راشٹرواد اور عوامی استحصال

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
فطری طورپر ہر شخص کو اپنے وطن سے محبت اور لگاؤ ہوتا ہے۔ اسے وہاں حفاظت اور اپنائیت محسوس ہوتی ہے، ماحول راس اور پسند آتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنے دیش پریم کااظہار کرے۔ لیکن گزشتہ کئی برسوں سے حب الوطنی کے اظہار پر اصرار ہورہا ہے۔ جیسے راشٹرواد کے نام سے مشتہر کیاگیا۔ میڈیانے اس کھیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عوام کی یہ رائے بنانے کی کوشش کی گئی کہ جو اپنے آپ کو راشٹر وادی کہتا ہے اس کے نزدیک راشٹرسب سے اوپر ہے اور وہ قانون سے اوپر۔ وہی ایماندار اور ملک کے بھلے کے بارے میں سوچنے والا ہے۔ اناّکی کرپشن مخالف تحریک کے دوران اس کا خوب بھوں پو بجا یا گیا۔ ملک میں ایسا ماحول بنایاگیا جیسے ملک ایک بار پھر آزادی کی لڑائی لڑرہا ہو۔ اس وقت نعرہ لگا’’ پہلے لڑے تھے گوروں سے اب لڑیں گے چوروں سے‘‘ وندے ماترم، بھارت ماتا کی جے وغیرہ۔آزادی کے نغموں کے ریکارڈ بجائے گئے۔ ہزاروں لوگ ترنگا ہاتھ میں لے کر گلی محلوں میں گھومتے نظرآئے۔ کانوڑاور درگا پوجا کے پنڈالوں میں بھی ترنگا دکھائی دیا۔
ایسا لگا جیسے کسی شخص کی سیاسی امنگوں کو پورا کرنے کیلئے سماج کے ایک طبقہ کو راشٹرواد کے کام میں لگا دیا ہو۔ کیوں کہ اسی زمانے میں سب کا ساتھ ، سب کا وکاس،اچھے دن، گڈ گورنینس اور ہر بھارت واسی کے کھاتے میں پندرہ پندرہ لاکھ آنے جیسے جملے ہوا میں گونجنے لگے۔ اسی کے ساتھ نریندرمودی وزیراعظم کے امیدوار کے طورپر سامنے آئے۔ ملک کے عوام کی سمجھ میں یہ بات بہت دیر سے آئی۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کی سمجھ میں اب بھی نا آئی ہو۔ لیکن سیاسی خیموں کی زنجیروں میں وہ اس قدر جکڑ دیے گئے ہیں کہ ان کا نکلنا فی الحال مشکل ہے۔ شکنجوں کے زور سے آج ہر شخص کے پاؤں لہولہان ہیں مگر وہ آزاد نہیں ہوپارہا ہے۔ مستقل آزادی کب حاصل ہوگی یہ کہنا تو مشکل ہے البتہ جزوی آزادی حاصل کرنے کا پانچ صوبوں کے لوگوں کو موقع ہے۔
اس دور میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ راشٹرواد کے نام پر ہی ہورہا ہے۔ اس کے الگ الگ برانڈ یا شکلیں ہیں۔ لو جہاد، آبادی کا خوف، گؤ مانس، مذہبی پرچم کو پاکستانی بتانا، نقل مکانی، گؤ رکشا، نوٹ بندی، بولنے، کہنے، سننے پر پابندی، یہ سب اس برانڈ کے الگ الگ ورژن ہیں۔ دوسرے پروڈکٹس کی طرح اس برانڈ کو فروغ دینے وفروخت کرنے کا کام میڈیا کررہاہے۔ وہاں بھی آقا ایک ہی ہے مگر ان کے چینل بہت سے ہیں۔ا ب کوئی کون سابرانڈ خریدے، اس کیلئے ایک ہی بات کہنے والے بھانت بھانت کے اینکر یا بھانت بھانت کے اینکروں کو ایک ہی بات کہنے کی تربیت دی گئی ہے۔ آپ نے کبھی سوچا کہ میڈیا راشٹرواد کو لے کر اتنا پرجوش کیوں ہے؟ کیوں ہر بارفوج اور سرحد کے نام پر اس راشٹرواد کو ابھارا جاتاہے؟ کیوں جب لوجہاد یعنی مسلم لڑکے کا ہندولڑکی سے شادی کرنے کا معاملہ ٹھنڈا پڑتا ہے توآبادی کا خوف دکھایا جاتا ہے؟ کیوں اس پر بات نہیں ہوتی کہ کس طرح ہندو لڑکیاں مسلمانوں کے پڑھے لکھے، اچھی پوزیشن والے لڑکوں کو اپنے جال میں پھنساتی ہیں؟ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کی کتنی آبادی بڑھی یہ کیوں نہیں بتایا جاتا ہے؟ کیوں یہ نہیں بتایا جاتا کہ جو بے روزگار یا کم پڑھے لکھے ہیں ان کے زیادہ بچے ہوتے ہیں وہ چاہے ہندوہوں یا مسلمان؟ یہ شوشہ جب نرم پڑنے لگتا ہے تو گؤرکشایا گؤ مانس آجاتا ہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ گوشت ایکسپورٹ کرنے والی ملک کی چار بڑی کمپنیاں ہندوؤں کی ہیں۔ انہیں کے ذریعہ سب سے زیادہ گوشت ایکسپورٹ ہوتا ہے۔ یہ بھی نہیں بتایاجاتا کہ جب جب بھاجپا کی سرکار آتی ہے گوشت کا ایکسپورٹ بڑھ جاتا ہے۔ دراصل گوشت اورچمڑے کے کاروبار میں لگے دلت اور مسلمانوں کو راشٹرواد کے نام پر اس سے باہر کرنا ہے۔ اسی لئے گؤ رکشا کو راشٹرواد سے جوڑا جاتاہے۔
بھلے ہی آپ اس لڑائی کو چند اینکروں یا لوگوں کے مابین کا معاملہ سمجھیں لیکن ایسا ہے نہیں، کوئی ہے جو یہ کھیل کھیل رہا ہے۔ کوئی ہے جس کی سیاسی امنگوں کیلئے یہ کھیل کھیلاگیا۔ اس کا چہرہ آپ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ اتنا سمجھ سکتے ہیں انہیں کے اشارے پر سب کچھ ہورہا ہے، عدم رواداری کا معاملہ ہو یا پھر نقل مکانی کا۔ یہ تو چیخ چیخ کر پورے ملک کو بتایاگیاکہ مسلم بستیوں سے غیر مسلم نقل مکانی کررہے ہیں۔ لیکن اس کی اصل وجہ کو پوشیدہ رکھا گیا۔ جب یہ باتیں کھل کر سامنے آئیں کہ لوگ اپنی ذاتی وجہوں یا کاروبار کی غرض سے منتقل ہوئے نہ کہ کسی ڈر سے تو یہ راشٹروادی بغلیں بجاتے نظرآنے لگے اور اینکروں کے منہ پر تالا لگ گیا۔ اس پر کسی نے بات نہیں کی کہ مسلمانوں کو غیرمسلم محلوں یا کالونیوں میں کیوں نہیں رہنے دیا جاتا۔ کیوں انہیں مکان کرایہ پر نہیں ملتا۔ ابھی مراد آباد کا واقعہ سامنے آیا۔ ایک مسلمان نے ہندومحلہ میں کسی غیر مسلم سے مکان خرید لیا، توپہلے محلے والوں نے اس پر اعتراض کیا، پھر مقامی سیاسی رہنما کے ذریعہ عدالت میں مقدمہ دائر کرایاگیا۔ جس میں اس مکان کو مندر کی ملکیت بتایاگیا ہے۔ عدالت کے حکم سے اس مکان پر تالا لگوادیا گیا جبکہ اس مکان کی پانچ بار خریدوفروخت ہوچکی ہے لیکن اس میں سبھی لوگ ہندویا سکھ تھے۔ پہلی مرتبہ کسی مسلمان نے یہ مکان خریدا تھا۔ عدم رواداری کا معاملہ اس سطح تک جاچکا ہے۔ چین نے دو مذہبوں کے لوگوں کے بیچ ٹکراؤکو ختم کرنے کیلئے مخلوط کالونیوں میں بسانے کا راستہ نکالا جس کا وہاں بہت مثبت اثردیکھنے میں آیا۔ بھارت میں لوگ سینکڑوں سالوں سے ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں، ان کے درمیان خلیج و نفرت پیدا کرالگ کرنے کو راشٹر واد سمجھا جارہا ہے جبکہ اس سے ملک کا سیکولر تانا بانہ کمزور و برباد ہو رہا ہے ۔، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک بہت بڑا راشٹروادی ابھیان سوچھ بھارت کے نام سے لانچ کیاگیا۔ دوسال پہلے بہت سے رہنما، کارکن، اداکار جھاڑو لے کر خوب ٹویٹ کرتے تھے۔ یہ کہا گیا کہ اکیلے سرکار سے کچھ نہیں ہوگا۔ سب آگے آکر صفائی کریں گے تو دیش صاف ہوگا۔ آج وہ لوگ کہاں ہیں؟ صفائی مہم کہاں ہے؟ وہ راشٹروادی جذبہ کہاں ہے جسے لے کر یہ لوگ چرن امرت چھڑک رہے تھے کہ اب ہم صاف ستھرے ہونے والے ہیں ان کا راشٹر واد کیوں ٹھنڈا پڑگیا؟ ان دوسالوں میں تو وہ اپنی پوری کالونی صاف کردیتے۔ اس مہم کے تحت نئی دہلی کے بالمیکی مندر کے پاس انوکھا ٹوائلیٹ بنا۔ کیا دہلی میں ویسا ٹوائلیٹ اور بھی کہیں رکھا گیا؟ کیاآپ کو دہلی کے محلوں میں یا اپنے کسی شہر میں ایسے ٹوائلیٹ، کوڑے دان نظرآتے ہیں،جو اس مہم کے تحت رکھے گئے ہوں؟ ان کی صفائی ہوتی ہو، ایک یا دوخانہ پری کے کوڑے دانوں کی بات نہیں اگر یہ کہیں کامیاب ہوئی ہوگی تووہاں کے مقامی حضرات اور انتظامیہ کی وجہ سے ۔نہ کہ ٹوئٹر پر چھائے راشٹروادی گالی غنڈوں سے۔ یہ مہم اس لئے ناکام ہوئی کیوں کہ صرف دہلی میں کئی ہزار صفائی ملازموں کی ضرورت ہے، جن کی بھرتی نہیں ہوئی، الٹے جو صفائی ملازمین کام کررہے ہیں انہیں اپنی تنخواہ کیلئے جدوجہد کرنی پڑرہی ہے۔ کئی مرتبہ تو وہ تنخواہ نہ ملنے پر دہلی کی سڑکوں پر کچرا تک پھینک چکے ہیں۔
سرجیکل اسٹرائیک پر راشٹر وادیوں نے اپنی خوب پیٹھ تھپتھپائی لیکن کیا کسی نے اس پر بات کی کہ ہمارا فوجی کیوں اٹھارہ ہزار ماہانہ پاتا ہے؟ کیا اس کی تنخواہ رکن پارلیمنٹ، رکن اسمبلی کے برابر نہیں ہونی چاہئے؟ وہ سرحد پر جاگ کر جان دے کر ملک کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ چھٹی پر لوٹتے وقت جنرل بوگی یا سکینڈ کلاس میں لد کر کیوں جاتا ہے؟ کیوں ایک جوان کو اپنے اعلیٰ افسران کے گھر میں نوکروں کی طرح کام کرنا پڑتا ہے؟ کیوں اس کا بچہ ان اسکولوں میں نہیں پڑھتا جن میں منتریوں یا رکن پارلیمنٹ، اسمبلی کے بچے پڑھتے ہیں۔کیوں فوجیوں کو ون رینک ون پینشن کے لئے آندولن کرنا پڑ رہا ہے ۔ دراصل یہ سب بڑی حکمت سے اس لئے ہورہا ہے تاکہ آپ غیر حقیقی دنیا میں رہنے لگیں۔ ویسے رہتے بھی ہیں، کوئی ہے جو آپ کو خوب سمجھا رہا ہے، یہی کہ آپ سرنیچا کئے اسمارٹ فون پر مصروف رہیں۔ آپ دیش میں ہورہی تبدیلیوں پر اپنا دماغ نہ لگاکر وہی دیکھیں جو دکھایا جائے تاکہ ان کے کام میں کسی طرح کی مداخلت نہ ہو۔
گزشتہ ڈھائی سال میں جوراشٹروادی ماحول تیار ہوا نوٹ بندی اسی کا نتیجہ ہے۔ ایک جھٹکے میں عام آدمی عرش سے فرش پر آگیا۔ غریبوں کمزوروں، ڈہاڑی مزدوروں، گھروں میں کام کرنے والی عورتوں، پنشن پر گزارا کرنے والے بزرگوں، گھر سے باہر پڑھنے گئے طالب علموں، کسانوں، زراعتی مزدوروں، زری، تالہ سازی، قینچی بنانے والوں، سائیکل انڈسٹری اور چمڑے کے سامان بنانے والے کاریگروں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ کتنے لوگ لائنوں میں کھڑے کھڑے مرگئے۔ سرکار نے اسے راشٹروادی قدم بتایا اورکہا کہ دقتیں دوچار دن، دوچار ہفتہ، پچاس دن میں دور ہو جائیں گی۔ ملک نے سب کچھ برداشت کیا کہ شاید اس سے اچھے دن آجائیں لیکن نوٹ بندی کا چالیسواں ہونے کے بعد بھی حالات جوں کے توں ہیں۔ چھوٹے و منجھولے کاروباری برباد ہوگئے۔ جہاں عام آدمی کو دوہزار اور کاروباریوں کو 24ہزار ملنے مشکل ہیں وہیں دیش میں316کروڑ روپے کی نئی کرنسی پکڑی جاچکی ہے اور 75کروڑ روپے قیمت کا سونا۔ اوپر سے روز بدلتے ریزروبینک کے قانون اور بھاجپا لیڈران کے منہ چڑھاتے بیان یہی بتا رہے ہیں کہ راشٹر واد کچھ لوگوں کی منمانی، فرقہ پرستی اورپونجی واد کا دوسرا نام ہے۔ جو صرف عوام کا استحصال اور بے عزت کرنا جانتا ہے،ان کی مدد یا عزت کی زندگی فراہم کرنا نہیں۔(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔