عورت: ایک پہیلی

ریاض فردوسی

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش

مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند

کیا چیز ہے آرائش وقیمت میں زیادہ

آزادء نسواں کہ زمرّد کا گلوبند!

(علامہ اقبال)

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ِ دروں

(علامہ محمد اقبال)

ہے حضرت انسان کے ليے اس کا ثمرموت

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن

کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت

بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن

(علامہ اقبال)

عورت کا ذہن مرد کی اس کائنات میں

اب تک ہے الجھنوں کا نشانہ بنا ہوا

(فرزانہ نیناں)

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں

روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں

(عبدالقیوم چوہدری )

شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں

مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بدظن ہوگئے

وعظ میں فرمادیا اک دن انھوں نے صاف صاف

پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہوگئے

۔۔

عورت اپنا آپ بچالے

تب بھی مجرم ہوتی ہے

عورت اپنا آپ گنوالے

تب بھی مجرم ہوتی ہے

(نیلما سرور)

اللہ جس کی کرم نوازی لاانتہا ہے۔ اللہ نے اپنی رحمت کا کروڈواں حصہ یااس سے کم بشکل ماں ہمیں عنایت فرمایاہے۔ ماں جو ایک عورت ہے، اللہ کی بے مثال قدرت کی تمام خوبیوں کا مجموعہ، عورت کا خمیر وفا، محبت ایثار و قربانی کے جذبوں سے گندھا ہواہے۔ عورت بنی نوع  انسانی کا لازمی حصہ ہے نسل انسانی کی صالح بنیادوں پرنشو ونما کا انحصار اسی کے طرز عمل پر ہے۔ لیکن چند جاہل انسانوں نے اسے طرح طرح کے ناموں سے موسوم کیا، لیکن نبی آخر الزماں ﷺ نے بعثت کے بعد اعلان کیا کہ اے جنت کو تلاش کرنے والوں، رات کی آہوں، میدان جنگ کی صعوبتوں کو برداشت کرنے والوں، مصلے کو آنسوئوں سے بھیگونے والوں، اور اے جاہل دنیا والوں یہ جان لو یہ ڈائن نہیں، جہنم کا راستہ نہیں، بلکہ ’’جنت اللہ نے ماں کے قدموں میں رکھی ہے۔ (او کما قال ﷺ آپ ﷺ کی حدیث کا مفہوم)ہم کہیں بازار گھومنے جاتے ہیں، جب گھر آتے ہیں فوراََہی اپنی اہلیہ، بہن، یا والدہ سے چائے، کھانے یا کسی کام کی فرما ئش کرتے ہیں، کیا ہماری عورتیں نہیں تھکتی، لیکن وہ عورت بنا کسی چوں چرا کہ ہمارے کام کو انجام دیتی ہیں۔ یہ ہے اس کی پہچان۔ رمضان کی سخت گرمی میں ہمارے لئے روزہ رکھ کر افطار تیار کرتی ہے۔ ہمارے والدین کی خدمت کرتی ہے، (الا ماشاء اللہ چند جاہل عورتوں کے علاوہ سبھی شوہر کے والدین کی خدمت کرتی ہیں)ہمارے بچوں کو پالتی ہے۔ کیا یہ اس عورت پر فرض ہے؟کیا صاحب شریعت ﷺ نے اس کا حکم نصادر فرمایا ہے؟نہیں۔ ۔ وہ صرف ہماری محبت میں کرتی ہے۔ اگر ماں اپنے بچے یہ کہ دے کہ یہ شخص تیرا باپ نہیں تو کیا ہم اس کو نہیں تسلیم کریں گے۔ بالکل۔ ۔ ۔ لیکن وہ ہمارے غائبانے میں ہماری عزت کو بہال رکھتی ہے۔ کسی کے سامنے ہماری کمزوری ظاہر نہیں کرتی۔ ہمیں پریشان دیکھ خود بھی پریشان ہو جاتی ہے۔ لیکن ہم مرد طرح طرح کے غم سے اسے دوچار کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اپنے بیٹے یا بھائی کے لئے جب شادی کے لیے رشتہ ڈھونڈا جاتا ھے تو، لڑکی کی خوبصورتی، لڑکی کی شرافت، لڑکی کے کام کاج، لڑکی کا رہن سہن، لڑکی کی تعلیم لڑکی کا خاندان، لڑکی کا جہیز، لڑکی کا جائیداد میں حصہ، لڑکی کی پیدائش سے لے کر اسکی جوانی تک کی تاریخ جن کی گواہی شرط اول ہے، اوراس کے برعکس لڑکا کے لیے صرف اسکی نوکری ہونا ہی بہت ہے۔ نہ شکل و صورت اہم، نہ کردار اہم، نہ چال چلن اہم، نہ اسکے دوست احباب اہم، نہ اسکا گھر والوںسے رابطہ تعلق اہم، نہ اسکے عشق معاشقے اہم۔ ۔ بس ایک نوکری اسکے سو عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ ایسا کیوں؟

اور المیہ یہ ہے کہ:کسی کی بیٹی بہن کے گھر جب دیکھنے جاتے ہیں تو پہلے کہلوا بھیجتے ہیں کہ لڑکی دیکھنے آ رہے ہیں وہاں لڑکی کے دل پہ کیا گزرتی ہے۔ وہ دل و دماغ میں مرتی تڑپتی دعائیں مانگتی، گھٹتی ہوئی ہوتی ھے کہ

کیا ہوگا؟

میں پسند آوں گی یا نہیں؟

پسند نہ آئی تو لوگ کیا کہیں گے؟

پسند آ بھی گئی تو وہ لوگ کیسے ہوں گے؟

وہ لڑکا کیسا ھوگا؟

 ان جیسے ہزاروں سوالات

اورسب سے بڑھ کر جہالت یہ کہ لوگ کسی کی بہن بیٹی کو بلاتے ہیں۔

انکو چلنے کو کہا جاتا ہے جیسے منڈی میں بھیڑ بکریوں کو کچھ قدم چلا کر پسند کیا جاتا ہے۔

اسکے کمرے کو جاکر دیکھتے ہیں، انکے گھر کھا پی آتے ہیں اور واپس آکر ایک پیغام بنا کسی شرم و حیا کے ارسال کر دیتے ہیں۔

”معاف کرنا ہمیں لڑکی پسند نہیں، بڑے افسوس کا مقام ہے کہ بیجا تنقید، اس بے گناہ لڑکی کی کردار کشی بھی  محلے کی اور خاندان کی خواتین بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہیں۔ جو بھی ایک عورت ہی ہے۔ واہ رے ایسی ظالم عورت۔ ۔ ۔ ۔

عجیب لوگ ہیں ظلمت کے جو پجاری ہیں

چراغ وہ بھی جلاتے ہیں روشنی کے لئے

کم ظرفوں۔ ۔ ۔ ایک نہیں سو بار رشتہ نہ کرو، لیکن وہاں لڑکی دیکھنے کسی بہانے سے بھی جایا جا سکتا ہے۔ جب تک پسند نہ آئے رشتے کی بات نہ کیا کرو۔

وہ لڑکی ہے فرشتہ نہیں؟

ایک سادہ سی معصوم سی انسان۔

جس کے کچھ جذبات ہیں۔

کچھ خواب ھیں۔

اسکی بھی کوئی عزت نفس ہے۔

خدارا! اپنے چاند سے بیٹوں کے لیے پریاں ضرور ڈھونڈیں۔ پر کسی کی بہن بیٹی کو عیب لگا کر نہیں، کسی کی آہ لے کر نہیں، کسی کی بددعا لے کر نہیں۔ اچھی اور غریب لڑکیوں کو اپنائو، تاکہ آپ کی زندگی سنور جائے۔

اللہ پاک سب بہن بیٹیوں کے نصیب انکی سوچ سے زیادہ خوبصورت لکھ دے۔ (آمین یا رب العالمین)سماج کے گرتے معیار نے عورت کو صرف عیاشی کا ذریعہ بنا دیا۔ باقی اختتام موبائل اور انٹرنیٹ نے کردیا ہے۔ بہت سے ملکوں میں فحش سائٹس بندہے۔ لیکن نا جانے ہماری حکومت جو کئی ہزار سالہ تہذیب کی پاسبان ہے وہ کیوں ان کو بین نہیں کر رہی ہے، اللہ جانے۔ ۔ ۔ ۔ فلمیں ایسی بن رہی ہے کہ ان میں عورتوں کو جان بوجھ کر جسمانی عیاشی کا ذریعہ بناکر پیش کیاجارہا ہے۔ بس میں، ٹرین میں، ہوائی جہاز میں، میٹروں میں، میلا میں، اب مندر اور مزارات بھی محفوظ نہیں۔ ایک منصوبہ کے تحت عورتوں کو صرف اور صرف خواہشات پورا کرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ لیکن ہم گائے پر تو لڑ سکتے ہیں، لیکن عورت کے ناموس کی کیس عزت کی جائے، اسے سر بازار نیلامی کی منڈی میں فروخت ہونے سے کیسے بچایا جائے اس طرف کوئی انقلابی ریلی نہیں، کوئی ہنگامہ آرائی نہیں۔ ایسا کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ؟

ہم کیسے اس بات کو فراموش کر بیٹھے کہ مرد اور عورت دونوں ہی اشرف المخلوقات ہیں۔ مذہب  اسلام میں عورت کا جومقام اور عزت  ہے کسی اور مذہب میں نہیں.اسلام نے آدم کے بیٹے اور ہوا کی بیٹی میں کوئی فرق نہیں قائم کیا ہے۔

مسجد نبوی میں عورتوں کی صفات کے متعلق تبادلہ خیال ہو رہا ہے۔ مقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے معظم اصحابی رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین گفتگو میں محو ہیں۔ مولی علی کرم اللہ وجہ بھی موجود ہیں۔ ساتھیوں کی بہترین گفتگو کو سن کر خاموشی کے ساتھ اٹھ کر گھر تشریف لے گئے۔ شاہزادی کائنات، جنت کی بطول حضرت فاطمہؓ سے بات ہوئی۔ ان کو بھی بتایا کہ آج  مسجد میں اس عنوان پر گفتگو ہو رہی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عورت کون ہے؟ فرمایا، بتائیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عورت وہ ہے جو نہ خود کسی نامحرم کی طرف دیکھے اور نہ کوئی غیر محرم اس کو دیکھ سکے۔ یعنی اتنی باحیا ہو کہ اس کی اپنی نگاہیں بھی نامحرم پر نہ پڑیں اور اتنی پردہ دار ہو کہ غیر محرم بھی اس کو نہ دیکھ سکے۔ جب انہوں نے یہ بتایا کہ حضرت علیؓ  مسجد میں تشریف لائے اور عرض کیا، اے اللہ کے محبوب  ﷺفاطمہؓ نے اللہ کی پسندیدہ عورت کی دو صفتیں بتائیں۔ تو جب انہوں نے یہ صفتیں بیان فرمائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مسکرائے اور فرمایا فاطمہ بضعۃ منی، فاطمہ تو میرے دل کا ایک ٹکڑا ہے۔(او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم)

ابو داؤد، کتاب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون اُم خلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہو گیا تھا۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ بعض صحابہ نے حیرت کے ساتھ کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے؟ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا، اور تم اس اطمینان کے ساتھ با پردہ آئی ہو۔ جواب میں کہنے لگیں: ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی، میں نے بیٹا تو ضرور کھویا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں بیٹھیں تھیں کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ جو نابینا تھے آئے۔ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پردہ کر لو۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا وہ نابینا نہیں ہیں۔ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم تو نا بینا نہیں ہو۔

اس حدیث کی روشنی میں حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عورتوں کو چاہیے کہ نابینا مردوں سے بھی پردہ کریں۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو نابینوں کے پاس بیٹھنا اور بلا ضرورت ان کو دیکھنا جائز نہیں جیسا آج کل مروج ہے۔ ہاں ضرورت کے وقت عورت کو غیر محرم مرد سے بات کرنا یا دیکھنا جائز ہے۔ شرم و حیا صرف عورت کے لئے نہیں مردوں کو بھی اللہ نے نیچے نگاہ رکھنے کا حکم دیا  ہے۔

آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔ (سورۃ۔ نور۔ آیت۔ 30)

 یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ چاہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا، یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا، یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا۔ کتاب اللہ کے اس حکم کی جو تشریح سنت نے کی ہے اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں:آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے، لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو وہاں پھر نظر دوڑائے۔ نبی  دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بد کاری سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ دیکھنا آنکھوں کی زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کی زنا ہے۔ آواز سے لذت لینا کانوں کی زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کی زنا ہے۔ بد کاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہو چکتی ہیں تب شرم گاہیں یا تو اس کی تکمیل کر دیتی ہیں، یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں (بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ حضرت بُرَیدَہؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا، ترجمہ۔ اے علی ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف نہیں (احمد، ترمذی، ابو داؤد، دارمی)۔ حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلِیؓ کہتے ہیں کہ میں نے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اچانک نگاہ پڑ جائے تو کیا کروں۔ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو، یا نیچی کر لو (مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد، نسائی)۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورپرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ۔ بے شک نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں اس کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا، جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا (حدیث قدسی، طبرانی)۔ ابو امامہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ترجمہ۔ جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے۔ (مسند احمد)۔

امام جعفر صادق ؓاپنے والد امام محمد باقرؓ سے اور وہ حضرت جابرؓ بن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباس رضی اللہ عنہ (جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے) مَشْعِرَ حرام سے واپسی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا (ابو داؤد)۔ اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ خَثْعَم کی ایک عورت راستہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباسؓ نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا منہ پکڑ کر دوسری طرف کر دیا۔  (بخاری، ابو داؤد، ترمذی)

 امام اعظم ابو حنیفہؒ ایک مرتبہ تشریف لے جا رہے تھے۔ ایک آدمی حمام سے نہا کر نکلا تو اس نے ایسا تہبند باندھا ہوا تھا کہ اس کے گھٹنوں سے اوپر تھا یعنی جسم کا وہ حصہ جو مرد کے لیے چھپاناضروری ہے، وہ ننگا تھا، تو آپؒ نے اپنی آنکھوں کو فوراً بند کر لیا، وہ آدمی قریب آیا اور کہنے لگا اے نعمان! آپ کب سے اندھے ہوئے؟ آپ نے فرمایا جب سے تجھ سے حیا رخصت ہوئی تب سے میں اندھا ہو گیا ہوں۔

جو شخص کسی پاک دامن عورت  پر بدکاری کا الزام لگائے اور اس پر چار گواہ پیش نہ کرسکے، اس کی سزا قرآنِ کریم نے ۰۸ دُرّے تجویز فرمائی ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سب سے بڑے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے۔ (اوکما قال ﷺ)عورت اور کچھ نہیں صرف اور صرف ماں ہے۔ یعنی اس کے پاس صرف محبت ہی محبت ہے۔

(تفسیر ابن کثیر۔ تفہیم القرآن، حافظ صابر صاحب کے واٹس اپ سے اور دیگر مضامین سے ماخوذ )

تبصرے بند ہیں۔