راہل دراوڑ ایک مثالی انسان!

ڈاکٹر ابو معاذ ترابی

راہل دراوڑ ایک مشہور ریٹائرڈ کرکٹر ہیں، وہ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہ چکے ہیں، بلے بازی میں مہارت کی وجہ سے   The wall اور Mr. Dependable جیسے خطاب سے نوازے جا چکے ہیں۔ راہل دراوڑ ایک بہترین کرکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی ظرف انسان بھی ہیں، ان کی حق گوئی و بلند اخلاق کی مثالیں اکثر سننے کو ملتی ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے انڈیا نیشنل ٹیم کے بیٹنگ کوچ بننے کے سلسلے میں گندی سیاست کا شکار بھی ہوۓ لیکن اف تک نہ کہا۔

سال گزشتہ کی ایک خبر کے مطابق راہل دراوڑ اور چار بڑے کرکٹر ایک ساتھ دو ذمہ داری نبھانے کی وجہ سے کانفلکٹ آف انٹرسٹ ( conflict of interest) کی زد میں آرہے تہے۔ راہل دراوڑ اس وقت دلی آئی پی ایل ٹیم کے ہیڈ کوچ تھے اور ساتھ ساتھ انڈیا اے و انڈیا انڈر ١٩ کے کوچ کی ذمہ داری بھی سنبھال رہے تھے۔ جب یہ مسئلہ سامنے آیا تو خود کرکٹ بورڈ نے ان کے لیے ایک تجویز نکالی کی وہ ١٠ مہینے کے معاہدے پر انڈیا اے و انڈیا انڈر ١٩ کے لیے دستخط کر لیں اور پھر اپنی آئی پی ایل ٹیم کے ساتھ دو مہینے کا معاہدہ الگ سے کرلیں، اور دو مہینے کے بعد پھر انڈیا اے و انڈر ١٩ والے اپنے معاہدے کی تجدید کرلیں, چونکہ خود بورڈ نے راستہ بتایا تھا لہذا کہیں سے اعتراض کا سوال ہی نہی تھا۔ راہل دراوڑ کو ایک موٹی رقم بھی مل جاتی، لیکن راہل دراوڑ کے زندہ ضمیر کو یہ کب گوارا ہوتا، انھوں نے دلی آئی پی ایل ٹیم کی کوچنگ جس میں کم وقت میں زیادہ پیسہ اور شہرت  تھی، سے استعفی دے دیا۔ جبکہ باقی کے تین کرکٹر نے تجویز قبول کر لی۔

اسی طرح گزشتہ سال بنگلور یونیورسٹی نے  راہل دراوڑ کو اعزازی طور پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے کا اعلان کیا، لیکن راہل درواڑ نے یونیورسٹی کی اس پیش کش کو یہ کہ کر مسترد کردیا کہ میں کھیل کے میدان میں ریسرچ کرکے  ایک دن اس ڈگری کو حاصل کرنا چاہتا ہوں۔

ایک عظیم کرکٹر کی حیثیت سے خوب دولت و شہرت کمانے کے باوجود دو تین سالوں سے وہ انڈیا اے و انڈیا انڈر ١٩ ٹیم کے کوچ جیسی چھوٹی ذمہ داری بڑی خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں۔ اتنے بڑے کرکٹر کا اتنی چھوٹی ذمہ داری کو قبول کرنے پر دنیا کے بڑے کرکٹر نے تعجب کا اظہار بھی کیا اور خوب پذیرائی سے بھی نوازا۔ کیوں کہ دراوڑ کا مقصد اگر پیسہ کمانا ہوتا تو اس سے زیادہ پیسہ کمنٹری کرکے آرام و آسائش کے ساتھ کما سکتے تھے، اس کے لیے انڈیا انڈر ١٩ جیسی چھوٹی ٹیم کے ساتھ دھوپ میں پسینہ بہانے کی ضرورت ہرگز نہ تھی۔

راہل دراوڑ کے متعلق کل ایک خبر پڑھنے کو ملی، جس نے انکی عظمت میں اور اضافہ کردیا۔ راہل دراوڑ کی نگرانی میں حال ہی میں انڈیا انڈر ١٩ نے  ورلڈکپ جیتا ہے۔ انڈیا انڈر ١٩ کی اس جیت پر انڈین کرکٹ بورڈ نے پوری ٹیم اور کوچنگ اسٹاف کے لیے انعام کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے تحت راہل دراوڑ کو ٥٠ لاکھ روپیہ اور دیگر کوچنگ اسٹاف ممبر کو ٢٠ ، ٢٠ لاکھ روپیے ملنے تھے۔

ایک عام انسان ہوتا تو انعام کی اس رقم کو بلا تامل بلکہ فخر سے قبول کرتا، کیونکہ اصولی اعتبار سے  اس میں کوئی مضائقہ نہی تھا لہذا کسی کو برا لگنے کا سوال ہی نہی تھا۔

 لیکن راہل دراوڑ کو اس نوازش میں انصاف نظر نہی آیا، انعام کی رقم لینے کے بجائے انھوں نے کرکٹ بورڈ کے سی ای او سے ملاقات کی اور درخواست کیا کہ وہ دیگر اسٹاف ممبران سے زیادہ رقم نہی لیں گے، اور ان ممبران کے علاوہ بھی ایسے ممبران ہیں جو ورلڈ کپ کے دوران ٹیم کے ساتھ نیوزیلینڈ نہی گئے تھے لیکن وہ سال دو سال سے ٹیم کے ساتھ مختلف ذمہ داریاں نبھا رہے تھے، وہ سب بھی برابر انعام کے مستحق ہیں۔

نیت میں خلوص ہو اور بات ذاتی مفاد سے پرے ہو تو اثر رکھتی ہے، انڈین کرکٹ بورڈ نے راہل دراوڑ کی تجویز کو قبول کرتے ہوۓ سارے اسٹاف  ممبران بشمول خود ان کے ٢٥ ، ٢٥ لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیا۔ بظاھر راہل دراوڑ کو ٢٥ لاکھ کا نقصان ہوا، لیکن کئی لوگوں کو اس کا فائدہ ملا اور سب سے بڑی بات اس فیصلے سے راہل درواڑ جو اطمینان وخوشی محسوس کررہے ہونگے وہ پیسے سے حاصل نہی کی جاسکتی۔

غور کریں تو راہل دراوڑ کی شخصیت ہمارے لیے سبق آموز ہے۔ دراوڑ ہمارے دور کے انسان ہیں اور مسلم بھی نہیں ہیں کہ آخرت میں اجر کی لالچ میں ایسا کررہے ہیں۔ ہم تو مسلمان ہیں، آخرت میں جزاء و سزا پر یقین رکھتے ہیں، پھر بھی چھوٹے چھوٹے منصب و معمولی رقم کو حاصل کرنے کے لیے ہم ایک لمحہ بھی نہی سوچتے کہ کسی مستحق کی حق تلفی تو نہی ہورہی ہے۔ ذاتی مفاد کی غرض بڑے بڑے ملی مفاد کو نظر انداز کرنے کے واقعات سامنے  آتے رہتے ہیں۔ کیا ہم میں سے کسی کو ایسا موقع ملتا تو دراوڑ کی طرح ذاتی مفاد سے آگے کی سوچتے؟ کیا ہمیں بھی خود کو زیادہ ملنے پر نا انصافی و عدم مساوات نظر آتی ہے؟ کیا ہم ایسی تجویز پیش کرنے کی جرأت کرتے جس میں اپنا نقصان ہو رہا ہو؟ اگر ہمارے سیاسی و مذہبی رہنما و قائدین کو  ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کی پیشکش کسی یونیورسٹی سے ہوتی تو  راہل دراوڑ جیسا موقف اختیار کرنے کا خیال بھی ان کے ذہن  میں آتا یا الٹے پاؤں ڈگری حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑتے؟ اپنا اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔