’راج نرائن رازؔاور ان کے بعض ہم عصر شعرا‘ کے موضوع پر خطبہ

جاوید رحمانی

انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی کے زیرِ اہتمام راج نرائن رازؔ میموریل سوسائٹی کی جانب سے 07 نومبر 2017 بروز منگل شام پانچ بجے اردو گھر میں پہلا راج نرائن راز یاد گاری خطبہ کا انعقاد ہوا، جس میں معروف و ممتاز نقّاد و دانشور پروفیسر شمیم حنفی نے ’’راج نرائن رازؔ اور ان کے بعض ہم عصر شعرا‘‘  کے عنوان سے اپنا  پُر مغز خطبہ پیش کیا۔پروفیسر شمیم حنفی دو درجن سے زائد اہم کتابوں کے مصنف ہیں اور پروفیسر موصوف کے سیکڑوں ادبی، تہذیبی اور ثقافتی موضوعات پر مضامین ہندستان اور پاکستان کے ممتاز رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔

پروفیسر شمیم حنفی نے اپنی گفتگومیں 1947، تقسیمِ ملک کے وقت کے الم ناک واقعے کے پس منظر میں ہجرت کرنے والوں کے المیے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی ہجرت سے ’مہجری ادب ‘ پیدا ہواجس میں ہجرت کرنے والوں کا اپنی زمینوں سے بچھڑے اور ٹوٹنے کی نمایاں کیفیت اُجاگر ہوئی ہے۔ حنفی صاحب نے اس زمانے کے شعرا میں خاص  طور سے بلراج کومل، ناصر کاظمی، عمیق حنفی،کمار پاشی، اخترا لایمان، من موہن تلخ، راجندر منچندابانی اور ظفر اقبال  وغیرہ کی شاعری کے حوالے سے بہت دل چسپ اور عالمانہ باتیں کیں۔ پروفیسر شمیم حنفی صاحب نے مزید کہا کہ رازؔ صاحب میرے دوست تھے اور 1965  میں وہ مجھے ریلوے اسٹیشن پر لینے آئے تھے۔ اس طرح دلّی میں ان کا گھر میرا پہلا ٹھکانہ تھا۔میری دوستی ان کی موت سے ختم ہوئی۔ وہ بہت وضع دار، انسان دوست اور اردو زبان کے پُر جوش وکیل تھے۔وہ ادب دوست ہی نہیں بلکہ ادب نواز، اچھی روایت کے پاسدار اور بہت با اخلاق انسان تھے۔کلاسیکی طرز کی ان کی شاعری میں زبان و بیان کا حسن اور کردار کی عظمتیں واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں وہ ادبی حلقوں میں اپنی شرافتِ نفسی، ملنساری اور اخلاص کی وجہ سے محترم خیال کیے جاتے تھے۔

راج نرائن راز ؔ 27  اکتوبر 1930  کو بلوچستان  (پاکستان) کی ایک چھوٹی سی غیر معروف بستی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا انتقال 8 نومبر 1998  کو ٹیکساس(امریکہ) میں ہوا۔ ابتدائی تعلیم کوئٹہ میں پائی۔ تقسیم وطن کے بعد ان کا خاندان جھانسی میں آباد ہوگیا۔ انھوں نے دہلی یونی ورسٹی سے ایم۔ اے (اردو) کیا۔ کچھ عرصہ اخباروں میں کام کیا اور پھر جلد ہی انڈین انفارمیشن سروس میں آگئے جہاں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے اردو کے مشہور رسالے ’’آجکل ‘‘  کے مدیر بنے اور اسی منصب سے ریٹائر ہوئے۔

رازؔ صاحب کے تین مجموعہ ہائے کلام ’’چاند اساڑھ کا‘‘، ’’لذّت لفظوں کی‘‘ اور ’’احساس کی دھنک‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ اور دوسری نثری تخلیقات ’’منور لکھنوی: فن اور شخصیت‘‘ اور ’’خواجہ احمد عبّاس: افکار، گفتار اور کردار‘‘ بھی شائع ہوچکی ہیں۔

خورشید اکرم صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ راج نرائن راز صاحب اردو زبان وادب کے ایک بے لوث خادم تھے جنھوں نے ساری زندگی اردو کی خدمت کی۔ وہ ایک نہایت اچھے شاعر، صاحبِ اسلوب نثر نگار اور دور اندیش صحافی تھے، نیز وہ ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کی ایک نمائندہ شخصیت بھی تھے۔ خورشید اکرم صاحب نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے مزید یہ بھی کہا کہ راج نرائن راز نے اپنے پیچھے انسانی قدروں کا جو ورثہ چھوڑا ہے اس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔راز ؔ صاحب ایک قابل اور سرکردہ صحافی اور ادیب تھے۔ انھوں نے اردو ادب اور صحافت کی بڑی خدمت کی تھی۔ وہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے اور اردو زبان و ادب کے حوالے سے ان کی اردو خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس جلسے میں بڑی تعداد دانشوروں اور ادیبوں کی تھی جن میں قابل ذکر نام فاروق ارگلی، معین شاداب، پروفیسر خالد جاوید، ڈاکٹر سرورالہدیٰ، تحسین منور، جاوید رحمانی، محمد عارف خان، سریش ماتھر، اطہر ا نصاری،محمد ساجدوغیرہ ہیں۔

اس جلسے کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر نجمہ رحمانی صاحبہ نے بہ حسن و خوبی اانجام دیے۔

تبصرے بند ہیں۔