رام کدم کا راونی قدم

نازش ہما قاسمی

بی جے پی حکومت کا نعرہ تھا کہ ‘بیٹی پڑھائواور بیٹی بچاو ‘ لیکن بی جے پی کے ساڑھے چار سالہ دور اقتدار میں بیٹیوں پر ظلم و ستم، ان کی عصمت دری اور ان کے ساتھ ناانصافی کو دیکھ کر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وہ نعرہ محض نعرہ تھا، اس سے بیٹیوں کی فلاح و بہبودمقصود نہیں تھی؛ بلکہ بیٹیوں تک پہنچنا مقصد تھا۔۔اب تو اس نعرے کو یوں کردینا چاہیے ’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بھگاؤ‘۔ اناو عصمت دری، کٹھوعہ عصمت دری، بلند شہر اجتماعی عصمت دری اوردیگر ہائی لائٹ عصمت دری کے واقعات  میں بی جے پی کے افراد شامل تھے جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ حکومت بیٹیوں کے معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے۔

گزشتہ روز گھاٹکوپر ممبئی سے بی جے پی کے ممبر اسمبلی رام کدم نے راونی قدم اُٹھاتے ہوئے تو حد ہی کردی۔ انہوں نے دہی ہانڈی کے پروگرام میں موجود نوجوانوں کی بھیڑ کو ورغلاتے ہوئے کہا کہ ’اکھادیا ترونی لا پرپوز کیلا انیتی ناہی مہنتے، پلیز مدت کرا، مدت کرناڑ، آدھی تمچا آئی وڈیلانا گھیون یائیچے، تمچے آئی وڈیل مہنالے، صاحیب ہی ملگی پسند آہے، تر کائے کرنار می‘ تِلا پلون آننار آنی تمہالا دے نار‘ یعنی اگر کسی لڑکی کو تم چاہتے ہو اور اس کی طرف سے انکار ہے تو مجھے کہو پلیز مدد کریں، میں مدد کروں گا، پھر تم اپنے ماں باپ کو میرے پاس لے کر آئو اور ممی پاپا مجھ سے اگر بولے صاحب مجھے یہ لڑکی پسند ہے تومیں کیا کروں گا؟ تو میں اسے اغوا کرکے تمہارے حوالے کردوں گا۔ اس کے بعد بی جے پی ممبر ا سمبلی بھیڑ کو اپنا موبائل تک دیتے ہیں؛ تاکہ کسی کو اگر ضرورت ہو تو واقعی وہ اسے فون کرکے مدد حاصل کرے۔ یہ ہے ہمارے ملک کی تصویر اور یہ ہے بی جے پی کا اصل چہرہ۔ کیا عوام نے بی جے پی کو اسی لیے چنا تھا کہ ان کی لڑکیوں کا اغوا کیا جائے، ان کی لڑکیوں کی عصمت دری کی جائے۔ جو اپنی عصمت بچانے کیلیے مدد کی گہار لگائے، ممبر اسمبلی اس کی مدد کرنے کے بجائے اسے زانیوں کے سپرد کردے۔ کیا یہی مقصد تھا بی جے پی کا؟ کیا یہی رام راجیہ ہے۔؟

رام جیسا مقدس نام رکھ کر راون جیسی کرنی کیوں؟ کیا ان کے گھر میں ماں، بہن، بیٹی نہیں ہے جو اس طرح کی وہ باتیں کررہے ہیں؟ انہیں تو سب سے بہترین جواب پونے کی ایک لڑکی میناکشی پاٹل نے دیا ہے کہ ’رام کدم تمہیں میں چیلنج کرتی ہوں کہ مجھے چھو کر دکھائو پھر بتاتی ہوں کیا حال ہوتا ہے؟ بی جے پی ممبر اسمبلی کے بیان پر ہنگامہ ہے۔ رام کدم نے جس بے شرمی سے بیان دیا تھا اب بھیگی بلی بن کر اس پر افسوس جتا رہے ہیں۔اور کہہ رہے ہیں کہ  میں نے بھیڑ میں کھڑے ایک شخص کے جملے کو صرف دہرایا تھا وہ میری لائنیں نہیں تھیں۔ مہاراشٹر نونرمان سینا نے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کے گھر کے باہر پوسٹر چسپاں کیے ہیں جس میں رام کدم کو راون بتایاگیا ہے۔

 مجلس اتحاد المسلمین پارٹی کے بھائیکلہ حلقے سے ممبر اسمبلی ایڈوکیٹ وارث پٹھان نے کہا ہے کہ ’یہ وہی رام کدم ہے جس نے مہاراشٹر اسمبلی میں میری نیشنلٹی کو چیلنج کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ اگر آپ کو یہاں بیٹھنا ہے تو بھارت ماتا کی جے بولنا پڑے گا۔ میں نے نہیں بولا تھا، اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا یہ نیشنلزم کا ثبوت ہے کہ آج یہ انسان بول رہا ہے کہ ماں اور بیٹیوں کا اغوا کرائیں گے؟ ارے شرم آنی چاہئے شرم۔ ایک طرف تو مودی جی کہہ رہے ہیں کہ بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو یہاں تو بیٹی کو بھگانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ملک کی مائیں بہنیں ڈر گئی ہیں۔ ممبر اسمبلی ہوکر اس طرح کا اسٹیٹمنٹ دیتے ہوئے شرم نہیں آتی ؟

آخر ملک کس طرف جارہا ہے۔ ممبر اسمبلی جو علاقے کا رہبر ہوتا ہے وہی جب اس طرح کی باتیں کریں تو عام آدمی کس طرح تحفظ حاصل کرے گا۔ مرکز سمیت جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں عورتوں پر ظلم انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ ہر دن کسی نہ کسی علاقے میں عصمت دری کی واردات کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں، کئی ایسے واقعات تو منظر عام پر آئے ہیں جس میں بذات خود بی جے پی سے منسلک افراد شریک تھے اترپردیش اور بہار تو ریپستان (عصمت دری کرنے کی جگہ) بن چکا ہے؛ لیکن حکومت اس پر کارروائی کرنے، عورتوں پر مظالم کو روکنے میں بالکل ناکام ہے؛ بلکہ بڑھاوا دے رہی ہے۔ انائو معاملے میں آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ کس طرح یوگی حکومت نے اپنے بی جے پی ممبر اسمبلی کو بچانے کے درپے تھی وہ تو سپریم کورٹ بیچ میں آیا تب جاکر کلدیپ سنگھ سینگر کی گرفتاری ہوئی۔ شنبھولال کو ہی دیکھا ہوگا کہ کس طرح اس ظالم نے اپنی منہ بولی بہن سے عصمت دری کے گناہ کو چھپانے کےلیے ایک معصوم کا لائیو قتل کیا اور شنبھولال کے حامی اسے بچانے کےلیے سڑکوں پر اتر آئے اور اس کی جھانکیاں بناکر اسے خراج تحسین پیش کرتے رہے۔

کٹھوعہ سانحہ میں تو ترنگے کو ہی شرمسار کردیا، بی جے پی سے منسلک افراد جو کہ اس سانحے میں ملزم ٹھہرائے گئے تھے اسے بچانے کےلیے ترنگا یاترا نکالی گئی۔ کیا یہی ملک کی شبیہ ہے؟ کیا یہی رام راجیہ ہے؟ اگر یہی رام راجیہ ہے تو ملک کے سوا سو کروڑ عوام کویہ رام راجیہ پسند نہیں ہے۔ یہ واقعی رام راجیہ نہیں ہے یہ راون راجیہ ہے اور برادران وطن کی اکثریت نے جس بھروسے سے بی جے پی کو اقتدار سونپا تھا، جس اعتماد اور امید سے بی جے پی کو ووٹ کیا تھا وہ بھروسا ان کا ٹوٹ گیاہے۔ عوامی رجحان سے پتہ چل رہا ہے کہ ۲۰۱۹ میں بی جے پی عوامی ووٹ سے نہیں اقتدار میں آسکتی، ہاں! ای وی ایم اور دیگر دھاندلیوں جیسے ووٹنگ لسٹ میں ہیر پھیر جو کہ ابھی شروع ہوچکی ہے نام غائب کرنے کا عمل جاری ہے اس سے اقتدار میں ضرور آسکتی ہے۔ ملک کے عوام کو چاہئے کہ وہ ان کے خلاف ڈٹ جائیں، جو ان کے دل میں تھا زبان پر آچکا ہے وہ کبھی آپ کے خیر خواہ ثابت نہیں ہوگے۔ ان کے ممبر اسمبلی کی رکنیت رد کروائیں، ان کا اور ان جیسی ذہنیت رکھنے والے افراد کا عوامی بائیکاٹ کریں۔

مہاراشٹر کے عوام سلجھے اور باشعور ہیں۔ پورے ہندوستان میں ماب لنچنگ کی واردات رونما ہورہی ہے؛ لیکن مہاراشٹر اب تک اس سے محفوظ ہے، یہاں مائوں بیٹیوں کی عصمتیں دوسری ریاستوں کی بہ نسبت زیادہ محفوظ ہے؛ اس لیے خصوصیت کے ساتھ یہاں کے عوام کو چاہیئے کہ وہ رام کدم کے اوچھے قدم کے خلاف متحدہ طور پر اٹھ کھڑےہوں، جگہ جگہ ایف آئی آر درج کروائیں اور ان کی گرفتاری کی مانگ کریں۔ رکنیت رد کروائیں اور ممبئی شہر سمیت مہاراشٹر کے کسی بھی علاقے میں لڑکی کے اغوا کا معاملہ ہو اس میں رام کدم کو پہلے ماخوذ کریں کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے رکنِ اسمبلی ہونے کا فائدہ اُٹھا کر کسی نوجوان تک اس کو پہنچایا ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔