آمار سونار بنگلہ (قسط ہفتم)

صفدر امام قادری

بنگلہ دیش کا قومی عجائب گھر: سلیقہ اوراہتمام کے ساتھ ماضی سے حال تک کا سفر 

جدید طرز کے اس قومی عجائب گھر میں ایک مذہبی خیر سگالی کا انداز یہ ثابت کرتا ہے کہ سیکولرزم ان کی اصل بہچان ہے۔

کسی بھی ملک اور قوم کی ثقافتی پہچان اس بات پر منحصر ہے کہ وہ قوم کس طرح اپنی تاریخ اور روایت کا تحفظ کرتی ہے اور اسے اپنے ماضی سے کس حد تک انسیت اور محبت ہے۔ بنگلہ دیش کے سفر میں یہ بات حقیقت کی طرح ہمارے سامنے تھی کہ تاریخ کے بڑے صبر آزما دور سے یہ لوگ گزر کر اپنے آزاد ملک تک پہنچے۔ لاکھوں جانوں کے کھپنے کے بعد بڑی مشکلوں سے اپنا آزاد ملک حاصل کیا۔ جگہ جگہ گذشتہ سے نفرت اور خوف کی باتیں برسبیلِ تذکرہ سامنے آ جاتی تھیں ۔ جن قوموں کو اپنی جانوں کی اتنی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ، ان کے درد کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ زخم زیادہ پرانے نہ ہوں اور تین چار دہائیوں کے وقفے میں انھیں پورے طور پر بھلایا بھی نہیں جا سکتا۔ بے شک بنگلہ دیش کے لوگوں کو اپنے گذشتہ زخم تازہ ہیں ۔

  قومی عجائب گھر ہر ملک میں اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ اپنی تاریخ کے بہترین اوراق اس طرح روشن کر کے پیش کیا جائے تاکہ دنیا دیکھ سکے کہ اس قوم میں اپنی خاک میں کیا کیا پوشیدہ رکھے ہیں ۔ عجائب گھر ایک طرح سے تاریخی دھارے کا وہ فن کارانہ موڑ ہے جہاں جس کی نبض پر صرف ایک انگلی رکھنے سے اس قوم کی تاریخ اور اس کا وقار اپنے آپ ساز چھیڑنے لگتے ہیں ۔ بنگلہ دیش نیا ملک ہے، اس لیے اس نے جدید طرز کا عجائب گھر تیار کیا۔ ہندستان کا قدیم ترین اور مشہور انڈین میوزیم، کلکتہ اس کے لیے بہ طورِ مثال نہیں رہا۔ طول و عرض اتنا نہ بڑھائیں کہ اسے سنبھال نہ پائیں ۔ آج انڈین میوزیم کے حالات اس کے سرمائے کی عظمت کے مطابق ہر گز نہیں ۔ مگر یہ بات خوش آئیند ہے کہ ایک چھوٹے سے ملک کا عجائب گھر اپنے انتظام اور اہتمام کے ساتھ سلیقہ شعاری میں پکار پکار کر یہ بات کہتا ہے کہ اپنے اجداد کی یادوں کو ہم نے اپنے کلیجے سے کچھ اس طرح چمٹا رکھا ہے کہ ان کی صرف حفاظت نہیں بلکہ ان کی وراثت بھی ہم نے سنبھال رکھی ہے۔

 بنگلہ زبان کے عظیم شعرا اور ادبا کے کارناموں اور ان کی تصویروں سے مزین وسیع و عریض ہال اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قوم اپنے ادیبوں اور شاعروں ، مصوروں اور مجاہدینِ آزادی سے کس درجہ محبت کرتی ہے۔ ہم دور رہنے والے دو چار پانچ بنگلہ مصنفین سے واقف ہیں مگر وہاں کم از کم پچاس مصنفین کی تصویریں ان کے کارناموں کی تفصیلات کے ساتھ نظر آئیں ۔ شو کیس میں ان کے مسودات کے صفحات، قلم، دوات، تختے اور مخصوص لباس کو پیش کرکے ان نابغۂ روزگار فن کاروں کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے وہ بہت لبھائونا ہے۔ اس میں صرف رویندر ناتھ ٹھا کر اور قاضی نذرالاسلام نہیں بلکہ پوری صدی کے بڑے لکھنے والوں کی ایک کہکشاں سجی ہوئی ہے۔

  مصوری کے نمونوں کا حصہ جدید و قدیم کا حیرت انگیز سنگم ہے۔ تصویروں کا حسن اپنی جگہ مگر انھیں پیش کرنے کا انداز بھی بے حد محبوبانہ ہے۔ پرانے مصوروں کی تصویریں دیکھتے دیکھتے جب عہدِ جدید کی طرف ہماری آنکھیں بڑھتی ہیں تو نہ جانے کیوں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان تصویروں میں سرخ رنگ کا بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ۱۹۶۰ ء سے ۱۹۷۵ ء کے دوران کی تصویروں میں غم وغصے کی لہر رنگوں کی آمیزش سے آنکھوں میں چبھن پیدا کرتی ہے۔ ہمارے لیے یہ پہلا اتفاق تھا کہ قومی جد و جہد اور انقلاب کے نشیب و فراز کو مصوروں کی آنکھوں سے دیکھا جائے اور رنگوں کی عمومی تبدیلی سے عوامی تصورات اور تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے ذہن کو تیار کیا جائے۔ ان تصویروں کے بنانے والے بنگلہ دیش اور بنگال کے بڑے مشہور لوگ ہیں جنھوں نے اپنی انفرادی کاوشیں کی ہوں گی مگر عجائب گھر کی آرٹ گیلری میں ان تصویروں کو عہد بہ عہد دیکھنے اور سمجھنے میں ان کی سنگھرش گاتھا اپنے آپ ابھر کر سامنے آ گئی۔

  جب پتھروں کا سیکشن ہماری آنکھوں کے سامنے آہا تب اندازہ ہوا کہ یہ عجائب گھر ایک نئے ملک کے چند برسوں کا اثاثہ نہیں بلکہ ہزاروں سال کے تاریخ کے یہاں ثبوت اکٹھا کیے گئے ہیں ۔ بودھ اور ہندو مذہب کے تیسری چوتھی صدی عیسوی کے آثار بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں ۔ ان کی اہمیت کے ساتھ پیش کش اس بات کا ثبوت ہے کہ اس قوم میں اپنے اسلامی نژاد ہونے کو عجائب گھر پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔سفید سنگ مر مر، سلیٹ، مٹی، لکڑی اور ٹیرا کوٹا کے مجسمے اتنی بڑی تعداد میں اکٹھا کیے گئے ہیں کہ طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔ ان کی تفصیلات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ تمام چیزیں اسی خطۂ اراضی سے حاصل ہوئیں ، جسے ہم آج کا بنگلہ دیش سمجھ سکتے ہیں ۔ اس حصے سے وہ یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قومی وراثت میں مذہب کو رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔

  ڈھاکہ کو مسجدوں کا شہر کہتے ہیں اور آباد مسجدوں کی قدم قدم پر موجودگی اس مفروضے کو حقیقت میں بدلتی ہے۔ قدیم و جدید مساجد کی تاریخ کو عجائب گھر میں تصویروں اور ڈھانچے کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں دور دراز کی قدیم مساجد اور ایسی تعمیرات جن پر چار پانچ صدیوں کا دورانیہ گذر چکا ہے، انھیں دیکھ کر اس علاقے میں اسلامی طرزِ تعمیر کے جدید و قدیم انداز آنکھوں میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ بعض مساجد کی ویرانی جو تصویروں میں نظر آئی، اس سے اس بات کا بھی پتہ چلا کہ اب وہ نمازی اور سجدہ ریز قوم گھٹتی چلی جا رہی ہے۔

   اس قومی عجائب گھر میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ سے متعلق ایک بڑا حصہ مقرر ہے۔ اسی سے ملحق بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمان کی حیات و خدمات سے متعلق حصہ بھی ہے۔ اس کا تعلق عہدِ جدید سے ہے اس لیے اخبارات، فوٹو گرافس، مصوری اور لباس کے ساتھ ساتھ جنگی ہتھیاروں اور اس کے متاثرین کی تصویریں آویزاں ہیں ۔ ایک ہال سے دوسرے ہال کی طرف بڑھتے ہوئے سانسوں پر قابو رکھنا محال تھا۔ کوئی قوم کس طرح اپنے مستقبل کے خواب کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جانیں ہتھیلوں پر رکھ کر پیش کرتی ہے اس کی مثالیں ہر طرف نظر آ رہی تھی۔ ۱۹۷۱ء کی جنگ کی ایک ایک سانس اور دھڑکن ان تصویروں میں قید ہے اور وہ سارے ثبوت آنکھوں میں لہو بن کر چھلکنے لگتے ہیں کہ کس طرح بنگلہ دیش کے لوگوں نے اپنی آزادی حاصل کرنے میں کیسی کیس قربانیاں دیں ۔ ان زنجیروں او ر کٹہروں کی علامتی تصوریں بنگلہ دیش کے عوام کی زندگی کے درد و سوز کا اعلانیہ بن رہی تھیں ۔

   عجائب گھر میں ہزاروں ایسی چیزیں موجود تھیں جنھیں دیکھے بغیر بنگلہ دیش کے لوگوں کے خواب، ان کی حکمتیں اور کار کردگی کو سمجھنا محال ہے۔ یہ بات پسندیدہ معلوم ہوئی کہ وہاں کا نیشنل میوزیم کتب و رسائل کے اعتبار سے ہوش مندی کا ثبوت دے رہا ہے اور اپنے اثاثہ کو کتابوں میں محفوظ کر کے دور دراز کے لوگوں تک پہنچا رہا ہے۔ کتابیں ہر چند ذرا مہنگی ہیں مگر ان میں اس قدر علمی سرمایہ پیوست ہے کہ اس قوم کی خدمات کو جاننے کے لیے آٹھ دس ہزار روپے کی کتابیں خریدتے ہوئے مجھے بھی خوشی کا احساس ہوا اور مجھے بھی یہ سمجھ آیا کہ ان کتابوں سے اس قوم کو سمجھنے کے لیے آگے بھی میرے پاس ماخذ موجود رہیں گے۔ بنگلہ دیش کا یہ عجائب گھر ڈھاکہ یو نی ورسٹی اور قاضی نذرالاسام کے مزار سے بالکل متصل ہے اور اپنی خوب صورت عمارت کی وجہ سے دور سے ہی ہمیں دعوت نظارہ دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔