ریاست قائم کرکے شریعت مکمل طور پر نافذ کر نے میں کامیابی حاصل کی، اسی بنا پر آپؐ انصار مدینہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور انصار سے محبت کو ایمان کی علامت قرار دیتے تھے، اور اسی نسبت سے آپؐ نے احد پہاڑ کی طرف نگاہ کرکے فرمایا تھا : ’’ ہذا جبل یحبنا و نحبہ ‘‘( یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم ان سے محبت کرتے ہیں )۔(بخاری:۳۸۵۵(

’’یہ درست ہے کہ فطری طور پر انسان کو اس گاؤں یا شہر سے محبت اور قلبی لگاؤ ہوتا ہے جہاں وہ پلتا اور بڑھتا ہے، جہاں وہ بچپن اور بچپن سے جوانی کی منزل میں قدم رکھتا ہے، اسی طرح انسان کو وہ قبیلہ اور خا ندان محبوب ہوتا ہے جس میں وہ پیدا ہوتا ہے، وہ زبان اسے عزیز تر ہوتی ہے جسے وہ ماں کی گود میں سیکھتا ہے۔ انسان ماں باپ سے محبت کرتا ہے، جن کی محبت و شفقت کے سایہ میں وہ پرورش پاتا ہے، یہ ساری محبتیں، یہ قلبی لگاؤ اور یہ جذباتی تعلق اسلام میں قابل قدر ہیں، لیکن یہ تعلق اور محبتیں اجتماعیت اور وحدت کی بنیاد نہیں بن سکتی ہیں اجتماعیت اور وحدت کی بنیاد صرف اسلامی عقیدہ ہے، رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا آدمی اپنی قوم و خاندان سے محبت کرتا ہے تو کیا یہ عصبیت میں داخل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: نہیں، لیکن عصبیت یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کی ناحق مدد کرے۔(احمد:۱۷۴۷۲، ابن ماجہ:۳۹۴۹)یعنی اگر کوئی قبیلہ و خاندان کی محبت میں عدل اور انصاف کو نظر انداز کردے تو یہی عصبیت ہے، گویا وطن یا نسل و خاندان سے محبت فطری ہے، اس سے لگاؤ کا اظہار کرنا برا نہیں ہے لیکن یہ بس تعارف کے لئے ہے، وحدت اور اجتماعیت کا نظم قائم کرنے کے لئے اس کو بنیاد بنانا بالکل درست نہیں، اسی طرح اسلام کے بجائے نسل یا وطن کو وحدت کی بنیاد بنانا عصبیت اور جاہلیت ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ا ے لوگو ! یقیناً ہم نے تم سب کو خاندانوں اور قبیلوں میں پیدا کیا تاکہ آپس میں تمہارا تعارف ہو بے شک تم لوگوں میں سب سے افضل اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے ‘‘۔(سورۂ حجرات:۱۳، دیکھئے:وطنیت اور اسلام۔مفتی حبیب الرحمن قاسمی)

اسلام کا کسی ایسے نظام یا کسی ایسی تحریک سے کوئی تعلق نہیں ؛جو ان کا دم بھرتے ہیں اور غیروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے یا یوں کہیے! حب الوطنی کے ثبوت میں حدود پارکرکے اسلامی تعلیمات کا رنگ دیتے ہیں ؛ انہیں عصبیت اور حمیت جاہلیت پر مبنی احادیث کا مطالعہ بغور کرنا چاہئے؛کیونکہ اسلام نے عالم اسلامی کو صرف دو ہی حصوں میں تقسیم کیا ہے:خدا کے پیرو اور حق کے حامی، شیطان کے پیرو اور باطل کے حامی۔اس کاحکم صاف و شفاف ہے ؛وہ صرف باطل کے خلاف تلوار بننے اور شیطانیت کا قلع قمع کرنے کا حامی ہے، فسق و فجور کو مٹادینے اور ان کے خلاف جنگ و جدل کرنے کا حکم دیتا ہے، خواہ وہ کسی نسل یا وطن سے تعلق رکھتے ہوں، یہی اس کا قاعدہ اور قانون ہے وہ محض اصول عقائد واعمال اور خدا سے وفاداری اور بغاوت اور انسانیت کیلئے نفع ومضرت کو ہی بنیاد ٹھہراتاہے، چنانچہ حضرت مفتی شفیع احمد صاحبؒ فرماتے ہیں : ’’ کاش آج بھی مسلمان اپنے قرآنی اصول اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایات پر غور کریں، غیروں کے سہارے جینے کے بجائے خود اسلامی برادری کو مضبوط بنالیں، رنگ و نسل اور زبان و وطن کے بت کو پھر ایک دفعہ توڑ ڈالیں تو آج بھی خدا تعالیٰ کی نصرت اور امداد کا مشاہدہ کھلی آنکھوں ہونے لگے‘‘(معارف القرآن تفسیر سورۂ منافقون )۔

اقوام جہان میں ہے رقابت تو اسی سے

تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے

تکمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے

تقومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔