راج ٹھاکرے کا بے تکا بیان

شہاب مرزا

راج ٹھاکرے مہاراشٹر کی سیاست کے پرانے کھلاڑی تھے۔ لیکن ۲۰۱۴ انتخابات کے وقت مودی لہر کے نیچے دب کر رہ گئے۔ پھر مہاراشٹر اسمبلی میں انتخابات میں اتنا برا حال ہوا کہ ۱۳ اسمبلی سیٹ سے گر کر انکی پارٹی مہاراشٹر میں ایک ممبر اسمبلی پر آک رہ گئی۔ اور پہلی مرتبہ مہاراشٹر کے انتخابات میں حصہ لینے والی مجلس اتحاد الملسمین دو سیٹ جیت کر ان سے آگے نکل گئی تھی۔ اب پھر سے اسمبلی انتخابات قریب ہے اس لئے اپنے سیاسی وجود کی بقاء کے لئے راج ٹھاکرے نے مسلمانو ں کے خلاف ایک بے تکا بیان دیا ہے۔ راج ٹھاکرے کی مقبولیت مہاراشٹر میں کم نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ سرخیاں بٹورتے ہیں لیکن اپنے بڑ بولے پن اور بے تکے بیانات کے لئے اور اسی وجہ سے کئی دفعہ  منہ کی بھی کھاچکے ہیں۔ پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے ہیں ان کی چرب زبانی کی وجہ سے کئی بار ملک کی کئی اعلی عدالتوں نے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی۔ اور کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ وہ اپنے  منہ کی وجہ سے عدالتوں نے معافی نامہ داخل کرنے پر انہیں چھٹکارا دیا۔

 برسوں پہلے دفن ہوچکے مسجد کے لائوڈ اسپیکر اور مساجد میں جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے مجبوری کی حالت میں سڑکوں پر ادا کئے جانے والی نماز جمعہ اعتراض کر بیٹھے۔ ان کایہ بیان صرف پبلسٹی حاصل کرنے اور ۲۰۱۹ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں واپسی کی ایک ناکام کوشش ہے۔ اور یہ ایک سیاسی سرگرمی کا حصہ ہے۔ موجودہ مسلم مخالف فضاء میں خود کی جگہ بنانے اور ہندوئوں کو یہ احساس دلانے کے لئے کہ وہ بھی ہندوئوں کے لیڈر میں اس بیان کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ دراصل ملک میں فضاء ایسی بن گئی ہے کہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنا ہر تو مسلمانوں کو برا بھلا کہہ دیجئے راج ٹھاکرے بھی اس لائن پر چل رہے ہیں۔ راج ٹھاکرے نے اپنے سیاسی سفر کی شروعات اپنے چچا بال ٹھاکرے کے ساتھ کی ہے جن کا معمول ہی مسلم مخالف بیانات کا تھا۔

 راج ٹھاکرے اس سے قبل بھی اپنی چرب زبانی کی وجہ سے منہ کی کھاچکے ہیں واقعہ ۲۰۰۷ کا ہے۔ ممبئی کے ہر بر لائن ٹرینوں میں ۷ بم دھماکے ہوئے تھے ج س مں ی درجنوں افراد کی موت ہوئی تھی اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت راج ٹھاکرے نے اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی زعم میں یہ کہہ دیا تھا کہ بم دھماکوں میں ملوث ملزمین کے خلاف قانوی چارہ جوئی  کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں سیدھا پھانسی کے پھندے پر چڑھادیا جانا چاہئے اس کے بعد اس بیان پر واویلہ شروع ہوا اور یہ بیان راج ٹھاکرے کے گلے کی ہڈی بن گیا تھا۔ پھر حقوق انسانی تنظیموں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور قانونی چارہ جوئی کے بعد راج ٹھاکرے کو لا محالہ معافی نامہ داخل کرنا پڑا جب جاکر انہیں اس جھنجھٹ سے نجات ملی۔

راج ٹھاکرے کی زہر افشانی کے باوجود ریاست کے مسلمانوں نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اور کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا اسی نوعیت کا بیان راج ٹھاکرے اکثریتی طبقے کے خلاف دے کر دیکھے پھر انہیں اپنی اوقات سمجھ میں آجائے گی۔ راج ٹھاکرے اگر واقعی بے باک لیڈر ہے تو انہیں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ماب لنچنگ کے نام پر ہورہی ہندو دہشت گردی اور گائو رکشک کے روپ میں سر عام قتل وغارت گیری کا بازار گرم کرنے والے وہ بھیڑیے انہیں کیو ں نہیں نظر آتے۔ کیا مسلمان انسان نہیں ہے جو انہیں بے دردی سے ماردیا جارہا ہے۔

راج ٹھاکرے اس پر زبان کیو ں نہیں کھولتے۔ صرف اشاروں میں کیوں بات کرتے ہے۔ راج ٹھاکرے کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے جس وقت انھوں نے نو نرمان سینا بنائی تھی اس سینا میں مسلم طبقہ کاندھے سے کاندھا ملا کر ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ لیکن پھر وہ کیو ں انکا ساتھ چھوڑ کر چلا گیا۔ راج ٹھاکرے کو مسلمانوں کو مشورہ دینے سے پہلے خود احتسابی کرنی چاہئے کہ مسلمانوں کے ساتھ پانے میں وہ کہاں ناکام ہوگئے۔ ابھی کچھ دیر نہیں ہوئی ہے۔ حالات ابھی بھی سازگار ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے راج ٹھاکرے ہندوئوں کا لیڈر بننے کے بجائے۔ ایک عوامی لیڈر بننے کی کوشش کریں۔ اس میں مہاراشٹر کا نو نرمان سینا اور راج ٹھاکرے کی سیاسی بقاء کا راز مضمرہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔