راہل گاندھی کا نانسینس

ڈاکٹر عابد الرحمن

راہل گاندھی یورپ میں انڈیا کی بات کر کے آئے ہیں۔ ۲۰۱۹ ان کی نظر میں ہے، وزیر اعظم بننے سے زیادہ مودی اور بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرکانگریس کا سیاسی وقار بحال کرنا ان کے مشن کا خاص مقصد لگتا ہے۔ مودی جی کو معیشت اور سماجیت کے محاذ پر گھیرنے کی بھرپور کوشش میں وہ مشغول ہیں، لیکن اس سب میں وہ اس بات کا خاص خیال رکھ رہے ہیں کہ ان معاملات میں مودی جی اور بی جے پی کے خلاف بولتے وقت مسلمانوں سے بھی برابر دوری بنائے رکھیں کہ کہیں لوگ انہیں مودی مخالف یعنی مسلمانوں کا حمایتی نہ سمجھ لیں !اور اس کوشش میں وہ کبھی کبھی اوٹ پٹانگ بھی ہانکے جا رہے ہیں۔

جرمنی کے ہمبرگ میں انہوں نے ملک میں ہورہے لنچنگ کے واقعات کے لئے مودی جی کی معاشی اور سما جی پالسی کی ناکامی کو ذمہ دار ٹھہرا یا کہ’ دراصل بے روز گاری،نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو اچھی طرح نافذ نہ کر پانے کی وجہ سے ہوئی کاروبار کی تباہی کہ وجہ سے لوگ غصہ میں بھرے ہیں ( اور اسی لئے لنچنگ پر اتر آئے ہیں )۔ انہوں نے بی جے پی کے متعلق کہا کہ وہ سمجھتی ہے ملک کے ہر ہر فرد کو ترقی کا پھل ملنا ضرری نہیں ہے، کمزور طبقات کسانوں اقلیتوں اور قبائلیوں کو وہ سارے فوائد نہیں ملنے چاہئیں جو اعلیٰ طبقات کو ملتے ہیں۔ انڈیا میں لنچنگ، دلتوں اور اقلیتوں پر حملوں کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ایک طاقتور (ترقیاتی)تبدیلی جو پوری دنیا کو شیپ کر رہی ہے اس میں لوگوں کے لئے کچھ تحفظات درکار ہیں لیکن (انڈیا میں )یہ تحفظات چھین لئے جارہے ہیں اور انڈیا(لنچنگ، دلتوں اور اقلیتوں پر حملوں کی صورت) اسکا ردعمل ظاہر کر رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کہنا کیا چاہ رہے ہیں !یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کمزور طبقات کے حقوق چھینے جارہے ہیں اوریہ بھی کہہ رہے ہیں اس کے ردعمل کے طور بھی انہی طبقات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔لیکن ان کے اس بیان کا بین السطور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک میں موجود کمزور طبقات بشمول اقلیتیں یا سیدھے لفظوں میں مسلمان ہی لنچنگ میں ملوث ہیں کیونکہ حکومت انہیں ان کا حق نہیں دے رہی ہے اسلئے وہ غصہ میں ردعمل کے طور پر ایسا کر رہے ہیں !۔

کیا راہل گاندھی کو معلوم نہیں کہ لنچنگ کے واقعات اکثریتی فرقہ یعنی ہندو لوگ، حکمراں طبقہ اور اس کے حمایتی کر رہے ہیں اور ان کا نشانہ مسلمان ہیں اور کہیں کہیں خانہ بدوش قبائلی اور اجنبی۔ یعنی لنچنگ کا نشانہ وہ لوگ ہیں جنہیں کمزور پچھڑے اور نظر انداز کئے ہوئے طبقات میں انہوں نے گنوایا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ملک میں لنچنگ مسلمانوں کے خلاف ہی ہو رہی ہے اوریہ بھی جانتی ہے کہ اسکا سبب ہندو مذہب اور گائے کی تقدیس کے نام پر مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت ہے اور اس میں بھی بی جے پی لیڈران اور اس کے سیاسی و سماجی حمایتی ہی صف اول میں شامل ہیں جو گائے کی تقدیس کا جھوٹا ڈنکا بجاتے ہیں کبھی دھڑلے سے مسلمانوں کا نام لے کر اور کبھی اشاروں کنایوں میں مسلمانوں کو گائے کے دشمن اور قاتل بتا کر لوگوں کو انکے خلاف بھڑکاتے ہیں، لنچنگ کے مظلومین کے خلاف اول فول بکتے ہیں اور الٹے انہی کے خلاف پولس کارروائی کی مانگ کرتے ہیں یہی نہیں ملزمین کی حمایت کرتے ہیں، ان کی قانونی امداد کرتے ہیں گل پوشی کرتے ہیں اور ہمت افزائی کرتے ہیں اور مرکزی اور صوبائی سرکاریں یہ سب خاموش دیکھتی رہتی ہیں کچھ کرتی نہیں، یہی نہیں اپوزیشن اور بالخصوص راہل گاندھی کی کانگریس پارٹی بھی اس ضمن میں وہ کچھ نہیں کرتی جو اس کی ذمہ داری ہے اور وہ بھی اس لئے نہیں کرتی کہ معاملہ ہندو بمقابلہ مسلمان کا ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو مسلمانوں سے جوڑنا نہیں چاہتی یہی سبب ہے کہ لنچنگ کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اور ہر نیا واقعہ پہلے کے مقابلے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی کوئی ایسی ٹیڑھی بات نہیں ہے کہ ہر کسی کے سمجھ میں نہ آسکے۔

کوئی مخبوط الحواس ہی ہوگا جسے ان ساری باتوں کا ادراک نہ ہواور راہل گاندھی مخبوط الحواس نہیں ہیں انہوں نے جان بوجھ کر بات کو دوسری طرف پھیرتے ہوئے اپنا الو سیدھا کر نے کی کوشش کی ہے، تاکہ بی جے پی کی سماجی پالسی کو نشانہ بھی بنایا جا سکے اور مسلمانوں کی حمایت کا پیغام بھی نہ جائے یعنی بی جے پی کی مخالفت بھی ہوجائے اورملک کے ہندو یہ بھی نہ سمجھیں کہ وہ مسلمانوں کی حمایت میں بول رہے ہیں۔ یہی دراصل کانگریس کی دوغلی سیاست ہے جس نے ہمیشہ مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے۔ کانگریس اور راہل گاندھی کی یہ بات مسلمانوں کے حق میں کسی دشمنی سے کم نہیں ہے ویسے بھی مسلمانوں کو ان سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے، اوران کی اس طرح کی نان سینس باتوں سے ایسا تو لگتا ہی نہیں کہ اگر’ تبدیلی ‘آئی بھی تو اس میں انکا کوئی خاطر خواہ حصہ ہوگا۔

    راہل گاندھی نے مسلمانوں کے حق میں ایک اور شر انگیز بات کہی، ویسے یہاں بھی انکا نشانہ مودی سرکار ہی رہی لیکن ساتھ میں مسلمانوں کو لپیٹ لیا۔ انہوں نے اسلامک اسٹیٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ترقیاتی عمل میں سے بڑی تعداد میں لوگوں کو باہر رکھنے کی وجہ سے دنیا میں کہیں بھی باغی گروہ تیار ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے قبائلیوں دلتوں اور اقلیتوں (مسلمانوں ) کو ترقیاتی عمل سے خارج کر رکھا ہے اور یہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ تو ہم راہل گاندھی کو بتا نا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر ہر ترقیاتی عمل اور قومی دھارے سے خارج کر نے کا کام تو آزادی کے بعد ہی سے بلکہ اسی وقت سے شروع کردیا گیاتھا جب آزادی ملنے کے آثار نظر آرہے تھے اس وقت تو بی جے پی اور سنگھ عالم وجود میں بھی نہیں تھے اور اگر تھے بھی تو اتنے بااختیار اور با اثر نہیں تھے جتنے آج ہیں اس وقت تو کانگریس ہی بلا شرکت غیرے ملک کے ہر سیاہ و سفید کی مالک تھی اور کانگریس ہی کی تشکیل کردہ سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی حالت زار جگ ظاہر کر کے خود کانگریس کے منھ پر کالک بھی پوتی تھی لیکن ایک طویل مدت تک ملک کے مقتدر رہے مسلمان اس حالت زار میں پہنچ جانے کے بعد بھی کبھی بغاوت کی طرف نہیں جھکے، پاکستان بننے کے وقت بھی مسلمانوں کی اکثریت نے اسکی مخالفت کی اور وہاں گئے بھی نہیں اور اس کے بعد بھی پوری ایمانداری سے انڈیا ہی کے وفادار رہے۔

آزادی کے بعد سے اب تک کے ستر سالوں میں باقائدہ منظم طریقے سے مسلسل پستی کی طرف دھکیلے جاتے رہنے کے باوجود بھی مسلمانوں نے اسلامک اسٹیٹ تو کیا کوئی چھوٹا موٹا باغی گروہ بھی نہیں بنایا اور نہ ہی کبھی ملک مخالف کسی گروہ کی حمایت کی، جو کچھ کیا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اور پر امن طریقے سے کیا۔ اس کے باوجود جب راہل گاندھی کی کانگریس حکومتوں نے مسلمانوں کو دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں سے جوڑ کر انہیں مزید بدنامی اور پستی کی طرف دھکیلنے کا کام کیا تو مسلمان عدلیہ کے ذریعہ با عزت بری ہوکراس عتاب سے بھی باہر آئے، نام نہاد مسلم دہشت گردی کے تقریباً پچانوے فیصد معاملات عدلیہ میں پہنچ کرجھوٹے اور من گھڑت ثابت ہوئے، کچھ معاملات میں عدلیہ نے مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد قراربھی دیا تو وہ بھی اعلیٰ عدلیہ سے بے قصور ہی ثابت ہوئے لیکن اس کے باوجود کانگریسی حکومت نے اور نہ ہی راہل گاندھی نے کبھی مسلمانوں سے معافی مانگی اور نہ ہی کبھی اظہار افسوس کی زحمت گوارا کی، نہ ہی خاطی پولس افسران پر کارروائی کی اور نہ ہی مسلمانوں کے لئے کسی معقول اور حقیقی معاوضہ کا بندوبست کیا۔ اس کے علاوہ آج بی جے پی جس مضبوط حالت میں ہے وہ بھی کانگریس کی مسلم سیاست ہی کی مرہون منت ہے۔ کانگریس نے مسلمانوں کو دبائے رکھنے کے لئے درپردہ طور پر بی جے پی کو بڑھاوا دیا یا کم از کم اس کی نفرت کی سیاست کو نظر انداز کیا جسکی وجہ سے آج اسکا عفریت اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس نے خود کانگریس ہی کو دبا دیا اور اب اس عفریت کو قابو کرنے اور اپنا سیاسی وقار بحال کرنے کی جدو جہد میں کانگریس مسلمانوں کو نظر انداز کر کے پھر اسی ناکام سیاسی پالسی پر عمل پیرا نظر آرہی ہے جس کے نتیجہ میں بی جے پی قدآور ہوئی۔ان دنوں راہل گاندھی جتنی شدت سے بی جے پی پر حملے کر رہے ہیں اتنی ہی شدت سے یہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے حمایتی نہیں ہیں، جا بجا یہ بھی پیغام دے رہے ہیں کہ وہ بھی اتنے ہی ہندو ہیں جتنے ہندو کہ بی جے پی اور اسکے حمایتی ہیں۔

کانگریس یہ تو جانتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے بغیر انتخابات نہیں جیت سکتی لیکن مسلمانوں کے تئیں مودی سرکار کی پالسی کی وجہ سے شاید اسے یہ غیر سمجھ ہوگئی ہیکہ مسلمانوں کے پاس کانگریس کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل ہی نہیں، وہ کانگریس کے سوا جائیں گے کہاں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے سنہری موقع ہے کہ ہم کانگریس کی سیاست کے اس مایہ جال سے نکلیں، اس سے جا بجا اظہار بیزاری اور اظہار برات کر کے راہل گاندھی کے نانسینس کا منھ توڑ جواب دیں۔ سیاسی طور پر متحد ہو کرسبھی پارٹیوں بشمول کانگریس اور بی جے پی سے مساوی فاصلہ بناتے ہوئے اپنی شرائط پر سودا کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔