رام مندر کا حربہ اور بی جے پی

نازش ہما قاسمی

2019ء کے لوک سبھا الیکشن کی تیاری میں بی جے پی ابھی سے مشغول ہو گئی ہے۔۔بی جے پی کا ہدف اس الیکشن کو ہر حال میں جیتنا ہے؛ 2014 کے الیکشن کاوعدےجو بی جے پی نے اکثریتی فرقے کے افراد سے کئے تھے انہیں پورا کرنے میں ناکام رہی؛ بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے کہا تھا کہ ہم الیکشن جیتنے کے فورا بعد عالیشان رام مندر تعمیر کریں گےلیکن کر نہ سکے۔۔۔اب جب کہ 2019 کا الیکشن جیتنا ہے اس کے لیے ابھی سے توڑ جوڑ شروع ہوچکا ہے بی جے پی ایک بار پھر رام بھروسے انتخاب جیتنے کی کوشش میں ہے اس کے لیے رائے عامہ کو گمراہ کیا جارہا ہے ان کے جذبات کو برانگیختہ کیا جا رہاہے، ناکامیوں کو ان کے ذہن سے محو کرنے کے لئے پھر وہی راگ الاپا جارہا ہے، حالانکہ ملک کے عوام کو پتہ ہے کہ بابری مسجد کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے پھر کہاں کی دانشمندی ہے کہ عوام سے وعدہ کیا جائے کہ ہم عالیشان مندر تعمیر کریں گے۔۔۔کیا عدلیہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس کا کوئی مقام نہیں ہے؟ پھر یہ وعدہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے دو ٹوک لفظوں میں کہا ہے کہ جہاں ایک بار مسجد تعمیر ہوجاتی ہے وہ عرش سے فرش تک تاقیامت مسجد ہی رہے گی۔۔۔پھر بھی اس معاملے میں عدالت عظمی جو فیصلہ سنائے گی وہ ہمیں قابل قبول ہوگا۔۔۔یہ ملک کی عدلیہ پر بھروسے کی دلیل ہے، حب الوطنی کی واضح علامت ہے، اس کے برعکس ہندو تنظیمیں ہر حال میں وہاں رام مندر کی تعمیر کرنے کے در پے ہیں ، اور اس کی مکمل تیاریاں کی جاچکی ہیں ، ٹرکوں کا قافلہ اینٹیں لے کر پہنچ چکا ہے؛ تزئین کاری کے تمام سازوسامان تیار ہوچکے ہیں ، فیصلہ موافق آئے یا مخالف بس رام مندر تعمیر کرنا ہے، اس موقع پرٹھہر کر غور کیجئے کو ن وطن پرست ہے؟ کیا وطن پرستی نعرہ بازی کا  نام ہے؟

1992 میں ہندوستان کی جمہوری قدروں کو پامال کرتے ہوئے بی جے پی کے سینئر لیڈر نے رتھ یاترا کے ذریعہ ایک خونی بھیڑ کو جمع کرکے ہندوستانی جمہوریت پر سب سے بدنما داغ لگا دیا، اس کے چہرے پر کالک پوت دی، اس کی حرمت پامال کردی، جبرا بغیر عدلیہ کے فیصلے بابری مسجد کو شہید کر دیا، بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے تاہنوز سیاست جاری ہے، الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک طویل عرصہ کی سماعت کے بعد آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سناکر سب کو حیران کر دیا تھا، حالانکہ عدالت کے فیصلہ آستھا کی بنیاد پر نہیں بلکہ ثبوت کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں ، نتیجتاً یہ معاملہ سپریم کورٹ پہونچ گیا ہے اور یہاں کیس زیر سماعت ہے، ایسی صورت حال میں جبکہ کیس سپریم کورٹ میں جاری ہے، کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اور سستی شہرت کے حصول کیلئے بے تکی بیان بازی کرتے نظر آرہے ہیں ، کچھ دنوں قبل تک یہ ذمہ داری بی جے پی کے راجیہ سبھا کے ممبر سبرامنیم سوامی نے اٹھا رکھا تھی اور اب ملک میں اشتعال اور عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے کا کام شیعہ وقف بورڈ کے کچھ لوگ انجام دے رہے ہیں ، سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہوگا اور کب تک یہ فیصلہ آئے گا ہمیں اس کا انتظار ہے، اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ سپریم کورٹ پر سے ابھی عوام کا بھروسہ ختم نہیں ہوا ہے۔

لیکن فریق ثانی کی جانب سے ایسے ایسے کام  وقوع پذیر ہوتے ہیں جس سے بسا اوقات صراحتاً کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی معلوم ہوتی ہے، جس کا اندازہ اس سال کے دیوالی پر ہوئے پروگرام سے لگا یا جاسکتا ہے۔ شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی آج کل خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں ، انہیں اچانک بابری مسجد معاملہ میں دلچسپی پیدا ہوگئی ہے اور اپنے سیاسی مفاد کی خاطر مندر کی حمایت میں بیان جاری کرتے پھر رہے ہیں ، حالانکہ اس موقع پر شیعہ عالم دین مولانا کلب صادق نے صراحتاً یہ بیان جاری کیا ہے کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے اس سے بورڈ کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔۔۔ شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وسیم رضوی سی بی آئی سے بچنے کے لیے یہ سب کررہے ہیں !

یہ ہمارے ملک کی ایک عجیب پالیسی ہے، اگر کوئی سیاسی لیڈر اپنے بیان کی بنا پر میڈیا اور عوام کے عتاب کا شکار بن جاتا ہے تو فوراً ہی ایک دوسرا بیان جاری ہوتا ہے کہ میرے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا جارہا ہے، حالانکہ پہلا بیان ہی درست ہوتا ہے، دوسرا بیان تو اس کے بے بسی کی دلیل ہوا کرتی ہے، ٹھیک اسی طرح اگر کسی تنظیم کے کسی فرد نے کوئی ایسا بیان جاری کیا جس سے بورڈ یا تنظیم پر انگلی اٹھنے لگے تو بورڈ کی جانب سے بیان جاری کیا جاتا ہے کہ یہ ان صاحب کی ذاتی رائے ہے تنظیم یا بورڈ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بورڈ اس فرد واحد کو اپنی منشاء ظاہر کرنے کیلئے حکم جاری کرتا، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے، معلوم نہیں تنظیم یا بورڈ زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے یا پھر چند افراد بورڈ یا تنظیم سے زیادہ اہم ہو جاتے ہوتے ہیں ۔

اس سلسلے میں ایک نئ کوشش شری شری روی شنکر نے شروع کی ہے، ممکن ہے وہ اپنے ارادہ میں مخلص ہوں ، انہیں اس بات کا اندازہ ہو کہ 1992 میں جو کچھ ہوا تھا وہ ایک ایسا دردناک المیہ ہے جسے بھولا نہیں جاسکتا ہے، اور وہ اس بات کی سعی کررہے ہیں کہ مزید کسی قسم کی کوئی تلخی یا حالات میں خرابی پیدا نہ ہونے پائے؛ لیکن ان کے ثالثی کردار کو لے کر تشویش ضرور ہورہی ہے شیعہ وقف بورڈ کے چیرمین وسیمرضوی کا ان سے ملنا اور اپنی حمایت کا مکمل یقین دلانا؛ روی شنکر کا یہ کہنا کہ بابری مسجد تنازعہ کے حل کے لیے ہم نے بورڈ کے ممبران سے بھی گفت و شنید کی ہے اور پھر امام بخاری کا بورڈ کی خاموشی پر سوال اٹھانا یہ سب اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان عنقریب کسی بڑی سازش کے شکار ہونے والے ہیں، مسلمانوں کو بابری مسجد قضیے میں الجھاکر کوئی ایسی پالیسی تیار کرلی جائے گی جس کا انہیں وہم و گمان بھی نہیں ہوگا۔۔!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔